• news

تاریخ مخزن پاکستان اور محمد بخش نول کی باتیں

 کھڑی شریف والے میاں محمد بخش نے سیف الملوک لکھی اور مخلوق خدا کے دل میں ایسے اترے کہ مثال بن گئے۔ اب میاں محمد بخش کے بعد اس نام کو دور حاضرکے مہر محمد بخش نول نے ایک اور انداز میں اعتبار بخشا ہے اورکمال کیا ہے۔تحقیق تصنیف اور تالیف کی تاریخ گواہ ہے کہ وہ کتاب اور صاحب کتاب مقبول عام اور بقائے دوام کی دولت سے مالا مال ہوتا ہے جوخلق خدا کے لئے کوئی بڑا کام کرجاتا ہے۔مہر محمد بخش نول بڑا کام کیا ہے۔ای بکس کے دور میں انہوں نے پاکستان بھرکے 2000 سے زائد شہروں قصبوں گاﺅں گوٹھوں کو پہلے سچ مچ اپنی آنکھوں میں سمیٹا اور پھر تازہ ترین معلومات مشاہدات اور تصاویر کے ساتھ تاریخ مخزن پاکستان کے نام سے ایک انمول تحفے کے طور پر قارئین کے سامنے رکھا ہے۔۔ تین بڑی جلدوں اور 2848 صفحات پر محیط یہ تصنیف یا ضخیم انسائیکلو پیڈیا جو ایک لحاظ سے پاکستانی گوگل ہے اور ایک طرف ون مین آرمی کی صورت میں مہر محمد بخش نول کی ہمیشہ زندہ رہ جانے والی کاوش ہے تو دوسری طرف ایک اور ون مین آرمی یعنی قلم فاﺅنڈیشن لاہور کے کرتا دھرتا علامہ عبدالستار عاصم اور انکے ساتھ سلمان علی چوہدری کے شوق اشاعت کی مرہون منت ہے۔ حروف تہجی کے لحاظ سے مرتب کردہ فہرست میں کسی شہر قصبے گاﺅں گوٹھ پر انگلی رکھیں اور ایک جہان معنی آپ کے سامنے آ جائے۔
اس علاقے کی تاریخ علاقے کی نامی گرمی شخصیات شاعر فنکار سیاستدان انقلابی کردار اہم مصنوعات صنعتی زرعی شناخت گیس تیل یا کسی اور معدنی حوالے سے پہچان سب کچھ جام جم کے پیالے کی طرح قاری کے سامنے آجاتا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ اسے تاریخ کی کتاب کہیں جغرافیہ کا نام دیں یا پاکستان کی سیاست ادبی علمی دینی بہاﺅ اور مٹھاس کا عنوان دیں۔مشتے از خروارے۔ ضلع چاغی میں ریکو ڈک کا چھوٹا سا شہر سونے اور تانبے سمیت قیمتی معدنیات کی وجہ سے پاکستان اور بین الاقوامی سطح پر شہرت رکھتا ہے اور سکینڈل بھرا شہر ہے۔ کیسے بے نظیر دور اور مشرف دور میں سونے سے بھرے اس علاقے کو ٹیتھیاں کاپر کمپنی کومبینہ طور پر مفاد کے ساتھ لائسنس دیا گیا۔ 
سچا سودا کی بابا گرو نانک سے نسبت اور وجہ تسمیہ جان کر قارئین کے علم میں اضافہ ہوتا ہے کہ کس طرح اپنے لڑکپن میں بابا گرونانک نے تجارت کے مال کو بیچ کر منافع گھر لانے کی بجائے بھوکے لوگوں کی بھوک مٹائی مار کھا لی لیکن یہی کہا کہ انہوں نے سچا سودا کیا ہے۔ خوشاب کی مشہور سوغات ڈھو ڈا کو تقسیم سے پہلے ہندو حلوائی ہنس راج سے آج کے مسلمان وارثوں تک کا تذکرہ ایک طرف اور لاہور میں صوفی دانشور کی حیثیت سے شہرت پانے اور دانائی کا فیض عام کرنے والے حضرت واصف علی واصف کی خوشاب میں پیدائش اور پھر لاہور جانے تک کی تاریخ بھی تذکرے میں ملے گی۔ ناروال کے ایک چھوٹے سے قصبے کالا قادر کے تذکرے میں فیض احمد فیض ان کے والد چوہدری سلطان بخش کی مثالی وکالت اور پھر انگریز گورنر لارڈ غیلی کی وساطت سے شاہ افغانستان کے بیٹے کے اتالیق مقرر ہونے کی حیران کن تفصیلات۔اسلام آباد کراچی اور لاہورکے تذکرے میں تو جیسے دریا کو کوزے میں بند کرنے والی بات ہو۔ شہروں اور شہریوں کی دلچسپی کے ہر پہو کو سامنے رکھ کر معلومات کا ذخیرہ جمع کیا گیا ہے۔
