• news

 نئی حکومت کے ساتھ مذاکرات!   آئی ایم ایف کے وفد کی پاکستان آمد 

پاکستان اورآئی ایم ایف کے درمیان سٹیند بائی ارینجمنٹ کے حتمی ریویو کا آغاز آئندہ 24گھنٹے میں ہو جائے گا۔ پاکستان پہلے ہی اس ریویو کی مکمل تیاری کر چکا ہے، جس میں بجلی اور گیس کے نرخوں میں ایڈجسٹمنٹ اور دیگر اقدامات شامل ہیں۔ آئی ایم ایف مشن رات گئے پاکستان پہنچ گیا۔ ادھر وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب کی زیرِ صدارت وزارت خزانہ میں اجلاس ہوا۔ اجلاس میں آئی ایم ایف جائزہ مشن کے ساتھ مذاکرات کا جائزہ لیا گیا۔ مذاکرات 14 سے 18 مارچ تک جاری رہیں گے۔ مذاکرات کی کامیابی کی صورت میں 1.1 ارب ڈالر کی قسط جاری کرنے کا فیصلہ ہو گا۔مذاکرات کے اس دور میں پاکستان کے لئے نئے آئی ایم ایف پروگرام پر بھی بات چیت کی جائے گی۔
ائی ایم ایف کے حکام شاید اسی تاک میں بیٹھے تھے کہ جیسے ہی نئی حکومت آئے اس کے ساتھ مذاکرات کے لیے پہنچ جائیں۔ادھر کابینہ کا اعلان ہوا، وزراء کو محکمے تفویض کیے گئے۔ ادھر آئی ایم ایف کا وفد پاکستان آن پہنچا۔حکومت تو ابھی سنبھل ہی رہی ہے۔وزرا نے اپنے قلمدان سنبھالے ہیں ابھی بریفنگز کا سلسلہ شروع ہونا ہے۔ محمد اورنگزیب  نئے وزیر خزانہ بنائے گئے ہیں اور یہ پہلی مرتبہ کسی کابینہ کا حصہ بن رہے ہیں۔ یہ اب تک پاکستان میں موجود نہیں تھے۔انہوں نے اپنے وزیر خزانہ بننے کے اعلان کے بعد پاکستان آنے کی تیاری شروع کی۔دو تین روز قبل وہ پاکستان آئے ہیں۔بہترین ماہر معیشت ہیں لیکن ان کو بھی اپنی وزارت کے حوالے سے بہت کچھ جاننا ہے۔اگر کوئی ایسا وزیر خزانہ ہوتا جو پہلے بھی اس عہدے پر متمکن رہ چکا ہوتا تو اس کے لیے آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کرنا چنداں مشکل نہ ہوتا۔محمد اورنگزیب پاکستان کے نئے وزیر خزانہ بلکہ پہلی بار وزیر خزانہ بنے ہیں۔ انہیں آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کے لیے تیاری کا تھوڑا وقت ضرور درکار تھا۔اب آئی ایم ایف کی ٹیم پاکستان پہنچ چکی ہے تو ان کے لیے مکمل تیاری کے بغیر مذاکرات کا حصہ بننا ہوگا لہٰذا مذاکرات میں پیشرفت کا زیادہ تر انحصار ان کی ٹیم کی صلاحیتوں اور تیاری پر ہوگا۔
آئی ایم ایف مشن وزارت خزانہ، وزارت توانائی، ایف بی آر حکام، سٹیٹ بینک حکام، پلاننگ کمیشن اور پٹرولیم ڈویڑن سے مذاکرات کرے گا جس کے دوران سرکلر ڈیٹ، سرکاری تحویل کے اداروں کے نقصانات اور ان کی نجکاری، ایف بی آر ریونیو کی صورت حال کا جائزہ لیا جائے گا۔جائزہ لینے کا مطلب اس کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے کہ یہ ادارے آئی ایم ایف کی ہدایات کو فالو کرتے ہوئے ٹیکس اہداف حاصل کریں۔آئی ایم ایف ریونیو میں اگرچہ گروتھ موجود ہے تاہم گذشتہ ماہ  سالانہ ہدف پورا کرنے سے مطابقت رکھنے والی گروتھ نہیں ہوئی۔ آئی ایم اس بارے میں نئے ریونیو اقدامات کا کہہ سکتا ہے۔ ایسے اقدامات کے باعث عوام پہلے ہی مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں گویا ان پر ایک اور قیامت ٹوٹنے والی ہے۔مشن کے قیام کے دوران بجٹ کے حوالے سے بھی بات چیت ہو گی۔ آئی ایم ایف پہلے ہی انکم ٹیکس اور خصوصاً پرسنل انکم ٹیکس میں اصلاحات کا مطالبہ کرتا رہا ہے۔اس طرح کی اصلاحات سے مراد بھی ٹیکسوں میں اضافہ ہی ہے۔ 
