• news

جمعة المبارک‘ 26 شعبان المعظم 1445ھ ‘ 8 مارچ 2024ئ

اسحاق ڈار ناسازی طبع کی وجہ سے حکومتی اجلاس میں شریک نہیں ہوئے۔
چلیں مان لیتے ہیں ایسا ہی ہوا ہو گا۔ویسے تو گزشتہ روز سے اطلاعات آ رہی ہیں کہ حکومت نے ممتاز بنکار اورنگزیب کو نئے مشیرِ خزانہ کے لیے چنا ہے اس کے بعد تو سب نے سمجھ لیا کہ لیجئے اب اسحاق ڈار وزیر خزانہ کی دوڑ سے باہر ہو گئے ہیں۔ اسحاق ڈار کی طبیعت خراب نہ سہی مکدر ہی ہوئی ہو کیونکہ وہ ابھی تک وزیر خزانہ کے طور پر سب سے فیورٹ امیدوار تھے اور جب بھی ان سے اس حوالے سے سوال کیا جاتا تو ان کا چہرہ سرخ ہو جاتا۔ سچ کہیں تو کسی نوخیز دوشیزہ کی طرح تمتما اٹھتا جس کی خوبصورتی کی اچانک تعریف کی گئی ہو وہ بھی سب کے سامنے۔ بہرکیف ابھی تک اس حوالے سے چہ میگوئیاں ہو رہی ہیں۔ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔ اسحاق ڈار حکمران جماعت کے نفس ناطق ہیں ان کو بہت سے مرکزی رہنماﺅں کی مکمل آشیرباد بھی حاصل ہے۔ لگتا نہیں تھا کہ وہ اتنی آسانی سے وزیر خزانہ کی ریس سے باہر ہونگے۔ ہاں یہ بھی ہو سکتا ہے کہ انہیں کوئی اور اچھی پرکشش وزارت یا عہدہ ملے تو شاید وہ اسے کھلے دل سے قبول کر لیں۔ حالانکہ ہماری سیاست میں پارٹی قائد کے سامنے تنگ دلی یا کھلے دل کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ جو کہا گیا اس پر عمل کیا جاتا ہے چاہے بادل نحواستہ ہی کیوں نہ ہو۔ اب دیکھنا ہے میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کا دل پسیجتا ہے یا نہیں۔ ورنہ اس بار کابینہ میں نیا وزیر خزانہ آوے ہی آوے۔ ٹھیک ہے ہرج ہی کیا ہے۔ اگر کوئی زیادہ اور بہتر تجربہ کار بندہ دستیاب ہو تو اسے موقع ملنا چاہیے کہ وہ اپنے فیلڈ کا تجربہ بروئے کار لاتے ہوئے عوام کو معاشی گرداب سے نکالنے میں معاون ثابت ہو۔ اسحاق ڈار کو بھی اب صرف اس عہدے کے لیے اصرار نہیں کرنا چاہیے دل چھوٹا نہیں کرنا چاہیے۔ 
٭٭٭٭٭
الیکشن کمشن نے فارم 45 ویب سائٹ پر لگا دئیے۔
جی ہاں تھا جس کا انتظار بالآخر وہ شہکار آ ہی گیا۔
بڑا شور تھا کہ 47 والے نہیں 45 والے فارم الیکشن کمیشن اپنی ویب سائٹ پر ڈاﺅن لوڈ کرے اور انہیں عوام کی زیارت کے لیے سامنے لائے۔ اب گزشتہ روز ایسا ہو گیا تو اب میڈیا میں اس کے حوالے سے عجب میلہ لگا ہوا ہے۔ کچھ لوگ اسے اچھا قدم قرار دے رہے ہیں تو کئی اس میں طرح طرح کے سقم نکال رہے ہیں کہ یہ دیکھیں یہ غلط ہے وہ غلط ہے۔ بہرحال یہ نقاد کا کام ہے وہ کرتے رہیں۔ مگر اس کی آڑ میں اس بیانئے کو لے کر خیبر پی کے کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور کی تسلی نہیں ہوئی اور انہوں نے نئے سیاسی ماحول میں بھی وہی لچ تلنے کی کوشش جاری رکھی۔ وزیر اعظم کی حلف برداری کی تقریب میں یہ کہہ کر نہیں گئے کہ یہ فارم 47 والے لوگ ہیں اب وزیر اعظم کے دورہ پشاور میں جس میں انہوں نے سیلاب متاثرین میں امدادی چیک تقسیم کیے گنڈا پور موجود نہیں تھے۔ کیا یہ جمہوری روایات کی نفی نہیں۔ کل عدالتیں انہیں 45 والا قرار دیتی ہیں تو کیا گنڈا پور مان لیں گے یا پھر وہی مرکز گریز منفی سیاست برقرار رکھیں گے۔ کیونکہ جو فیصلہ پی ٹی آئی کے خلاف ہو وہ غلط اور جو حق میں ہو وہ ہی درست ہوتا ہے۔ یہ کوئی عمدہ روایت نہیں ہے۔ ماضی میں ہم نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کے درمیان اختلافات کی یہ فلم دیکھ چکے ہیں جس کی تلخی عرصہ تک برقرار رہی۔ اب یہ حالت ہو گئی ہے کہ نکاح فارم، مردہ فارم، پیدائش فارم، شناختی کارڈ فارم تصدیقی فارم کی طرح لوگوں کی اس نئے فارم سے بھی آشنائی ہو گئی ہے اور اس کا نام بھی ازبر ہو گیا کہ فارم 47 کیا ہے فارم 45 کیا ہے۔ یہ صورتحال مزید تلخی کو جنم دیتی نظر آتی ہے۔ آگے اوپر والا جانے یا پھر لوگ سیانے۔
٭٭٭٭٭
