صدر زرداری سب پہ بھاری؟
حکومت سازی کے مراحل تقریبا مکمل ہو چکے۔ چاروں صوبوں میں حکومتوں کی تشکیل مکمل ہو چکی اور مرکز میں صدر مملکت اور وزیراعظم کا انتخاب بھی ہو چکا ہے جبکہ صوبوں میں کابینائیں بھی تشکیل پا چکی ہیں۔ مرکز میں کابینہ کی تشکیل کے لیے کافی سارے نام مکمل کر لیے گئے ہیں۔ آخری کوشش کے طور پر پیپلزپارٹی کو کابینہ میں زبردستی حصہ دار بنانے کا چارہ کیا جا رہا ہے۔ اگلے ماہ سینٹ کی خالی ہونے والی نشستوں پر بھی انتخاب ہو کر نئے چیرمین سینٹ کو چن لیا جائے گا۔ اقتدار کی فارمولیشن میں یہ عہدہ بھی پیپلزپارٹی کو دیا گیا ہے۔ اس طرح پیپلزپارٹی کی سندھ اور بلوچستان میں مضبوط حکومتوں کے علاوہ ملک کے آئینی سربراہ کا عہدہ، چیرمین سینٹ اور پنجاب کی گورنری پیپلزپارٹی کے ہاتھ لگے گی جبکہ وفاقی حکومت اور پنجاب کی حکومت مسلم لیگ ن کے کھاتے میں جاچکی۔ سندھ کا گورنر ن لیگ کے کھاتے سے ایم کیو ایم کو ملے گا۔ خیبر پختون خواہ کی گورنری بھی ن لیگ کے حصہ میں آئے گی۔ وفاق کی وزارت داخلہ جیسی اہم وزارت طاقتوروں نے اپنے پاس رکھی ہے اور وزارت خزانہ جو کہ ہمیشہ سے پاکستان کی کمزوری رہی ہے ایک بار پھر اجنبی شخص کے حوالے کی جا رہی ہے۔ تاثر یہی دیا جا رہا ہے کہ نئے وزیر خزانہ معروف بینکر ہیں۔ وہ کن کی خواہش ہیں ان کا حدود اربعہ کیا ہے لیکن واقفان حال کا دعویٰ ہے کہ وزارت خزانہ جیسی اہم وزارت آئی ایم ایف کی خواہش پر دی جا رہی ہے۔ ویسے ہماری قومی سیاسی جماعتوں کے پاس نہ کوئی ڈھنگ کا وزیر خزانہ ہوتا ہے نہ وزیر خارجہ ہوتا ہے ہم ان دونوں شعبوں کے لیے مانگے تانگے اور خانہ پری سے گزارا کرتے ہیں۔ ان اہم شعبوں کے بارے میں ہماری جماعتوں کا کوئی خاطر خواہ ہوم ورک بھی نہیں ہوتا یا یوں کہہ لیں کہ ہماری حکومتیں کئی اہم شعبوں کی بظاہر ذمہ داری تو قبول کررہی ہوتی ہیں لیکن حکومتوں میں چلتی کسی اور کی ہے۔ موجودہ اقتدار کی جس بس کی ڈرائیونگ میاں شہباز شریف کے حوالے کی جا رہی ہے اس کے چاروں ٹائر مختلف کمپنیوں کے ہیں۔ راستہ بھی ناہموار ہے کنڈیکٹر بھی من مرضی کرنے والا ہے۔ مالکان بھی مستقل مزاج نہیں اور سواریاں بھی ٹک کر بیٹھنے والی نہیں ہیں۔ شور شرابے میں ڈرائیونگ کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے اور خاص کر جب سواریاں آپس میں گھتم گھتا بھی ہو رہی ہوں تو گاڑی کا بیلنس برقرار رکھنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو تمام پرسکون عہدے پیپلزپارٹی نے اپنے پاس رکھ لیے ہیں اور مشکلات کو فیس کرنے کے لیے ن لیگ کا چہرہ آگے کر دیا گیا ہے۔ آصف زرداری صاحب سسٹم کا بڑا بن کر سب سے بڑے آئینی عہدے پر منتخب ہو چکے ہیں۔ بظاہر تو پارلیمنٹ میں حکمران اتحاد کو دوتہائی اکثریت حاصل ہو چکی ہے لیکن اس کا سارا دارومدار پیپلزپارٹی کے پاس ہے۔ ویسے تو حکمران اتحاد کے پاس اتنی طاقت آچکی کہ وہ قانون چھوڑ کر آئین میں بھی جو چاہیں ترمیم کر لیں اور توقع بھی یہی ہے کہ آئین ایک نئی ترمیم کے لیے تیار رہے لیکن قومی اسمبلی میں ن لیگ کی ساری بہاریں پیپلزپارٹی کے دم قدم سے ہیں۔ جہاں تک تبدیلی کا تعلق ہے تو صدرمملکت کے خلاف مواخذہ تقریبا ناممکن ہوتا ہے لیکن وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک جب چاہیں کامیاب کروالیں کیونکہ قومی اسمبلی میں انفرادی طور پر مسلم لیگ ن کے پاس سادہ اکثریت بھی نہیں لیکن اتحادیوں کی شکل میں دوتہائی کو بھی کراس کر لیا گیا ہے۔ وزیر اعظم کے برعکس صدرمملکت کے مواخذہ کے لیے چاروں صوبائی اسمبلیوں سینٹ اور قومی اسمبلی کی دوتہائی اکثریت درکار ہو گی۔ یہ حکومت چاہے جتنی دیر بھی چلے آصف علی زرداری اب پانچ سال کے لیے صدرمملکت پکے۔ اوپر سے جوڑ توڑ اور سیاسی معاملات میں پینترے بدلنے کی جو صلاحیت آصف علی زرداری کے پاس ہے وہ کسی اور میں نہیں۔ اب سارے سسٹم میں صدرمملکت آصف علی زرداری ایسے فٹ ہو گئے ہیں کہ وہ اپنی بالا دستی برقرار رکھیں گے اور سب فریقوں کو اپنی مرضی سے کھلائیں گے۔ انتخابات سے قبل بلاول بھٹو زرداری کی خواہش تھی کہ وہ اپنے والد کو صدرمملکت بنوائیں سو ان کا خواب پورا ہو گیا۔ مریم نواز اپنے والد میاں نواز شریف کو چوتھی بار وزیر اعظم بنوانے کا خواب سجھائے ہوئے تھیں مسلم لیگ ن نے اپنی ساری انتخابی مہم بھی میاں نواز شریف کو چوتھی بار وزیر اعظم بنانے کے بیانیے پر چلائی تھی، ان کا تو نعرہ تھا پاکستان کو نواز۔ دو میڈیا میں بھی میاں نواز شریف کو وزیر اعظم کے طور پر پیش کیا جا رہا تھا مگر مریم نواز کی خواہش پوری نہ ہو سکی۔ لیکن میاں نواز شریف کی خواہش ضرور پوری ہوئی کہ مریم نواز پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کی وزیر اعلی بن چکی ہیں۔ میاں نواز شریف وزیر اعظم کیوں نہ بن سکے، انھیں وزارت عظمی کی دوڑ سے باہر رکھنے کے لیے کیا کچھ کیا گیا۔ یہ کہانی پھر کبھی سہی۔ ابھی حکومتوں کے ہنی مون پریڈ چل رہے ہیں لیکن شریکا ابھی سے طعنے دے رہا ہے کہ، اے وسدی نظر نہیں آوندی، چونکہ یہ مینجمنٹ کی شادی ہے، باراتی اس نکاح کے حق میں نہیں تھے وہ سمجھتے تھے یہ دولہن کسی اور کی تھی اس کو زبردستی بیاہ دیا گیا ہے۔ قاضی نے اس کا نکاح اس کی مرضی جانے بغیر کر دیا ہے اس لیے اس کا بسنا بہت مشکل ہے۔ یہ کب روٹھ جائے کب موڈ بنا لے کب بھاگ جائے اس کا کوئی اعتبار نہیں۔ مگر اس کے سسرال کا ماحول بہت سخت ہے وہ اب اس کی ایک نہیں چلنے دیں گے۔ وہ اس کو زبردستی بسائیں گے۔ اب شریکے کی آوازوں کو بھی دبانے کے لیے پلاننگ کی جا رہی ہے۔ سخت پہرے بٹھا دیے گئے ہیں۔ عاشقوں کے خلاف ازسرنو کارروائیوں کا آغاز کیا جا رہا ہے۔ نئی لڑائیوں کی صف بندیاں ہو رہی ہیں۔ اللہ ہی خیر کرے۔