• news

بندوبستی سلطانی جمہور کاتسلسل

جس طرح ملک میں ہر قسم کے دکھائے گئے خطرات اور گھڑے گئے جوازوں کے باوجود آٹھ فروری کو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے اعلان کردہ پتھر پر لکیر انتخابات کا انعقاد یقینی ہو گیا تھا‘ اسی طرح انتخابات کی بنیاد پر منتخب ایوانوں کے اندر اور باہر پی ٹی آئی‘ جمعیت علماء اسلام (ف)‘ جماعت اسلامی‘ پشتون خواہ ملی عوامی پارٹی‘ فنگشنل لیگ اور انکے ہمنوا دوسرے سیاست کاروں کے اودھم مچانے‘ سپایا کرنے اور انکی شوراشوری اور زورا زوری کے باوجود وفاق اور صوبوں کی حکومتیں بھی تشکیل پا گئی ہیں۔ وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ کا انتخاب بھی عمل میں آچکا ہے اور صدر مملکت کے منصب پر ساڑھے پانچ سال سے براجمان ”بھاری پتھر“ کو بھی اٹھا کر ایوان صدر سے باہر نکالا جا چکا ہے اور اس مسند پر ”سب پر بھاری‘ آصف زرداری“ پورے قد کاٹھ کے ساتھ براجمان ہو چکے ہیں۔ چنانچہ سلطانءجمہور کے تسلسل و استحکام کیلئے ”ستے خیراں“ اور اطمینان بخش ہریالی ہی ہریالی نظر آرہی ہے۔ مگر جناب! اس اطمینان کی فضا پر شیروشکر والا ماحول بنائے ہوئے ذرا اس سسٹم کی آزادی و خودمختاری کی پرکھ پڑتال بھی کر لیجئے۔ اس سسٹم میں نئے براجمان حکمرانوں کا اپنا کیا ہے اور ان حکمرانوں کو مسند اقتدار تک پہنچانے والے عوام کا کیا ہے؟ جنہیں سلطانءجمہور میں انکی شراکت کا احساس دلایا جاتا ہے اور انہی کا خون نچوڑ کر سلطان کے ہاتھ پاﺅں مضبوط بنائے جاتے ہیں۔ 
نعرے تو خوب لگے اور دعوے تو بہت ہوئے کہ بیساکھیوں پر کھڑی کی گئی یہ مخلوط حکمرانی حد ایک سال سے آگے نہیں بڑھے گی اور پھر دھڑن تختہ۔ مگر اس حکمرانی کے جو خدوخال اجاگر کئے گئے ہیں وہ سہولت کے ساتھ اسی طرح فراہم ہونے والی بے ساکھیوں کے سہارے آگے بڑھتی نظر آرہی ہے جیسے تین ماہ کی آئینی مدت کیلئے تشکیل پائی عبوری نگران حکومت نے اپنی حکمرانی کے چھ ماہ گزار لئے تھے۔ تو بھائی صاحب! ہمارے سسٹم میں مرضی اسی کی چلتی ہے جس نے اسکی بنیادیں اپنے قابو میں کر رکھی ہیں۔ ڈھگّے عوام نے تو بس اپنا ووٹ ہی ڈالنا ہوتا ہے۔ اس ووٹ کو مینج کرکے اپنی من مرضی کی حکمرانی کا راستہ نکالنا تو کسی اور کا کام ہے۔ سو انہوں نے پہلے سے سب کچھ مینج کرکے ہی سلطانءجمہور کے نام پر اپنا اصل نظام رائج کیا ہے۔ جناب انہی کا سکہ رائج الوقت ہے جو گلا گھونٹنے کے باعث باہر کو ابلنے والی آنکھوں پر بھی ملعون کرتے ہیں کہ ہمیں گھورتے ہو؟۔ نہ جی نہ‘ گھوریاں مت ڈالو‘ اپنی آزادی اور خودمختاری کی لگن دل میں مت لگا?‘ بس چپ چپیتے بیٹھے نام کی حکمرانی اور ہمارے مفادات کی رکھوالی کرتے رہو ورنہ بیٹھے بیٹھے اور کھڑے کھڑے ہی پتھر کے ہو جاﺅگے۔ 
