• news

لاہور ہائیکورٹ کے ایک فیصلے سے الیکشن پھر ڈی ریل ہو سکتے تھے، رات کو بیٹھ کر کیس سنا: جسٹس فائز

اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) جسٹس سردار طارق مسعود کے اعزاز میں الوداعی ریفرنس سے خطاب  میں  چیف جسٹس  قاضی فائز عیسیٰ نے کہا جسٹس سردار طارق مسعود چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ بننے کے حقدار تھے لیکن انہیں چیف جسٹس نہ بنا کر صوبے کا نقصان ہوا۔ جسٹس سردار طارق مسعود نے کہا کہ عدلیہ کے وقار کو برقرار رکھنے اور قانون کی حکمرانی کے لیے  ضروری ہے کہ ایسے بلاخوف اور بلاامتیاز فیصلے صادر کئے جائیں جن سے کسی قسم کا سیاسی، معاشی طبقات کا تاثر ظاہر نہ ہو۔ ریفرنس میں جسٹس عائشہ ملک کے  سوا تمام ججز شریک تھے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے  کہا کہ  اس کا فائدہ سپریم کورٹ کو ہوا کیونکہ یہ سپریم کورٹ آگئے۔ جسٹس سردار طارق اپنی رائے میں ہمیشہ بڑے سیدھے رہے ہیں، ان کا اگر میرے سے بھی اختلاف ہو تو یہ سیدھا کہہ دیتے ہیں، ان کی عدالت زیادہ فیصلے سنانے کیلئے مشہور ہے۔ چیف جسٹس نے جسٹس سردار طارق مسعود کے جانے پر ابھی نہ جائو چھوڑ کر کہ دل ابھی بھرا نہیں ہے، گانے کے بول دہرائے۔ اپنے خطاب میں چیف جسٹس نے مزید کہا کہ  میرے  خلاف  ریفرنس لایا گیا جو بے بنیاد ثابت ہوا۔ اگر ریفرنس درست ہوتا تو جسٹس سردار طارق چیف جسٹس ہوتے۔ لاہور ہائیکورٹ کے ایک فیصلے سے الیکشن پھر ڈی ریل ہو سکتے تھے لیکن ہم نے چھٹیوں پر جانے سے پہلے رات کو بیٹھ کر اس آرڈر کے خلاف کیس سنا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم تب وہ کیس تین سینئر ججز پر مشتمل بینچ بنا کر سننا چاہتے تھے لیکن جسٹس اعجاز الاحسن نے بیٹھنے سے انکار کیا۔ ہم نے ان کے بعد دوسرے سینئر ججز کو ساتھ بٹھایا اور رات 12 بجے فیصلہ سنایا۔ ایسا نہ ہوتا تو صدر پاکستان اور الیکشن کمیشن کی دی تاریخ پر الیکشن ڈیل ریل ہو سکتے تھے۔  جسٹس سردار طارق مسعود نے کہا کہ عدلیہ کو متعدد بار سیاسی جماعتوں کی تنقید کا سامنا رہا، اگر ایک جج کی تعیناتی چند طاقتور حلقوں کے فیصلوں کی قبولیت پر منحصر ہو گی تو عدلیہ کی آزادی ایک بے معنی جملہ بن کر رہ جائے گی، قانون کی حکمرانی اور اختیارات کی تقسیم کے اصول پر عملدرآمد کیلئے آزاد عدلیہ ضروری ہے، عدلیہ ہمیشہ عوام کے حقوق اور تحفظ کیلئے فیصلہ صادر کرتی ہے، عدلیہ فرد اور ریاست کے درمیان ایک محافظ دیوار کا کردار ادا کرتی ہے۔ خواتین کے عالمی دن سے متعلق تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا اسلام نے خواتین کو اعلی مرتبے پر فائز کیا ہے۔ حدیث ہے کہ جنت ماں کے قدموں تلے ہے۔ سپریم کورٹ کے جج جسٹس منصور علی شاہ نے  کہا خواتین کی ترقی معاشرے کی ترقی ہے۔  جسٹس  قاضی فائز عیسٰی نے کہا کہ ہم ایک اسلامی معاشرے میں رہ رہے ہیں، اقتدار اعلی کا اختیار اللہ تعالی کے پاس ہے۔ ہمارے دین میں خواتین کا بہت احترام ہے۔ ایک شخص ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور پوچھا سب سے زیادہ کس کی عزت کروں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے 2 مرتبہ والدہ اور پھر والد کا کہا۔ آئین میں حاکمیت اللہ تعالیٰ کی ہے۔ اسلام کے منافی قانون سازی نہیں ہونی چاہئے۔

ای پیپر-دی نیشن