• news

بھٹو کو شفاف ٹرائل کا حق نہیں ملا

اسلام آباد(اعظم گِل/خصوصی رپورٹر)سپریم کورٹ نے ذوالفقار علی بھٹو کے قتل سے متعلق صدارتی ریفرنس پر رائے سنا دی ہے اور کہا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کو شفاف ٹرائل کا حق نہیں دیا گیا۔ سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کا ٹرائل شفاف نہیں تھا، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں نو رکنی لارجر بینچ نے متفقہ رائے سنائی، جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس مسرت ہلالی بینچ میں شامل ہیں۔ چیف جسٹس نے مختصر رائے سناتے ہوئے کہا سپریم کورٹ کی رائے تمام 9 ججز کی متفقہ رائے ہے، سپریم کورٹ نے مختصر تحریری رائے جاری کردی ہے، سپریم کورٹ نے کہا سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے ٹرائل کے دوران اصولوں کومدنظر نہیں رکھا گیا، ٹرائل شفاف نہیں تھا، سزا آئین میں دیئے گئے بنیادی حقوق کے مطابق نہیں تھی، ذوالفقار علی بھٹو کی سزا کا فیصلہ تبدیل کرنے کا کوئی قانونی طریقہ کار موجود نہیں، ریفرنس پیپلز پارٹی دور میں آیا جسے بعد میں آنے والی حکومتوں نے واپس نہیں لیا، ریفرنس واپس نہ لینے سے عوام پاکستان کی اجتماعی خواہش کی عکاسی ہوتی ہے، ذوالفقار علی بھٹو کیخلاف لاہور ہائیکورٹ اور پھر سپریم کورٹ میں کیس آئین میں دیئے گئے بنیادی حقوق اور شفاف ٹرائل کے مطابق نہیں چلایا گیا، ذوالفقار علی بھٹو کو دی گئی سزا کیخلاف نظرثانی اپیل بھی خارج ہوچکی، آئین پاکستان اور قانون میں ایسا کوئی طریقہ کار موجود نہیں جس کے تحت اس فیصلے کو کالعدم قرار دیا جائے جو حتمی ہوچکا ہے، عدالت نے کہا ریفرنس میں مقدمہ کے شواہد کا جائزہ نہیں لے سکتے، ریفرنس میں ایک سوال سزا کا اسلامی اصولوں کے مطابق جائزہ لینے کا تھا، اسلامی اصولوں پر کسی فریق نے معاونت نہیں کی، اسلامی اصولوں کے مطابق فیصلہ ہونے یا نہ ہونے پر رائے نہیں دے سکتے، عدالت نے کہاججز قانون کے مطابق ہر شخص کیساتھ یکساں انصاف کے پابند ہیں، ماضی کی غلطیوں کو درست کرنے کیلئے کوشاں ہیں، عدلیہ میں خود احتسابی ہونی چاہیے، ماضی کی غلطیوں کو درست کئے بغیر آگے نہیں چل سکتے، آئین کے مطابق اپنی ذمہ داریاں ادا کرنا ہماری آئینی ذمہ داری ہے،بطور جج ہم بلا خوف و خطر، بغیر کسی رغبت اور لگاو¿، بدنیتی سے بالاتر ہو کر قانون کے مطابق بلا تفریق فیصلے کریں، عدالتی تاریخ میں کچھ ایسے مقدمات بھی ہوئے جس سے عوامی رائے نے جنم لیا کہ عدلیہ اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں خوف اور لالچ کا شکار ہے، ہمیں اپنی ماضی کی غلطیوں کو کھلے دل سے تسلیم کر کے خود احتسابی کرنی ہے، ہم اس وقت تک اپنی درستگی کر کے آگے نہیں بڑھ سکتے جب تک ماضی کی غلطیوں کو تسلیم نہ کرلیں، تفصیلی رائے بعد میں جاری کی جائے گی،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں بنچ نے چار مارچ کو سماعت مکمل ہونے پر رائے محفوظ کی تھی۔۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ جب رائے سنا رہے تھے بلاول بھٹو زرداری عدالتی رائے سن کر آبدیدہ ہوگئے۔ بار بار رومال سے اپنے آنسو صاف کرتے رہے، بعد میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 44 برس بعد تاریخ درست ہونے جا رہی ہے۔ یاد رہے کہ اپریل 2011 میں بحیثیت صدرِ پاکستان آصف زرداری نے سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی سزائے موت کے فیصلے کےخلاف ریفرنس سپریم کورٹ میں دائر کیا تھا۔ ۔موجودہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اکتوبر 2023 میں صحافیوں سے ملاقات میں ذوالفقارعلی بھٹو کی سزائے موت کے خلاف صدارتی ریفرنس کی جلد سماعت کا عندیہ دیا تھا۔

ای پیپر-دی نیشن