وزیراعظم رمضان پیکیج، تقسیم شروع، اربوں کے خسارے سے نجات ملنی چاہئے، نجکاری تیز کی جائے: شہباز شریف
اسلام آباد (خبر نگار خصوصی) ملک بھر میں ساڑھے سات ارب روپے کے وزیراعظم رمضان ریلیف پیکج کی تقسیم شروع کر دی گئی جو چاند رات تک جاری رہے گی جبکہ وزیراعظم محمد شہباز شریف نے ہدایت کی ہے کہ رمضان پیکیج میں تقسیم کی جانے والی اشیاء کے معیار کی کڑی نگرانی کی جائے۔ رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں دیگر اشیاء ضروریہ کی قیمتوں میں مصنوعی اضافہ کرنے والوں اور ذخیرہ اندوزوں کے خلاف سخت کارروائی یقینی بنائی جائے۔ رمضان میں ہی بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت 10 ہزار 500 روپے کی سہ ماہی قسط مستحق افراد میں تقسیم کی جائے۔ بلوچستان میں مستحقین کو 2 ہزار روپے اضافی دیئے جائیں۔ جمعرات کو وزیراعظم آفس کے میڈیا ونگ سے جاری پریس ریلیز کے مطابق وزیرِ اعظم محمد شہباز شریف کی زیرِ صدارت رمضان المبارک میں وزیرِ اعظم رمضان ریلیف پیکج اور بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے حوالے سے اعلیٰ سطح کا اجلاس منعقد ہوا۔ اجلاس میں سینیٹر اسحاق ڈار، احد خان چیمہ، شیزہ فاطمہ خواجہ، رومینہ خورشید عالم اور متعلقہ اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔ اجلاس کو وزیرِ اعظم رمضان ریلیف پیکیج کے حوالے سے تفصیلی طور پر آگاہ کیا گیا۔ وزیراعظم کو بتایا گیا کہ اس پیکیج کے تحت رمضان المبارک میں ملک بھر میں 3 کروڑ 96 لاکھ سے زائد خاندانوں کو اشیاء خوردونوش سستے داموں فراہم کی جا رہی ہیں۔ بینظیر انکم سپورٹ پوروگرام کے تحت اہل 88 فیصد خاندانوں کو آٹا، چاول، دالیں، گھی، خوردنی تیل، چینی، دودھ سمیت 19 اشیاء خورونوش بازار سے بارعایت فراہم کی جا رہی ہیں۔ آٹے کے 20 کلو تھیلے پر 77 روپے فی کلو اور گھی پر 70 روپے فی کلو سبسڈی دی جا رہی ہے۔ وزیرِ اعظم کا رمضان ریلیف پیکیج ملک بھر میں قائم 4 ہزار 775 یوٹیلیٹی سٹور کے ذریعے مستحق خاندانوں میں تقسیم کیا جا رہا ہے۔ اس موقع پر وزیراعظم نے کہا کہ رمضان المبارک میں غریب و متوسط خاندانوں کو اشیاء خورونوش کی بازار سے کم قیمت پر فراہمی حکومت کی اولین ترجیح ہے۔ رمضان ریلیف پیکیج میں فراہم کی جانے والی اشیاء خورونوش کے معیار پر کسی قسم کا سمجھوتہ قبول نہیں، یقینی بنایا جائے کہ رمضان پیکیج کے حصول کیلئے آنے والے مستحق افراد کو کسی قسم کی پریشانی کا سامنا نہ ہو۔ انہوں نے کہا کہ رمضان پیکیج بالخصوص سستے آٹے کی تقسیم کیلئے کائونٹرز میں اضافہ اور موبائل یونٹس کا قیام عمل میں لایا جائے۔ رمضان ریلیف پیکیج کے حوالے سے غریب و متوسط طبقے کے لوگوں تک اس کی مکمل رہنمائی پہنچائی جائے تاکہ انہیں پیکیج کے تحت اشیاء کے بروقت حصول میں کسی قسم کی دقت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ پیکیج کے حصول کیلئے آئے افراد کی شکایات کے فوری ازالے کیلئے نظام کو مزید مربوط و مؤثر بنایا جائے۔ رمضان ریلیف پیکیج کے حوالے سے کسی بھی قسم کی غفلت و سست روی برداشت نہیں کی جائے گی۔ حکومت رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں مہنگائی سے پریشان غریب و متوسط طبقے کے لوگوں کو اکیلا نہیں چھوڑے گی۔ اجلاس کو بتایا گیا کہ آٹے، دالیں، گھی، خوردنی تیل، چینی، مشروبات سمیت 19 اشیاء خوردونوش کو بازار سے کم قیمت پر فراہم کیا جا رہا ہے۔ وزیرِ اعظم رمضان پیکیج میں دی جانے والی سبسڈی کی شرح 30 فیصد ہے جو ملک میں مہنگائی کی شرح سے بھی زیادہ ہے۔ بریفنگ میں یہ بھی بتایا گیا کہ ملک بھر میں 3 کروڑ 96 لاکھ سے زائد خاندانوں کو وزیرِ اعظم رمضان ریلیف پیکیج فراہم کیا جا رہا ہے جس میں ملک کے غریب اور کم آمدن متوسط طبقے کے تقریباً تمام افراد شامل ہیں۔ مزید یہ کہ وزیرِ اعظم رمضان ریلیف پیکیج کے حصول کیلئے آئے ایسے افراد جن کو رجسٹریشن کے مسائل درپیش ہوں گے، موجودہ نظام کے تحت ان کی موقع پر ہی رجسٹریشن کی سہولت موجود ہے۔ اس کے علاوہ شکایات کے ازالے کیلئے بھی مربوط و مؤثر نظام قائم کیا گیا ہے جو کہ موقع پر ہی مستحقین کی شکایات فوری حل کر رہا ہے۔ وزیرِ اعظم کو بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے حوالے سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا گیا کہ وزیرِاعظم شہباز شریف کی خصوصی کوششوں و توجہ سے بینظیر انکم سپورٹ کے تحت رجسٹرڈ غریب و مستحق خاندانوں کی سہ ماہی امدادی رقم میں خاطر خواہ اضافہ کر کے 10 ہزار پانچ سو کر دیا گیا ہے۔ وزیرِ اعظم نے ہدایت کی کہ رمضان المبارک میں ہی ان رقوم کی فوری تقسیم مستحق افراد میں یقینی بنائی جائے۔ وزیرِ اعظم نے ہدایت کی کہ بلوچستان کے ایسے مستحق خاندان جو بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت رجسٹرڈ ہیں انہیں 10 ہزار 500 کی سہ ماہی امدادی رقم کے ساتھ ساتھ اضافی 2 ہزار روپے تقسیم کئے جائیں۔ وزیرِ اعظم نے ہدایت کی کہ رمضان ریلیف پیکیج کی تقسیم کے حوالے سے ملک گیر آگاہی مہم چلائی جائے تاکہ مستحق افراد کو نہ صرف اس حوالے سے معلومات میسر ہو بلکہ یہ پیکیج زیادہ سے زیادہ اہل، مستحق افراد تک پہنچ سکے۔
وزیراعظم محمد شہبازشریف نے نجکاری کے عمل میں حائل رکاوٹیں جلد ازجلد دور کرنے اور اسے برق رفتار بنانے، وقت کے واضح تعین کے ساتھ اقدامات اور اہداف کی تفصیل پیش کرنے اور کابینہ کی تشکیل کے ساتھ ہی پرائیویٹائزیشن سے متعلق زیر التوا حل طلب مسائل پیش کرنے کی ہدایت کی ہے اور نجکاری کے عمل میں شامل تمام اداروں کی مکمل فہرست اور پیشرفت کی رپورٹ طلب کی ہے۔ وزیراعظم آفس کے میڈیا ونگ سے جاری بیان کے مطابق وزیراعظم محمد شہبازشریف نے ہدایت کی ہے کہ نجکاری کا عمل برق رفتار بنایا جائے تاکہ معیشت کی بحالی اور عوام کو ریلیف کی فراہمی کا عمل تیز ہو، نجکاری کے ذمہ دار ادارے صلاحیت بڑھانے اور مطلوبہ استعداد حاصل کرنے کے فوری اقدامات کریں، حائل رکاوٹوں کو جلد از جلد دور کیاجائے تاکہ ملک و قوم کو اربوں روپے کے خساروں سے نجات ملے اور پاکستان کی معاشی حالت بہتر ہو۔ وزیراعظم نے نجکاری کے عمل میں شامل تمام اداروں کی مکمل فہرست اور پیشرفت کی رپورٹ پیش کرتے ہوئے ہدایت کی کہ وقت کے واضح تعین کے ساتھ اقدامات اور اہداف کی تفصیل پیش کی جائے۔ وزیراعظم ہائوس میں نجکاری کے حوالے سے منعقدہ اعلیٰ سطح کے اجلاس میں وزیراعظم شہبازشریف نے نجکاری کمیشن اور وزارت نجکاری کو ہدایت کی کہ کابینہ کی تشکیل کے ساتھ ہی پرائیویٹائزیشن سے متعلق زیر التوا حل طلب مسائل پیش کئے جائیں تاکہ کابینہ ان پر فیصلہ کرے اور یہ معاملہ حل ہو، پہلے ہی اس معاملے میں بہت تاخیر ہوچکی ہے، مزید تاخیر کی گنجائش نہیں۔ وزیراعظم نے بجلی کمپنیوں کو صوبوں کے حوالے کرنے کی تجویز پر ایک جائزہ کمیٹی بھی تشکیل دینے کی ہدایت کی جو وزیراعظم کواپنی تجاویز پیش کرے گی۔ وزیراعظم نے واضح کیا کہ نجکاری کے عمل کی تمام ذمہ داری نجکاری کمیشن اور وزارت نجکاری پر عائد ہوتی ہے، اگر کہیں مسائل ہیں تو انہیں دور کرنا بھی وزارت اور نجکاری کمیشن کی ذمہ داری ہے، اگر صلاحیت اور استعداد کے مسائل ہیں تو انہیں فی الفور دور کیا جائے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ نجکاری کے عمل کی ادارہ جاتی سطح پر شفافیت یقینی بنائیں اور نگرانی کے عالمی معیار کے موثر اور آزمودہ طریقے اختیار کئے جائیں تاکہ کوئی انگلی نہ اٹھا سکے۔ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہاکہ خسارے میں چلنے والے اداروں کی بھاری قیمت ملک اور عوام ادا کرنے پر مجبور ہیں، خدا کی رضا اور ملک وقوم کی فلاح کی نیت سے ان خساروں سے قوم کو نجات دلانے میں سب اپنا مخلصانہ کردار ادا کریں تاکہ آنے والی نسلیں ہمارا نام عزت اور احترام سے لیں۔ اجلاس میں پی آئی اے، ہائوس بلڈنگ فنانس کارپوریشن، فرسٹ ویمن بینک، روز ویلٹ ہوٹل، ہیوی الیکڑیکل کمپلیکس، بجلی کے کارخانوں اور تقسیم کار کمپنیوں، پاکستان سٹیل ملز کارپوریشن سمیت خساروں میں چلنے والے دیگر اداروں کی نجکاری کے عمل پر تازہ ترین صورتحال، اب تک کی پیشرفت اور حائل رکاوٹوں کا تفصیلی جائزہ لیا گیا۔ سیکرٹری وزارت نجکاری اور دیگر متعلقہ حکام نے بریفنگ دی۔ اجلاس کو بتایا گیا کہ نجکاری کے عمل میں تاخیر کی ایک بڑی وجہ عدالتوں سے جاری ہونے والے حکم امتناع ہیں۔ وزیراعظم نے ہدایت کی کہ اس معاملے میں حکومت کی جانب سے پیش ہونے والی قانونی ٹیم کو موثر بنایا جائے اور وزارت قانون مناسب اقدامات تجویز کرے۔ اجلاس کو بتایا گیا کہ ائیر پورٹس کی آئوٹ سورسنگ کے لئے 5 مارچ بولیوں کی وصولی کی آخری تاریخ تھی۔ اجلاس میں سینیٹر اسحاق ڈار، مصدق ملک، شیزہ فاطمہ خواجہ، رومینہ خورشید عالم، احد چیمہ، علی پرویز ملک، رانا احسان افضل، ڈپٹی چئیرمین پلاننگ کمیشن ڈاکٹر جہانزیب، گورنرسٹیٹ بینک، چئیرمین ایف بی آر، سیکرٹری نجکاری، سیکرٹری قانون سمیت اعلیٰ حکام شریک تھے۔ ممتاز بینکار محمد اورنگزیب نے ویڈیو لنک کے ذریعے اجلاس میں شرکت کی۔ علاوہ ازیں وزیر اعظم شہباز شریف کا کہنا ہے کہ خیبر پی کے ہمارا اپنا صوبہ ہے، کوشش ہوگی مل کر ساتھ چلیں، اتفاق رائے سے وفاق میں حکومت قائم ہوئی ہے، عوام کے فیصلے کا سب کو احترام کرنا ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ عوام کا فیصلہ تھا جس کا ہم سب کو احترام کرنا ہے جنہوں نے جس طریقے سے مختلف جماعتوں کو یہ مینڈیٹ دیا ہے تو پوری دنیا ہمیں باریک بینی سے ہمیں دیکھ رہی ہے کہ ان جماعتوں میں کتنی صلاحیت ہے کہ یہ اس مینڈیٹ کے اندر رہتے ہوئے کس طرح عوام کے مسائل اور چیلنجز کا مقابلہ کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ان تمام زعماء نے مشاورت کے بعد مجھے دوبارہ وزیراعظم بنانے کا فیصلہ کیا۔ ہمیں اللہ تعالیٰ سے ملک کو درپیش ہمالیہ نما چیلنجوں کیلئے دعا کرنی ہے اور پچھلے چار دنوں میں معاشی چیلنجوں پر لگاتار کئی گھنٹوں تک اجلاس کی صدارت کی ہے۔ یہ ہوشربا چیلنجز ہیں اور ہمارا گیس اور بجلی کا گردشی قرضہ مجموعی طور پر 50 کھرب ہے۔ پی آئی اے کا قرضہ 825 ارب روپے ہے۔ بجلی کی چوری سالانہ 500 ارب روپے ہے اور اسی سے اندازہ ہو جائے گا کہ صورتحال کتنی گھمبیر ہے۔ ہمسایہ ملک کے مقابلے میں ہماری جی ڈی پی کے مقابلے میں ٹیکس وصولی کی شرح بہت کم 9.8 ہے اور وہ ہم سے کہیں آگے ہیں۔ اسی طرح جی ڈی پی کے مقابلے میں سرمایہ کاری بھی کم ہے۔ انہوں نے کہا کہ جو ادارے بھی خسارے میں ہیں ان کی وجہ سے ہمیں سال کے کئی سو ارب روپے کا نقصان ہو رہا ہے اور اس نقصان کو قرض لیکر پورا کر رہے ہیں۔ میں میاں صاحب سے عرض کروں گا کہ کیا ہم نے اسی طریقے سے ادارے چلانے ہیں؟۔ تو ہمیں اس حوالے سے دانشمندی سے فیصلے کرنا ہوں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس وقت 1700 ارب کے محصولات پر مختلف عدالتوں میں مختلف حیلوں بہانوں سے حکم امتناع ہے۔ یہ مجموعی طور پر ہماری حالت زار ہے۔ ایک خفیہ سازش ہے اور پوری طرح مغربی مفاد ہے جس میں ملکر ہماری معاشی جڑیں کھوکھلی کی جا رہی ہیں۔ لہذا ہم کو ملکر اس کشتی کو پار لگانا ہے اور اگر یہ ناؤ ہچکولے کھاتی رہی تو تاریخ ہمیں اور ہماری نسلوں کو معاف نہیں کرے گی۔ وہ وقت چلا گیا کہ جب ہم برادر ملک جاتے تھے تو وہ کہتے تھے کہ چلیں آپ قرض لے لیں۔ اب ہمیں انہیں بینک کی فزیبلٹی دینی پڑے گی، انہیں پروپوزل دینے پڑے گے، تو کیا ہم نے اس کیلئے تیاری کی ہے۔ اس حوالے سے بڑا سوالیہ نشان ہے۔ خیبر پی کے میں انہیں مینڈیٹ ملا ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم ہاتھ کھینچ لیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کو مینڈیٹ ملا ہے تو ہم ان کے ساتھ ملکر پوری کوشش کریں گے۔ یہ پاکستان چار اکائیوں کا نام ہے اور یہ آپس میں جڑے ہوئے ہیں۔ وزیراعظم محمد شہباز شریف سے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی جنرل ساحر شمشاد مرزا نے وزیراعظم ہائوس میں ملاقات کی۔ جمعرات کو وزیراعظم آفس کے میڈیا ونگ سے جاری کردہ بیان کے مطابق چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی نے وزیراعظم محمد شہباز شریف کو منصب سنبھالنے پر مبارکباد اور نیک خواہشات کا اظہار کیا۔ ملاقات میں پاکستان کی مسلح افواج کے پیشہ ورانہ اور سکیورٹی امور سے متعلق بات چیت کی گئی۔ علاوہ ازیں وزیراعظم محمد شہباز شریف سے سابق نگران وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی نے ملاقات کی اور نگران حکومت کے دور میں خارجہ امور میں ہوئی پیشرفت کے حوالے سے وزیراعظم کو تفصیلی بریفنگ دی۔ وزیراعظم نے بطور نگران وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی کی خدمات کو سراہا۔