باپ اور بیٹی
کبھی کبھی انسان کو اپنے لفظوں،تحریروں اور اپنی ہی پرانی سوچوں کو ایک نیا پیراہن دینا پڑتا ہے۔ ماضی قریب ہو یا بعید اسے اپنے پرانے احساسات کو ایک نئی جہت دے کر یقین دلانا پڑتا ہے کہ میری سوچوں، میری آواز میں آج بھی وہی خلوص یے جو آج سے پہلے کسی وقت میں موجود تھا اور میں اس کے اظہار میں بے لوث اور بےغرض ہوں۔
میری آپ سب قارئین سے گزارش ہے کہ میرے ان لفظوں کو کسی کی طرف داری یا کسی کی مخالف کے پیشِ نظر نہ دیکھیں۔آج سے تقریبا دو اڑھائی سال پہلے میں نے اسی موضوع پہ ایک کالم لکھا تھا
باپ اور بیٹی
اور میں آج اسی تناظر میں کچھ اور گذارشات آپ کے سامنے رکھوں گی۔
دنیا میں ہر بیٹی اپنے باپ کو سرخرو اور کامیاب دیکھنا چاہتی ہے۔ وہ چاہتی ہے اس کے باپ کی نظر کبھی نہ جھکے۔ اس کی نظر میں اس کے باپ کا چہرہ دنیا کے سب مردوں سے پیارا ہوتا یے،کیونکہ اس نے پہلی بار کسی مرد کے روپ میں اپنے باپ کا چہرہ ہی دیکھا ہوتا ہے۔ وہ چاہتی ہے کہ اس کے باپ کا چہرہ سدا معتبر اور شاداب رہے، وہ کبھی نہ مرجھائے۔
باپ جب دن بھر کی مشقت سے گھر لوٹتا ہے تو بیٹی اس کی خدمت کے لیے جس محبت اور خلوص سے بیٹوں سے آگے ہوتی ہے۔ وہ کیفیت آپ سب محسوس کر سکتے ہیں۔ اس سرشاری کا لطف باپ کی سارے دن کی مشقت کو بھلا دیتا یے۔ بیٹی کے ہاتھ سے پیا جانے والا پانی کا گلاس اسے توانائی اور طاقت بخشتا یے اور وہ پرسکون ہو جاتا ہے۔
بیٹیاں پیا گھر سدھار جاتی ہیں پھر بھی ان کے دل اپنے باپ کی دہلیز سے جڑے رہتے ہیں۔وہ قدم قدم پہ اپنے باپ کے گھر اور اس سے جڑی چھوٹی چھوٹی خوشیوں کو یاد کرتی ہیں کبھی خوش اور کبھی غمگین ہوتی ہیں،اپنے بابل کے دیس سے آنے والے انسان تو انسان ادھر سے آنے والی ہوائیں بھی انہیں پیاری لگتی ہیں ،انہیں مہکاتی ہیں
بیٹی اپنے باپ کی عزت کی خاطر جان قربان کر سکتی ہے،اپنی پسند ناپسند اپنی محبت اور اپنی تمام ترجیہات پس پشت ڈال سکتی ہے۔
باپ کسی مشکل میں ہو تو بیٹی اپنی جان پہ کھیل کر اسے کامیاب کرواتی ہے اسے سرخرو کرواتی ہے۔
تمام بیٹیوں اور بیٹوں کو اپنے ماں باپ کی خدمت کا صلہ ملتا ہے۔ وہ باپ بھی خوش نصیب ہے جس کی اولاد وہ چاہے بیٹی ہو یا بیٹا، اس کے لیے کھڑی ہو، اس کی مشکل میں اس کی مشکل کشا بنے، اسے سرخرو کروائے۔
قارئین کرام آج سے اڑھائی سال قبل لکھی جانے والی تحریر کا پس منظر کچھ یوں تھا کہ
ایک بیٹی اپنے باپ کے لیے کھڑی یے،وہ جس بہادری اور جرات سے اپنے باپ کو سرخرو کرنے میں سرگرم عمل ہے وہ بہت جلد اس محاذ پہ کامیاب ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔حالات کی زد میں آئے باپ کے مرجھائے چہرے کا کرب بیٹی کے لیے جان لیوا ہے۔ماں کے بچھڑنے کا دکھ
باپ کی قید و بند کی صعوبتیں
ایک دکھ پہ دوسرا دکھ
یقینا حالات کی ستم گری تھی
حالات جیسے بھی تھے بیٹی ڈٹی رہی
وہ تحریر ہو یا تقریر وہ ہر ہنر سے آشنا تھی کیونکہ اسے باپ کو سرخرو کروانا تھا۔
باپ کی مدبرانہ سوچ ہمیشہ کی طرح ساتھ تھی وہ خود پیچھے ہے، بیٹی کو آگے کیا۔وہ بیٹی کامیاب ہوئی، آج تمام بیٹیوں کی قیادت کر رہی یے
پہلی وزیر اعلی خاتون مریم نواز شریف۔
عہدہ ملتے ہی اس میں بہت مثبت تبدیلیاں آئی ہیں۔ وہ مریم جو پہلے تھی اب وہ ویسی نہیں لگتی۔
اس کی تقریر نے بڑوں بڑوں کو بتایا کہ وہ متاثر کرنے کی جرات رکھتی یے۔
خوبصورت چہرے کے ساتھ خوبصورت دل بھی موجود ہے ۔جو اب عام بندے کے لیے عملی اقدامات کرے گا، ان کے لیے خلوص نیت سے کام کرے گا۔ ہم پ±رامید لوگ ہیں مایوسی ہمارے مذہب میں گناہ ہے۔
وزیر اعلی صاحبہ آپ اس وقت سب خواتین کی قیادت کر رہی ہیں مرد بھی آپ کے حوصلے اور دلیری سے بخوبی آشنا ہو چکے ہیں۔
اب آپ اگر حقیقی معنوں میں عام لوگوں کو آسانیاں دیں گی، بھلائی کے کاموں میں عملی شریک رہیں گی اور تمام تر مخالفتوں کے باوجود اپنے مشن کو دوسروں کی بہتری کے لیے جاری رکھیں گی تو آپ اب بھی اور آئندہ بھی خود کو اسی مضبوطی سے مستحکم رکھ سکیں گی۔
عام بندے کی زندگی بہت مشکل ہے خواہشات اور خواب ہر دل میں بسیرا کرتے ہیں۔ غریب بندہ اپنے پیٹ کی بھوک مٹانے میں اپنے اور اپنی اولاد کے خواب مسمار کر بیٹھتا ہے، اسے صرف اور صرف اپنی دو وقت کی روٹی کی فکر ہوتی یے۔
آپ کو اللہ نے مقام دیا یے۔
وہ خود فرماتا ہے وہ جسے چاہے بادشاہت دے اور جس سے چاہے چھین لے۔
بہتری اور امید کی آرزو لیے میرے چند اشعار ملاحظہ کیجیے۔
درد کو بےدوا نہیں کرنا
دل کو وقف جفا نہیں کرنا
ہر قدم پوچھ پوچھ رکھتی ہوں
یعنی کرنا ہے، کیا نہیں کرنا
عمر بھر چاہتیں نبھانی ہیں
تجھ سے کوئی گلہ نہیں کرنا
میرے اسلاف نے سکھایا یے
دوستوں سے برا نہیں کرنا
گر کوئی خوش ہو تم بھی خوش ہونا
اس پہ یارو جلا نہیں کرنا
٭....٭....٭