 چونکہ اسلام آباد پاکستان کا دارالحکومت بھی ہے اس لئے اس کی تاریخ کے وہ حصے خاص طور پر بیان کئے گئے ہیں۔ ان میں مصری سفارت خانے میں خود کش حملہ اور لال مسجد کا سانحہ بھی شامل ہیں۔ خاص کر اسلام آباد اور لاہورکے قبرستانوں میں دور درازکے بڑے قد کے لوگوں کی تدفین کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں۔بھمبھور جیسے رومانی شہر کے تذکرے میں بھی سسی پنوں سمیت بہت سی اور معلومات شامل ہیں۔جھنگ اور ہیر سیال کے تذکرے میں ہیررانجھا کے حوالے سے سیر حاصل معلومات۔مغلوں اور سوریوں اور لودھیوں کے دور سے تاریخ کا حصہ رہنےے والے بھیرہ کا تذکرہ آئے اور پیر محمد کرم شاہ الازہری، مولانا گلزار احمد مظاہر ی اور ڈاکٹر فرید احمد پراچہ کا ذکر نہ ہو یہ کیسے ممکن ہے۔ پشین جو کوئٹہ ڈویژن کا ضلع بھی ہے اپنے دامن میں قاضی محمد عیسیٰ کی تحریک پاکستان کے دوران کی مصرفیات کی یادیں اور پھر موجودہ چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی باتیں سمیٹے ہوئے ہے۔ عبد الطیف بھٹائی کا بھٹ شاہ اور انسانیت کے گرد گھومتی ان کی شاعری۔اپنے شہر جھنگ اور قبیلہ نول کی بہادری کے واقعات کی تفصیل۔ کالا باغ کا ذکر آیا تو بات کالا پانی اور پھر اس سے جڑے انگریزوں کے مظالم کی تفصیلات تک چلی گئی۔ بات دو چار آبادیوں کی نہیں پاکستان کی 2000 سے زائد آبادیوں اورکروڑوں گھرانوں کی ہے اور شائد ہی کوئی پاکستانی ایسا ہو جس سے نسبت رکھنے والے کسی شہر قصبے یا گاﺅں کا اس کتاب میں ذکر نہ ہو۔ اسی طرح تاریخ مخزن پاکستان کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان کا کوئی شہر کوئی قصبہ کوئی گاﺅں یہاں تک کہ کوئی ذرہ رازوں سے خالی نہیں اور ہر راز اپنے کھوجی کا منتظر ہے۔ تین ہزار کے لگ بھگ صفحات میں بھرتی کی کوئی ایک لائن بھی نہیں۔۔ اور ہر صفحہ ایسا جادو رنگ کہ نظیری نیشا پوری کے بقول۔
ز فرق تا قدمش ہر کجا کہ می نگرم 
کرشمہ دامن دل می کشد کہ جا اینجااست
مہر صاحب کا خاندانی قد جھنگ سے بہاولپور تک پھیلا ہوا ہے اور دل اتنا بڑا ہے کہ جون 2015ئ میں دل کے درد کا درمان چار سٹنٹ ڈلوا کر کیا اور پھرپاکستان کے طول و ارض میں سفر کر کے وطن عزیز کے ذرے ذرے سے محبت اور جانکاری کا حق ادا کیا۔خود بھی فنا فی التحقیق ہوئے اور روئے ارض پر پاکستان سے متعلق موجود پہلے سے لکھی گئی تاریخ اور تحقیق کی 350 کتابو ں سے بھی فیض حاصل کیا اور اس کا کتابوں اور انکے مصنفین کا ذکرکر کے اعتراف بھی کیا۔ تاریخ قبیلہ نول راجپوت، تذکرہ پینسٹھ برس کا ، سفر سعادت ، عظیمت کے پیکر اور تحریک اسلامی، اور مجموعہ کالم تاریخ ضلع بہاولپور جیسی سدا بہار تخلیقات کے خالق مہر صاحب نے تاریخ مخزن پاکستان جیسی اپنی اس عمر بھر کی کمائی کوجماعت اسلامی جیسی تاریخ ساز جماعت کے بانی سید مودودی اور ملت اسلامیہ کے ہیرو ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے نام منسوب کیا ہے۔ ایسی کتابیں بلا شبہ ہر اچھے تعلیمی ادارے اور ہر اچھی لائریری کا حصہ ہونی چاہئیں۔ یہ روشنی ہے اور روشنی بانٹنے سے کم نہیں بلکہ بڑھتی ہی چلی جاتی ہے۔

ای پیپر-دی نیشن