• news

دنیا میں قیمتیں مستحکم، پاکستان میں غذائی اشیاء مہنگی کیوں؟ آئی ایم ایف

اسلام آباد (نمائندہ خصوصی) آئی ایم ایف نے فرٹیلائزر پلانٹس کو سستی گیس کی فراہمی پر تشویش کا اظہار اور ریئل اسٹیٹ اور ری ٹیل  سیکٹر کو ٹیکس نیٹ میں لانے پر زور دیا، آئی ایم ایف کے مشن کے ساتھ  قلیل مدتی قرض پروگرام کے جائزہ مذاکرات کا پہلا سیشن مکمل ہوگیا۔ اس سیشن میں آئی ایم ایف وفد کی قیادت نیتھن پوٹر نے کی۔ وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگ زیب کی قیادت میں پاکستانی ٹیم سے بات چیت وزارت خزانہ کے کیو بلاک میں کی گئی۔ گورنر اسٹیٹ بینک جمیل احمد اور چیئرمین ایف بی آرامجد زبیر ٹوانہ بھی پاکستانی ٹیم میں شامل تھے۔  مذاکرات 14 سے 18 مارچ تک شیڈول ہیں، تاہم اس میں 21 یا 22 مارچ تک توسیع بھی کی جاسکتی ہے۔ سیشن کے دوران وزیر خزانہ، گورنر سٹیٹ بینک، چیئرمین ایف بی آرنے وفد کو بریفنگ دی۔ ملاقات کے دوران چیئرمین ایف بی آر نے رواں مالی سال کا ٹیکس ہدف حاصل کرنے کا پلان دیا اور وفد کو یقین دہانی کرائی کہ نئے ٹیکس لگائے بغیر رواں مالی سال کا ہدف حاصل کر لیا جائے گا۔ آئی ایم ایف وفد نے معاشی استحکام کیلئے حکومتی اقدامات کو سراہتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو معاشی استحکام کیلئے سخت معاشی پالیسیاں اختیار کرنا ہوں گی، وفد نے ٹیکس وسولی کو ڈیجٹل بنانے اور ایف بی آر کے ڈیجلٹائزیشن پروگرام کو جلد پایہ تکمیل تک پہنچانے پر زور دیا ۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ائی ایم ایف نے رئیل اسٹیٹ سیکٹر، مینوفیکچرر شعبے اور ریٹیلرز پر ٹیکس اقدامات کے لئے کہا ،وفد نے عالمی مارکیٹ میں کموڈیٹی پرائس مستحکم اورپاکستان میں نرخ بڑھنے پر بھی تشویش کا اظہار کیا ۔ آئی ایم ایف وفد نے وزیر توانائی، ایف بی آر اور بی آئی ایس پی حکام سے بھی ملاقاتیں کیں، جس میں وزارت توانائی حکام نے گردشی قرضہ، ٹیرف آؤٹ لْک اور کاسٹ سائیڈ ریفامز پر بریفنگ دی۔ بی آئی ایس پی میں رجسٹرڈ افراد، آؤٹ لْک اور ڈیولپمنٹ، رئیل اسٹیٹ سیکٹر میں ٹیکسیشن اور ریٹیلرز کیلئے ٹیکس میکنزم پر بریفنگ دی۔پاکستان نے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کو تمام ترجیحی نکات پر عمل درآمد کی یقین دہانی کرا ئی ،ایف بی آر محصولات میں اضافے کا پلان پیش کیا گیا اور  آئی ایم ایف کو بتایا گیا کہ ریونیو کے  ہدف کو پورا کر لیا جائے گا ،پاور سیکٹر کا ایشو بات چیت کا مرکزی  نکات میں سے ایک ہے ،پاور حکام کی جانب سے  آئی ایم ایف کو بتایا گیا کہ کہ گیس اور بجلی کے سرکلر ڈیٹ کو منجمند رکھا جائے گا اور اس میں کوئی اضافہ نہیں ہونے دیا جائے گا ،زرائع کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کی وفد نے کہا کہ جن علالقوں میں پاور نقصانات ہیں وہان پر بجلی بل کی وصولی آوٹ سورس کر دی جائے ،کیپٹو پاور پلانٹس کو  گیس کی فراہمی بند کی جائے