• news

مہنگائی:کڑے اقدامات ناگزیر

انیس رکنی نئی وفاقی کابینہ نے حلف اٹھا لیا۔ کابینہ میں جن 19 وزرا کو شامل کیا گیا ہے ان میں خواجہ آصف، اسحاق ڈار، عطا تارڑ، عبدالعلیم خان، احسن اقبال، سید محسن نقوی، شیزہ فاطمہ خواجہ، جام کمال خان، رانا تنویر حسین، مصدق ملک، اعظم نذیر تارڑ، خالد مقبول صدیقی، قیصر شیخ، ریاض پیرزادہ، احد چیمہ، اویس لغاری، چوہدری سالک حسین اور محمد اورنگزیب شامل ہیں۔کابینہ کے پہلے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ اب نہیں یا کبھی نہیں کا مرحلہ آگیا ہے۔ مٹھی بھر اشرافیہ 90 فیصد وسائل پر قابض ہے ، ٹیکس اور بجلی چوری روکنا ہوگی، رمضان المبارک کے دوران اشیا کی مناسب قیمتوں میں فرا ہمی اور ان کی دستیابی یقینی بنانے کیلئے تمام وسائل بروئے کار لا رہے ہیں۔وزیر اعظم شہباز شریف نے اشیا خورونوش اور  اشیائے ضروریہ کی قیمتوں پر کنٹرول کیلئے فی الفور کمیٹی قائم کرنے اور ناجائز منافع خوری کے خلاف سخت کارروائی کی ہدایت بھی کی۔
آٹھ فروری کے انتخابات کے بعد حکومت سازی کے تمام تر مراحل مکمل ہو چکے ہیں۔آخری مرحلہ کابینہ کا اعلان،اس کی حلف برداری اور وزراء￿  کو محکموں کی تفویض تھی۔پاکستان کو گوناں گوں مشکلات کا سامنا ہے جس میں سر فہرست معاشی صورتحال ہے۔ معیشت کو سنبھالنے کے لیے وزیر خزانہ کے طور پر محمد اورنگ زیب کا ان کی اعلیٰ پیشہ ورانہ مہارت کی بنا پر انتخاب کیا گیا ہے۔کابینہ میں 19 ارکان کو شامل کیا گیا ہے یہ مناسب سائز کی کابینہ ہے۔پیپلز پارٹی کے سوا کابینہ میں مخلوط حکومت کا حصہ بننے والی ہر پارٹی کی نمائندگی موجود ہے۔پیپلز پارٹی کی طرف سے حکومت کا ساتھ دینے کا اعلان کیا گیا مگر کابینہ میں شمولیت سے انکار کیا گیا ہے۔کل کلاں وہ بھی کابینہ میں شمولیت کا فیصلہ کرتی ہے تو کابینہ کے ارکان کی تعداد زیادہ سے زیادہ 30 ہو جائے گی۔ یہ بھی کوئی بہت بڑی تعداد نہیں ہے۔عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد شہباز شریف وزیراعظم بنے تو ان کو کئی پارٹیوں کو ساتھ لے کر چلنا تھا۔۔ یہی کثیر الجماعتی حکومت کی سب سے بڑی قباحت ہوتی ہے لہذا کابینہ میں 80 سے زائد لوگ شامل کر لیے گئے تھے۔اتنے بڑے سائز کی کابینہ وسائل پر بوجھ ہوتی ہے جس کا شہباز شریف کو  ادراک ہوگا جس کے پیش نظر اب ان کی طرف سے محدود کابینہ کا انتخاب کیا گیا ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف کو جہاں مسائل کا ادراک ہے وہیں ان کے پاس ان کے حل کی صلاحیت اور تجربہ بھی ہے۔شہباز شریف کا کہنا ہے کہ 90 فیصد وسائل پر اشرافیہ قابض ہے۔شہباز شریف اگر اشرافیہ کے تسلط سے ملک کو آزاد کروا لیتے ہیں تو یہ ان کی سب سے بڑی کامیابی ہوگی جس کے بعد ملک ترقی اور خوشحالی کے راستے پر یقینی طور پر گامزن ہو جائے گا۔کچھ عرصہ پہلے اقوام متحدہ کے ایک ذیلی ادارے نے انکشاف کیا تھا کہ پاکستان اپنی اشرافیہ کو سالانہ 17 بلین ڈالر سے زیادہ کی رقوم مراعات، سہولیات، ٹیکسوں میں چھوٹ کے اقدامات کے نام پر دے دیتا ہے۔ یو این ڈی پی کی اس رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ پاکستان دراصل اشرافیہ کے زیر تسلط ریاست ہے۔وزیراعظم شہباز شریف کی طرف سے اس رپورٹ کی تائید کی گئی ہے۔قوم منتظر ہے کہ اس پر وہ اب ایکشن کیا لیتے ہیں۔
