• news

شہباز شریف کی علی امین سے ملاقات، بولان میڈیکل کمپلیکس اور یوٹیلیٹی سٹورز پر مہنگائی!!!

پاکستان کے مسائل اگر سیاست دانوں کی وجہ سے ہیں تو ان مسائل کا حل بھی سیاست دانوں نے ہی کرنا ہے۔ گوکہ آج مسائل ماضی کی نسبت زیادہ اور گھمبیر ہیں لیکن پھر بھی مسائل کا حل سیاسی قیادت نے ہی کرنا ہے۔ یہ ضرور ہے کہ سیاسی قیادت نے یہ فیصلہ کرنا ہے کہ وہ کب ذاتی اختلافات بھلا کر ملک و قوم کے بہتر مستقبل کی خاطر ایک ہو جائیں۔ جس روز سیاسی قیادت نے یہ فیصلہ کر لیا اس دن سے بہتری شروع ہو جائے گی۔ بدقسمتی ہے کہ اب تک سیاسی قیادت یہ فیصلہ نہیں کر سکی کہ ملکی مسائل حل کرنے کے لیے ذاتی لڑائی جھگڑوں سے دور کب جانا ہے، کب متحد ہو کر قوم کی تربیت کرنی ہے، کب عام آدمی کی بنیادی ضروریات پوری کرنے کی طرف توجہ دینی ہے، آج ملک میں خدمت کی سیاست کم نظر آتی ہے، یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ وڑن کی بھی کمی ہے، یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں مثالی جمہوریت نہیں ہے۔ پاکستان میں سیاسی قیادت شاید اتنی خود مختار بھی نہیں ہے، شاید سیاست کو گندا کر دیا گیا ہے، شاید اس کام میں سیاست دانوں کا اپنا حصہ بھی ہے۔ اب ملک میں ایک نئی سیاسی حکومت قائم ہوئی ہے۔ اللہ کرے کہ ملک کے مسائل حل ہوں کوئی بہتری نظر آئے، کوئی استحکام ہو، کوئی تسلسل ہو، زندگی آسان ہو۔ بیانات اور زبانی جمع خرچ سے نکل کر بھی کچھ ہو ایسا ہونا مشکل ہے لیکن ناممکن تو نہیں۔ لوگ وزیراعظم میاں شہباز شریف کی خیبرپختونخوا کے وزیر اعلیٰ سے ملاقات کو خوش آئند قرار دے رہے ہیں لیکن شاید وہ اس خوش گمانی میں یہ بھول رہے ہیں کہ علی امین گنڈا پور خود کچھ نہیں کر سکتے ان کی ڈوریں کوئی اور ہلا رہا ہے اور وہاں سے جو حکم آئے گا علی امین وہی کریں گے۔ بہرحال خبروں کی حد تک اس ملاقات کو بہت اچھا کہا جا سکتا ہے لیکن ایسی ملاقاتوں سے نہ پہلے کچھ ہوا نہ آئندہ کوئی امید رکھنی چاہیے کیونکہ علی امین گنڈا پور جن کے نمائندے ہیں وہ جیل میں ہیں اور جیل سے کچھ اور ہی بیانات آتے ہیں ان حالات میں خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ کا کردار ایک قاصد سے زیادہ کا ہرگز نہیں ہے۔ جہاں تک تعلق اس ملاقات کا ہے اس بارے وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کہتے ہیں وزیر اعظم شہباز شریف سے ملاقات مثبت رہی، انہوں نے تعاون کا یقین دلایا اور مطالبات بھی تسلیم کیے ہیں۔
بہت اچھی بات ہے وزیراعظم کو ایسا ہی کرنا چاہیے لیکن علی امین گنڈا پور اگر وزیراعظم کے سامنے مطالبات رکھیں گے تو یقینا کچھ گذارشات وزیراعظم بھی تو کر سکتے ہیں۔ ہو سکتا وزیراعظم یہ کہیں کہ جناب وفاق آپ کی مدد کرنا چاہتا ہے لیکن کیا کریں آپ نے تو آئی ایم ایف کو خط لکھ دیا ہے، قرض مل نہیں رہا اور آپ کا صوبہ وفاق سے تعاون بھی نہیں کر رہا کیا کریں آپ ہی بتائیں، آپ کی جماعت ہر روز ملک میں احتجاج کے بیانات جاری کرتی ہے، احتجاج کی بات کرتی ہے معیشت کو مضبوط کرنے کے لیے ملک میں سکون کی ضرورت ہے لیکن آپ ہر وقت بے سکونی کا سامان کرتے ہیں بتائیں ہم کیا کریں۔ کیا علی امین گنڈا پور اس کا کوئی جواب دے سکتے ہیں یقینا نہیں دے سکتے ہوں گے یہ بھی تو ممکن ہے کہ وزیراعظم میاں شہباز شریف نے یہ ساری باتیں نہ کی ہوں لیکن ہو بھی سکتا ہے کہ وہ کر بھی لیں۔ اگر وزیراعظم نہ بھی کریں تو کیا خیبرپختونخوا کے وزیر اعلیٰ کو یہ سوچنا نہیں چاہیے کہ اگر وفاق سے حق مانگنا ہے تو کچھ فرائض کی ادائیگی بھی ضروری ہے کیا خیبرپختونخوا حکومت اپنا فرض نبھا رہی ہے۔