ماور سراکاری سعبہ کے پاور پلانٹس کو پوری استعداد سے چلایا جائے، اس کے ساتھ ساتھ بجلی اور گیس کی چوری کو روکنے کے لئے سخت اقدامات کئے جائے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پاور سیکٹر کے لئے جو نئے مطالبات کئے جا رہیں ہیں یہ نئے پروگرام کا حصہ ہوں گے، ذرائع کا بتانا ہے کہ پاکستان کی طرف سے آئی ایم ایف سے نیا پروگرام لینے کی خواہش کا اظہار کیا گیا، نئے پروگرام کے معاملے پر جائزہ مشن مذاکرات میں مزید بات چیت ہوگی۔پاکستان پہلے ہی  جائزہ کی تمام شرایط کو پورا کر چکا ہے، پالیسی نوعیت کے مذاکرات میں نئے پروگرام پر بات چیت ہو گی۔ جن نکات پر اتفاق ہو گا و، آئندہ بجٹ میں ہوں گے اور نئے پروگرام کا حصہ ہوں گے ۔دریں اثنا مذاکرات  کے  بارے میں سرکاری بیان میں کہا گیا ہے ائی ایم ایف کے مشن میں وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب سے ملاقات کی،وفاقی وزیر نے وفد کا خیر مقدم کیا اور یہ کہا کہ حکومت  ائی ایم ایف کے ساتھ کام کرنے کے لیے پرعزم ہے، حکومت پاکستان میں استحکام معاشی ترقی کے لیے معاشی اصلاحات کے ایجنڈے پر کام کرے گی، ائی ایم ایف مشن کے سربرا نے وفاقی وزیر خزانہ کو منصب سنبھالنے کی مبارکباد دی، وفد کے ساتھ مائکرو اکنامک انڈیکیٹرز حکومت کی معاشی استحکام ، سٹرکچرل اصلاحات انرجی سیکٹر، سرکاری تحویل کے کاروباری اداروں میں گورننس کی بہتری کے اقدامات پر بات چیت ہوئی، وزیر خزانہ نے پروگرام کے دوسرے جائزہ میں مثبت بات چیت کی توقع ظاہر کی۔
اسلام آباد (عترت جعفری) آئی ایم ایف کے ساتھ نئے پروگرام کی بات چیت میں سب سے اہم نکتہ ٹیکس مشینری کی  اوورہالنگ ہے، آئی ایم ایف کے ساتھ نئے پروگرام کو حاصل کرنے کے لیے جن دو سیکٹرز میں پاکستان کو اب حتمی اقدامات کرنا ہوں گے ان میں ایک پاور سیکٹر کو ٹھیک کرنا اور دوسرا ریونیو جنریشن ہے، ذرا ئع یہ بتا رہے ہیں کہ آئی ایم ایف جن خد وخال پر بات کر رہا ہے، ان میں ان لینڈ ٹیکسز سب سے بڑا معاملہ ہیں، آئی ایم ایف یہ چاہتا ہے کہ ہر سیکٹر کو معمول کے ٹیکس رجیم کے اندر نہ لایا جائے اور تمام خصوصی نوعیت کی ٹیکس رجیم کو ختم کیا جائے، تعمیراتی سیکٹر ہو یا کوئی بھی سیکٹر ہو، اس سے کسی قسم کا ترجیحی ٹیکس رجیم نہ دیا جائے، آئی ایم ایف کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان انکم ٹیکس کے اندر مراعات کے سیکنڈ شیڈول میں موجود تمام اداروں کو ٹیکس نارمل رجیم میں لا کر ٹیکس کریڈٹ کی سہو لت دی جائے تاکہ ڈاکومینٹیشن ہو سکے، نئے پروگرام میں زرعی ٹیکس کا نفاذ اہم مطالبہ ہوگا، اس کے لیے آئین میں ترمیم کرنے کے لیے کہا جائیگا، کسی قسم کی ٹیکس رعایت دینے کے لیے کسی  ادارے یا حکومت کے اختیار پر قدغن لگانے کی بھی کہا جائے گا،  نیا پروگرام جو کم از کم تین سال کا ہوگا، پاکستان کی طرف سے قرضہ ’’پے بیک‘‘ کی صلاحیت کو بڑھانے پر یقین کی  بنیاد پر ہی ہو سکے گا۔

ای پیپر-دی نیشن