میری ماں میرا پاکستان
ترقی پذیر ممالک میں قومی مسائل کے موضوع پر دوستانہ محفلوں میں گورے دوست دوران گفتگو آزاد خودمختار اور ایٹمی قوت کے حامل پاکستان میں گیس‘ بجلی کی لوڈ شیڈنگ‘ سیاسی بدامنی‘ کرپشن اور روزافزوں بے روزگاری ایسے مسائل سمیت آئی ایم ایف اور دیگر عالمی مالیاتی اداروں سے حاصل کئے بھاری قرضوں کا جب طعنہ دیتے ہیں تو میری حب الوطنی کی رگ حمیت میں اکثر طلاطم برپا ہو جاتا ہے اور پھر اس سے قبل کہ اپنا ’’ٹِڈ"مزید ننگا کرنے کی نوبت آئے گفتگو کا موضوع تبدیل کرلیتا ہوں۔
اگلے روز برطانیہ بھر میں ’’مائوں سے محبت‘‘ کا خصوصی دن منایا گیا مگر اس غیرمعمولی دن کی اہمیت وہ نہیں تھی جو بالعموم ویلنٹائن ڈے کے موقع پر دیکھی جاتی ہے۔ یوں تو مغربی دنیا میں ماں‘ باپ اور ویلنٹائن ڈے کے علاوہ بھی درجنوں مخصوص دن منائے جاتے ہیں مگر جو جذبہ اور جوش ویلنٹائن ڈے پر دیکھا جاتا ہے وہ کسی اور دن نہیں دیکھا جاتا۔ ایسا آخر کیوں؟ یہ ایک اور سلگتا موضوع ہے۔ اس پر پھر کبھی سہی۔ کہ اس پر آج کچھ لکھا تو کالم کا رخ کسی اور جانب نکل جائیگا۔ لندن میں منعقدہ ’’مدرڈے‘‘ کی یہ ایک دوستانہ محفل تھی جس میں گورے دوست اپنی گوری دوستوں کے ہمراہ مختلف موضوعات پر اظہار خیال کر رہے تھے۔ میں ماں کی عظمت و توقیر پر تاریخی حوالوں سے بات کر رہا تھا۔ بعض دوست ’’مدرڈے‘‘ اور ’’فادرڈے‘‘ کو محض Sales اور سستی اشیاء خریدنے کے مخصوص دنوں تک رکھنے پر بضد تھے۔ میں حیران تھا کہ ماں کی عظمت و توقیر کے بارے میں دوستوں کی زیادہ تر تعداد کی سوچ مائوں کو صرف گلدستہ بھجوانے تک محدود تھی۔ کچھ دوستوں کی رائے تھی کہ ماں باپ جب عمر رسیدہ اور ناتواں ہو جائیں تو انکی مناسب دیکھ بھال کیلئے انہیں اولڈ ہومز میں رہائش دلوا دی جائے تاکہ وہاں انکی روزانہ کی بنیاد پر حکومتی سطح پر دیکھ بھال ہو سکے۔ دوستوں کی اس فلاسفی پر میرے لئے مزید خاموش رہنا ممکن نہ تھا اور یوں مجھے انہیں بتانا پڑا کہ جو مہذب قومیں اپنے بوڑھے والدین کی عزت ووقار اور انکی عظمت تک کو نہ پہچان سکیں‘ ایسی قوموں کے ترقی یافتہ ہونے کا کیا فائدہ؟ ’’اولڈ ٹیسٹامنٹ‘‘ میں مجھے کوئی ایسا باپ نکال کر دکھا دیں جس میں ’’عمر رسیدہ ماں باپ‘‘ سے بڑھاپے میں غیروں سا سلوک روا رکھا گیا ہو؟ میں کچھ زیادہ ہی جذباتی ہو رہا تھا کہ ایک دوست نے میرے اس لیکچر پر ماں باپ کے احترام کا فوراً اقرار کرتے ہوئے اپنی سوچ تبدیل کرنے کا وعدہ کرلیا اور یوں ہمارا موضوع غربت و افلاس کے ترقی یافتہ ممالک پر اثرات کی جانب چل نکلا۔ پاکستان کی انتہائی کمزور معاشی و اقتصادی صورتحال پر طعنہ زنی کرنے والے اپنے دوست کو میں یہ بھی آگاہ کرنا چاہتا تھا کہ برطانوی معیشت کا ریکارڈ اب وہ نہیں جو کبھی تھا۔ ایک وقت تک دنیا بھر پر حکومت کرنے والے برطانیہ عظمیٰ کے معاشی اور اقتصادی حالات عروج پر تھے مگر آج واضح دراڑیں نظر آرہی ہیں۔ دنیا کی اس مضبوط ترین فلاحی مملکت میں 60 لاکھ برطانوی افراد کا شمار آج غریب ترین لوگوں میں ہوتا ہے جبکہ ایک لاکھ افراد کو خیراتی اداروں سے ملنے والی امداد کے باوجود غربت میں کمی واقع نہیں ہو رہی۔ اسی طرح بے گھر افراد پر کی جانیوالی حالیہ سٹڈی رپورٹ کے مطابق انگلستان میں 2 لاکھ 55 ہزار شہری اپنی مستقل رہائش گاہوں سے محروم ہیں جبکہ پلوں‘ دکانوں کے باہر‘ سٹیشنوں‘ شاہراہوں اور فٹ پاتھوں پر رات گزارنے والے بے گھر افراد کی تعداد کہیں زیادہ ہے۔ پانچ میں سے ایک شخص غربت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ مجموعی طور پر یہ غربت 22 فیصد سے بھی زیادہ بڑھ رہی ہے۔ میری یہ تحقیق بعض دوستوں کیلئے سرپرائز کا باعث تھی جبکہ مجھے وقت کا لحاظ رکھنا بھی ضروری تھا اس لئے میں نے آئندہ ملاقات کے وعدے پر اجازت لے لی۔
برطانوی معاشرے میں جہاں انسانی بھلائی اور جانوروں کی بہبود کیلئے مربوط پالیسیاں مرتب ہیں‘ وہاں نئی برطانوی نسل کو جرائم‘ منشیات‘ شیشہ‘ سگریٹ نوشی‘ کلاس اے‘ بی اور دیگر ڈرگز سمیت Vapes (برقی سگریٹ) کے نشہ سے محفوظ رکھنے کیلئے حکومت کے متعدد صحت کے ادارے بھی دن رات کام کررہے ہیں۔ Vape ہے کیا؟ سگریٹ کا نعم البدل ایک ایسا الیکٹرانک سگریٹ ہے جس کا کش یعنی ’’سوٹا‘‘ لگانے سے سگریٹ کی طرح ناک سے دھواں خارج ہوتا ہے‘ بیٹری سے آپریٹ ہونے والے اس سگریٹ میں نکوٹین اور کئی دیگر مدہوش کرنے والے اجزاء پائے جاتے ہیں جو کم عمر بچوں اور بڑوں کیلئے بھی انتہائی نقصان دہ ہیں۔ ان زہریلے مادوں سے بچوں کی موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔ ایشیائی کمیونٹی اور بالخصوص برطانوی پاکستانی بچوں کو اس زہریلے برقی سگریٹ سے محفوظ رکھنے کیلئے ہماری صحافتی برادری میں پہلا عملی قدم ہمارے صحافی دوست ودود مشتاق نے اٹھایا ہے۔ Vape سے آگہی کیلئے انہوں نے ڈی یو ای کے نام سے ایک رضاکارانہ ادارے کی بھی تشکیل دے دی ہے۔ اسی خیراتی ادارے کے تحت انہوں نے اگلے روز نارتھ ویسٹ کے پاکستان کمیونٹی سنٹر میں سینٹر کے چیئرمین اور برنیٹ کے ڈپٹی میئر طارق ڈار کے تعاون سے Vape آگہی سیمینار کا اہتمام کیا جس میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی شخصیات کے علاوہ سابق کونسلر مشتاق لاشاری‘ محمد شفیق سابق برنیٹ میئر ارشد محمود‘ خالد ڈار یاسر عالم‘ اسد علی انجینئر اور سینئر صحافی رضا علی سید نے خصوصی شرکت کی۔ کونسلر طارق ڈار نے Vape کے نقصانات پر اظہار خیال کرتے ہوئے مسلم والدین سے خصوصی درخواست میں کہا کہ وہ اپنے بچوں کو تیزی سے بڑھتے اس موذی نشہ سے دور رہنے کا گھروں میں خصوصی درس دیں۔ ٹرسٹی ودود مشاق نے اپنی خیراتی تنظیم ڈی یو ای کے حوالہ سے کم عمر بچوں میں شدت سے بڑھنے والے برقی سگریٹ کے رجحان کے فوری خاتمہ کیلئے کمیونٹی پر زور دیا کہ بچوں کو صحت مندانہ سرگرمیاں مہیا کرنے کیلئے جہاں تک ممکن ہو سکے‘ وہ اپنا کردار ادا کرے۔ سیمینار کے اختتام پر معززین کی بٹ صاحب کی جانب سے دیئے کھانے سے تواضع کی گئی۔ 23 مارچ کے حوالے سے ایک بڑی تقریب کا انعقاد برطانیہ میں ہمارے ہائی کمشنر ڈاکٹر محمد فیصل نے اپنی رہائش گاہ ’’پاکستان ہائوس‘‘ میں کیا جس میں برطانوی حکومت‘ کامن ویلتھ اور دوست ممالک کے نمائندوں کی بھاری تعداد نے شرکت کی۔