وزیر اعظم کا دورہ گوادر۔ سیلاب متاثرین میں امداد کی تقسیم۔
امید ہے اب ماہ رنگ بلوچ کی اس پریس کانفرنس کا زہر زائل ہونے میں مدد ملے گی جس میں انہوں نے حسب معمول ایک بار پھر سیلاب کی آڑ میں بلوچستان کی انتظامیہ اپنے نوابوں سرداروں سیاستدانوں نام نہاد لٹیرے سرمچاریوں کو رگیدنے کی بجائے براہ راست زہریلے لہجے میں وفاق پر الزامات کی بوچھاڑ کر دی اور گودار میں سیلاب کی صورتحال کو وفاق کی طرف موڑ دیا۔ گویا وفاقی حکومت نے یا یوں کہہ لیں پاکستان کے حکمرانوں نے جان بوجھ کر طوفانی بارشوں والا سسٹم گوادر میں لا کر برسایا اور گوادر اور اردگرد کے علاقوں کو ڈبو دیا۔ حقائق کو توڑ مروڑ کر ان کی ساری کہانی سی پیک کی وجہ سے گوادر کی ترقی کو گوادر کی تباہی قرار دینے والی زیب داستان تھی۔ ورنہ سب جانتے ہیں کہ فوجی جوان، صوبائی و علاقائی انتظامیہ سیلابی صورتحال کے ابتدا میں ہی امدادی سرگرمیوں کے لیے کمربستہ ہو گئے۔ پاکستانی نیوی نے خاص طور پر فوری نکاسی آب اور متاثرین کو نکالنے کا بھرپور کام شروع کیا۔ اس کے برعکس ماہ رنگ اور ان کے نام نہاد سرپرست جو مظلومیت کا رونا روتے ہوئے ہر جائز و ناجائز کام کرتے ہیں غیر مقامی افراد کو قتل کرنا ، بھتہ خوری لوٹ مار اور ڈاکہ زنی ان کی سرشت میں شامل ہے۔ ماہ رنگ کے اس کانفرنس کے ساتھ ہی وزیر اعظم نے اپنی حلف برداری کے اعلان کے مطابق گوادر جا کر متاثرین میں امدادی تقسیم کی ان کے درد کی داد رسی کی جس کا عوام پر اچھا اثر ہوا ہے۔ امید ہے یہ سیلابی صورتحال جلد بہتر ہو گی سیلابی پانی تیزی سے نکالا جا رہا ہے۔ جلد ہی سی پیک کے حوالے سے اہم بنیادی شہر میں زندگی بحال ہو جائے گی۔ اب کی بار غلطی کی گنجائش نہیں۔ انتظامیہ اور حکومت نکاسی آب کے لیے بہتر پلاننگ کرے تاکہ ایسی صورتحال پیدا نہ ہو۔
٭٭٭٭٭
رمضان میں یو اے ای میں 4 ہزار اشیاءکی قیمت میں 25 سے 75 فیصد تک رعایت ملے گی۔
 اسے کہتے ہیں استقبال رمضان۔ وہاں صرف 9 اشیاءکی قیمتیں برقرار رہیں باقی پر رعایت ملے گی۔ وہاں صرف میڈیا پر استقبال رمضان کے نام پر پروگرام نہیں ہوتے زبانی کلامی دعوے نہیں کئے جاتے عملی طور پر عوام کو اس مقدس ماہ کی برکات سے بہرہ مند کیا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں صرف میڈیا پر استقبال رمضان کے نام پر فینسی شو جیسے پروگرام چلتے ہیں جتنی رقم ان پروگراموں کے نام پر خرچ کرتے ہیں اگر وہ رقم غریبوں کے لیے رمضان دسترخوان یا گفٹ پیکیج پر لگائیں تو ہزاروں افراد کو فائدہ ہو سکتا ہے۔ رہی بات تاجروں کی تو ان سے کوئی امید نہیں۔ وہ تو خوف خدا سے بے نیاز ہو جاتے ہیں شاید اس لیے کہ رمضان رحمتوں والا مہینہ ہے اور ہمارے تاجر حضرات دونوں ہاتھوں سے رحمتیں لوٹنے کے چکر میں ہوتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ یہ رحمت خدا کے خزانے سے نہیں غریبوں کی جیبیں کاٹ کر ان کا خون نچوڑ کر لوٹتے ہیں۔ اس امید پر کہ آخری عشرہ میں عمرہ ادا کر کے جنت کمائیں گے۔ یا یہ سوچ کر کے یہی تو موقع ہے برکتیں رحمتیں اور منافع حاصل کرنے کا۔ نجانے کیوں ان منافع خوروں، غریبوں کا خون چوسنے والوں نے سوچ لیا ہے کہ تجارت میں جتنا چاہے منافع کماﺅ اس پر کوئی روک ٹوک نہیں ہے۔ یہی کام ذخیرہ اندوزوں نے بھی سیکھ لیا ہے اور اس پر عمل کرتے ہیں۔ یوں یہ مقدس ماہ غریبوں کے لیے آزمائش بن جاتا ہے کہ کیا خریدیں ہر چیز کے ریٹ آسمان کو چھوتے ہیں یوں وہ پانی اور نمک سے سحر اور افطار کرتے ہیں۔ مگر یہ صرف ہمارے ہاں ہوتا ہے۔ دنیا بھر میں اس کے برعکس ہر ایک ملک مسلمان ہو یا غیر مسلم رمضان میں رعایت دے کر ثواب کماتے ہیں اور عام مسلما ن کو ریلیف دیتے ہیں۔ شاید وہ جانتے ہیں ”ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا“ ۔
٭٭٭٭٭

ای پیپر-دی نیشن