بہرحال وزیراعظم آفس کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف نے وزیراعظم ہاؤس آمد پر وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا کا خیر مقدم کیا ۔ اس ملاقات میں وزیر خارجہ اسحاق ڈار ، وزیر دفاع خواجہ آصف، وفاقی وزراء احسن اقبال ، امیر مقام اور اعلیٰ سرکاری افسران بھی موجود تھے۔ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا نے وزیراعظم کو صوبے کے انتظامی امور سے تفصیلی آگاہ کیا۔ وزیراعظم آفس سے پریس ریلیز جاری ہو یا علی امین گنڈا پور اس حوالے سے خود کچھ کہیں عام آدمی کو عملی اقدامات سے غرض ہے۔
خبر یہ بھی ہے کہ بولان میڈیکل کمپلیکس کے بیس ڈاکٹرز کا طویل عرصے سے غیر حاضر ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔ میڈیکل سپرنٹنڈنٹ بی ایم سی نے غیرحاضر ڈاکٹروں کو معطل کرنے کیلئے سیکرٹری کو لکھ دیا۔
بیس ڈاکٹر غیر حاضر ہونے کے باوجود تنخواہیں بھی وصول کر رہے ہیں جبکہ غیر حاضر ڈاکٹروں میں گیارہ لیڈی میڈیکل آفیسر بھی شامل ہیں۔ایم ایس کے مطابق بی ایم سی کے ایک سینئر میڈیکل افسر تین سال سے غیر حاضر ہیں اور تین ڈاکٹر دو برس سے ڈیوٹی سے غیرحاضر ہیں۔ سولہ ڈاکٹر چھ ماہ سے ایک سال کے عرصے سے غیرحاضر پائے گئے ہیں۔
ڈاکٹرز تو مسیحا ہوتے ہیں لیکن یہاں تو مسیحائی کا الگ ہی چکر ہے۔ وہ کہ جمہوں نے زخموں پر مرہم رکھنا ہے وہ چونا لگا رہے ہیں۔ یہاں جس کا بس چلتا ہے وہ ہاتھ صاف کرتا ہے۔ یہ تو ایک مثال ہے ملک بھر میں ہر سرکاری ادارے میں ایسے درجنوں نہیں سینکڑوں افراد ہوں گے جو تنخواہیں لیتے ہیں لیکن کام نہیں کرتے ایسے ہی ادارے تباہ نہیں ہوئے جو دفتر آتے ہوں گے وہ بھی کام ذرا کم ہی کرتے ہوں گے۔ 
خبر یہ بھی ہے کہ یوٹیلیٹی سٹورز پر عام شہریوں کو رعایتی نرخوں پر اشیاء کی فروخت روک دی گئی ہے۔لاہور کے یوٹیلیٹی سٹورز پر عام شہریوں کو سبسڈائز اشیاء نہیں مل رہیں، صرف بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام اور احساس پروگرام کے تحت رجسٹرڈ افراد ہی سبسڈائزڈ اشیاء لے سکتے ہیں۔ اس صورت حال میں شہریوں کی پریشانی میں اچھا خاصا اضافہ ہوا ہے۔ ایک تو ماہ مبارک، دوسرا مہنگائی تیسرا سبسڈائز اشیاء کی فراہمی میں بندش عام آدمی جائے تو کہاں جائے، ایک طرف ڈاکٹرز مریضوں کو دیکھے بغیر تنخواہیں وصول کر رہے ہیں تو دوسری طرف حکومت نے بھی عوام دشمن فیصلے شروع کر دئیے ہیں۔
یوٹیلیٹی سٹورز انتظامیہ کے مطابق عام شہری پوری قیمت پر اشیاء خرید سکتے ہیں جبکہرجسٹرد افراد ہی رعایتی نرخوں پر اشیاء کی خریداری کر سکتے ہیں۔
یوٹیلیٹی سٹورز پرآنے والے عام صارفین رعایتی نرخوں پر اشیاء کی خریداری سے محروم ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سفید پوش اور متوسط طبقے کا کون سوچے گا۔ ان سٹورز پر جانے والے وہی افراد ہوتے ہیں جن کے وسائل کم ہوتے ہیں۔ حکومت کو اس فیصلے پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔
آخر میں خورشید رضوی کا کلام
یہ جو ننگ تھے یہ جو نام تھے مجھے کھا گئے
یہ  خیال پختہ  جو  خام  تھے  مجھے کھا گئے
کبھی  اپنی  آنکھ  سے  زندگی  پہ  نظر  نہ کی
وہی  زاویے  کہ  جو  عام  تھے  مجھے کھا گئے
میں عمیق تھا کہ پلا  ہوا  تھا  سکوت  میں
یہ  جو  لوگ محو کلام  تھے  مجھے کھا گئے
وہ جو مجھ میں ایک اکائی تھی وہ نہ جڑ سکی
یہی  ریزہ  ریزہ  جو کام  تھے  مجھے  کھا  گئے
یہ  عیاں  جو  آب  حیات  ہے  اسے کیا  کروں
کہ  نہاں  جو  زہر  کے  جام  تھے  مجھے کھا گئے
وہ  نگیں   جو   خاتم   زندگی  سے  پھسل  گیا
تو  وہی  جو  میرے  غلام  تھے  مجھے   کھا   گئے
میں  وہ  شعلہ  تھا  جسے  دام  سے تو ضرر نہ تھا
پہ  جو  وسوسے  تہہ  دام   تھے  مجھے   کھا   گئے
جو  کھلی  کھلی  تھیں  عداوتیں مجھے راس تھیں
یہ   جو   زہر   خندہ   سلام   تھے  مجھے  کھا  گئے
٭٭٭

ای پیپر-دی نیشن