بجٹ میں قوم کے ساتھ کیا ہوگا۔ اگر آئی ایم ایف کی مشاورت بلکہ ڈکٹیشن پر بنایا گیا تو پھر عام آدمی کی زندگی مزید اجیرن ہو سکتی ہے۔ بجٹ سے پہلے آئی ایم ایف کے کہنے پر منی بجٹ آچکا ہے۔ یہ کارنامہ نگران حکومت کی طرف سے سرانجام دیا گیا تھا۔رواں سال 21 جنوری کو نگران حکومت کی طرف سے آئی ایم ایف کو فروری میں گیس مزید مہنگی کرنے کے یقین دہانی کرائی گئی تھی۔یہ بھی یقین دلایا گیا تھا کہ ٹیکسٹائل اور لیدر سیکٹر کے ٹیئر ون میں آنے والے پرچون فروشوں پر جی ایس ٹی کی 15 فیصد کی شرح کو بڑھا کر 18 فیصد کیا جائے گا۔ چینی پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی پانچ روپے فی کلو گرام بڑھائی جا سکے گی، مشینری کی درآمد پر ایک فیصد ایڈوانس ٹیکس کا اضافہ کر دیا جائے گا۔ را مٹیریل کی درآمد پر ایڈوانس ٹیکس میں 0.5 فیصد اضافہ کیا جا  سکے گا اور سپلائر ز اور کنسٹرکشن پر بھی ود ہولڈنگ ٹیکس کو بڑھایا جائے گا۔ یہ یقین دہانیاں نگران حکومت کی طرف سے کرائی گئی تھیں اور ان پر عمل بھی کیا جا رہا ہے نگرانوں کو اس سے کیا واسطہ کہ عوام کا کیا حشر ہوگا وہ عوام کو جواب دے نہیں تھے۔اب پاکستان میں منتخب حکومت آچکی ہے جو نہ صرف عوام کو جوابدہ ہے بلکہ اس نے عوام کی اشک شوئی کرنی ہے۔ مہنگائی سے نجات لانی ہے جیسا کہ اس کی طرف سے وعدے اور دعوے کیے گئے ہیں۔
بلوم برگ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دوسری بار وزیراعظم بننے سے آئی ایم ایف پروگرام میں رکاوٹیں دور ہوں گی،شہباز شریف معاشی اصلاحات کی صلاحیت رکھتے ہیں۔رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ شہباز شریف نے گزشتہ دور حکومت میں روپے کی قدر کو مستحکم کرنے کے اقدامات کیے تھے۔شہباز شریف واقعی معاشی اصلاحات کے صلاحیت رکھتے ہیں۔انہوں نے اپنی معاشی ٹیم میں تبدیلیاں بھی کی ہیں۔ اسحاق ڈار اور شمشاد اختر بہترین معاشی ماہرین ہیں لیکن ان پر محمد اورنگزیب کو ترجیح دے کر وزیر خزانہ بنایا گیا ہے۔ پاکستان کی معیشت کو مضبوط بنانے کے لیے شہباز شریف کے ذہن میں ٹھوس منصوبہ بندی ضرور ہوگی۔ہو سکتا ہے کہ یہ منصوبہ بندی لانگ ٹرم ہو مگر عوام کو فوری ریلیف کی ضرورت ہے۔آئی ایم ایف سے پروگرام لیے گئے تو ماضی کے تجربات کے پیش نظر آئی ایم ایف کی شرائط ماننی پڑیں گی جس سے عوام کو مطلوبہ ریلیف نہیں مل سکے گا۔
شہباز شریف کو اپنی صلاحیتیں آئی ایم ایف سے قوم کو چھٹکارا دلانے کے لیئے بروئے کار لانی چاہئیں نہ کہ آئی ایم ایف کا شکنجہ مزید کسوانے کے لیئے۔ آئی ایم ایف کی ناروا شرائط نے عوام کا پہلے ہی بھرکس نکال دیا ہے۔ اتحادی قیادتوں کو اپنے سابقہ دور کے آئی ایم ایف کے ساتھ تلخ تجربات کو پیش نظر رکھ کر ہی کوئی نیا معاہدہ کرنا چاہیئے۔ورنہ عوام کا ردعمل بھی سخت آ سکتا ہے جس کی اتحادی حکومت متحمل نہیں ہو سکے گی۔

ای پیپر-دی نیشن