مہنگائی نے عام آدمی کی زندگی اجیرن بنا کے رکھی ہوئی ہے۔ رمضان کے آغاز پر مہنگائی کے طوفانوں میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے جو اب بھی جاری ہے۔ذخیرہ اندوز اور ناجائز منافع خور رمضان کے رحمتوں اور برکتوں والے مہینے کو عوام پر بھاری بنا دیتے ہیں۔ہر صوبے کے وزیراعلی اور وزیراعظم شہباز شریف کی طرف سے ناجائز منافع خوروں اور ذخیرہ اندوزوں کو سخت وعید سنائی گئی ہے۔ ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہو رہا ہر سال یہی کچھ ہوتا ہے۔سخت اقدامات کا اعلان ہوتا ہے۔کمیٹیاں بنتی ہیں۔چھاپے پڑتے ہیں کہیں کچھ ریڑھیاں الٹا دی جاتی ہیں۔زیادہ سختی کی جائے تو منافع خوراحتجاج کے لیے نکل آتے ہیں یوں رمضان کا مہینہ اختتام پذیر ہو جاتا ہے۔ صارفین پہلے روز کی طرح آخری روز اور روزے تک مہنگائی کی چکی میں پستے رہتے ہیں۔ مزید آفت عیدکی خریدار ی کی صورت میں ان کو دیکھنا پڑتی ہے۔ اس وقت بھی منافع خور اپنا جال بچھائے بیٹھے ہوتے ہیں۔
وفاقی کابینہ کے ناموں پر ایک نظر دوڑائیں تو ان میں چند ایک کے علاوہ اکثر پہلے بھی کابینہ کا حصہ بنتے رہے ہیں شہباز شریف خود متعدد بار پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ رہے اب دوسری بار وزیراعظم کے منصب پر متمکن ہوئے ہیں۔یہ سب تجربہ کار لوگ ہیں۔ہرپارٹی کی طرف سے ملکی مسائل کے حل کے لیے، ملک کو مشکلات سے نکالنے کے لیے ہمہ وقت ہوم ورک تیار ہوتا ہے۔رمضان سے پہلے تعین ہو گیا تھا کہ کون سی پارٹی کس صوبے میں یا مرکز میں اقتدار میں آئے گی۔اپنے تجربات کی روشنی میں ان پارٹیوں کو رمضان کے آغاز پر ہی ایسے اقدامات اٹھا لینے چاہئیں تھے کہ عوام ذخیرہ اندوزوں اور منافع خوروں کے بے رحم پنجوں میں آنے سے محفوظ رہتے۔
  زبانی جمع خرچ سے حالات بدل سکتے ہیں نہ عوام کو ریلیف مل سکتا ہے۔اس کے لیے کڑے اقدامات کرنا ہوں گے۔ قانون ہاتھ میں لینے والوں کو نشان عبرت بنانا ہوگا۔ اب تک توکئی پر کڑا ہاتھ ڈال دیا گیا ہوتا۔کئی قانون کے شکنجے میں جکڑے جا چکے ہوتے تو عوام سکھ کا سانس لیتے ہوئے نظر آتے۔
وزیراعظم اشرافیہ کی بات کرتے ہیں۔اشرافیہ  ایوان اقتدار میں بیٹھے ہیں‘ انہوں نے عوام کیلئے کتنی قربانیاں دی ہیں؟ جب تک انکی مراعات ختم اور اخراجات کم نہیں کئے جاتے، مہنگائی پر قابو پانے کے عملی اقدامات نہیں کئے جاتے‘ ایسے دعوے محض زبانی جمع خرچ تصور کئے جائیں گے۔ حکومت کیلئے یہی کڑا امتحان ہے کہ وہ کیسے مہنگائی پر قابو پا کر عوام کو ریلیف دیتی ہے اور اشرافیہ کو کیسے نکیل ڈالتی ہے۔  اگر 17 ارب ڈالر عوامی فلاح و بہبود پر سالانہ خرچ کیے جائیں تو کون سا مسئلہ ہے جو حل نہیں ہو سکے گا۔

ای پیپر-دی نیشن