جناب یہ کوئی کہانی اور بجھارت تو نہیں‘ نوشتہ دیوار حقیقت حال ہے۔ نگران سیٹ اپ کو جس طرح تراشا گیا وہ اسی طرح اصل حاکم کے احکام بجا لاتے ہوئے عوام کو مہنگائی کے سونامیوں کی جانب دھکیلتا، انہیں راندہ درگاہ بناتا رہا۔ مقصد آئی ایم ایف کی لاگو کردہ ہر شرط پر من و عن عمل درآمد کرانے کا تھا سو نگرانوں کے اس مینڈیٹ کی مکمل تعمیل ہوئی اور ابلتی آنکھوں والے عوام کو ”گھورنے“ کے طعنے ملتے رہے۔ یہی کچھ اب سلطانءجمہور کے ذریعے کرنے کا بھی پورا انتظام و اہتمام ہوا ہے۔ 
منتخب ایوان کے باہر سے محمد اورزنگزیب خان‘ محسن نقوی‘ احد چیمہ‘ شزا فاطمہ کو لا کر انہیں خزانہ‘ داخلہ اور منصوبہ بندی کی وزارتوں کے قلمدان سونپتے ہوئے کیا صدر مملکت اور وزیراعظم کے منصب پر بیٹھی شخصیات کے ہاتھوں میں کوئی لرزا پیدا ہوا؟۔ کیا کسی کی زبان لڑکھڑائی اور کیا آزادی و خودمختاری کے سہانے تصور کو جھنجوڑنے کی نوبت آئی؟۔ جو کچھ سسٹم کا نقشہ بنا کر تھمایا گیا تھا‘ من و عن اسکے مطابق ہی سلطانءجمہور کی عمارت کھڑی کی گئی۔ تو جناب! اتنی خوشنودی اور سرخوشی کے ساتھ سسٹم کے بنے بنائے اور تھمائے نقشے کو قبول کیا گیا ہے تو اسکے سال ڈیڑھ سال بعد دھڑن تختہ ہونے کا تصور چہ معنی دارد؟ سینیٹ کی خالی نشستوں کے اگلے ماہ کے انتخابات میں باہر سے لا کر وفاقی کابینہ کا حصہ بنائی گئی یہ چاروں شخصیات عجزونیاز کے ساتھ سینیٹر کے رتبے سے بھی سرفراز ہو جائیں گی۔ اور اس طرح انکی وزارتوں کا تسلسل بھی نہیں ٹوٹنے پائے گا۔ آپ ماضی بعید و قریب میں سلطانءجمہور کا حصہ بنائے گئے حکمرانوں کا جائزہ لے لیں۔ یہی سرخوشی والا عمل تسلسل کے ساتھ جاری ہے۔ جب بھی ضروری گردانا گیا آئی ایم ایف کے ملازمین وزیراعظم‘ وزیر خزانہ‘ مشیر خزانہ اور دوسری اہم وزارتوں کا منصب سر پر سجائے ہمارے سسٹم میں داخل ہوتے رہے۔ عمران خان نے بڑے انقلاب‘ تبدیلی اور نئے پاکستان کے نعرے لگائے مگر جب انکے دور میں بھی آئی ایم ایف کے کارندے حفیظ اللہ شیخ کو اور پھر شوکت ترین کو وزارت خزانہ کا قلمدان سونپنا مقصود ہوا تو پھر ”غیرتِ ملی“ نے جوش مارا؟۔ شوکت عزیز کا تو پاکستان کا شہری ہونے کا شناختی کارڈ بھی انکے وزارت عظمیٰ کے منصب پر براجمان ہونے کے بعد بنا تھا۔ آپ کی مجال نہیں اصل مالکان کی ایسی ڈکٹیشن سے سرِمو انحراف کرنے کی بھی۔ آپ کو بس اتنی سہولت ضرور مل جاتی ہے کہ آپ اپنے سمیت اشرافیہ طبقات پر آئی ایم ایف کی شرائط والا بوجھ نہ پڑنے دیں اور زندہ درگور عوام کو خط غربت سے نیچے دھکیلنے کا پوری سہولت کے ساتھ اہتمام کرتے رہیں۔ 
اس ماحول میں جب میاں شہبازشریف صاحب وزارت اعلیٰ اور پھر وزارت عظمیٰ کی منصب پر بیٹھ کر اشرافیاﺅں کو مطعون کرتے اور ان کیلئے کسی خونیں انقلاب کی نقشہ کشی کرتے نظر آتے ہیں تو فی الواقع میرا ہاسا نکل جاتا ہے۔ ارے جناب! یہ خونیں انقلاب تو فی الحقیقت حکمران اشرافیہ طبقات کے دروازوں پر ہی دستک دے رہا ہے۔ اس لئے آپ کو اس کا ڈراوا دینے کی بجائے اس سے بچنے کا بندوبست کرنا چاہیے اور ممکنہ بندوبست یہی ہو سکتا ہے کہ سلطانءجمہور سے جمہور کے عملی طور پر فیض یاب ہونے کا حقیقی اہتمام کریں۔ انہیں انتہاءدرجے کی غربت‘ مہنگائی‘ بے روزگاری کے دلدل سے نکال کر آبرومندی اور خودداری کے ساتھ سر اٹھا کر چلنے کا راستہ دکھائیں اور پھر اس راستے میں ان کیلئے کوئی کٹھنائی پیدا نہ ہونے دیں۔ محض آنیاں جانیاں اور محض زبانی جمع خرچ خونیں انقلاب کیلئے عوام کے دلوں میں جوش مارتے لاوے کو پیچھے نہیں دھکیل سکتا۔ فضیلتوں اور برکتوں والے مقدس مہینے رمضان کریم کا آغاز ہو چکا ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکمران اس ماہِ مقدس میں عوام کو ریلیف دینے کے بس نعرے ہی لگا رہے ہیں‘ محض دعوے ہی کر رہے ہیں مگر زمینی حقائق تو پسے پسماندہ عوام کو مہنگائی کے عفریت کے آگے مزید گرا پڑا ہوا ہی دکھا رہے ہیں۔ یہی اشرافیہ طبقات ہی تو مجبور عوام کے سوکھے جسموں پر مہنگائی کے بے رحم کوڑے برسانے کا اہتمام کرتے ہیں اور ساری حکومتی انتظامی مشینری انکے آگے دو زانو ہو کر بیٹھی نظر آتی ہے۔ آپ نے ابھی آئی ایم ایف کے ساتھ نیا معاہدہ کرنا ہے جس کی نئی شرائط پر من و عن عملدرآمد کا بھی آپ کے ہاتھوں پہلے ہی اورنگزیب خانی بندوبست کے ذریعے اہتمام کرالیا گیا ہے۔ سو اس دیس کے ہر بلاول نے پہلے کی طرح مقروض ہی رہنا ہے اور ہر بے نظیر کے پاﺅں ننگے ہی نظر آنے ہیں۔ پھر اس گھن چکر سے عوام کے خلاصی پانے کا راستہ تو جناب خونیں انقلاب والا ہی ہے۔ جب تک عوام اس راستے کا حتمی فیصلہ نہیں کرتے‘ آپ کی بچت ہی بچت ہے اور ”ستے خیراں“ ہیں۔ مگر جناب! افلاک سے آتا نالوں کا جواب آخر۔ خلق خدا کو بس رگیدے رکھنا ہی تو مشیت ایزدی نہیں ہو سکتی۔

ای پیپر-دی نیشن