بانی پی ٹی آئی شہباز، علی امین ملاقات سے خوش نہیں، غلطیوں کی تحقیقات ہونی چاہئے: شیر افضل مروت
اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ) رہنما پی ٹی آئی شیر افضل مروت نے کہا ہے کہ بانی پی ٹی آئی علی امین کی وزیراعظم سے ملاقات پر خوش نہیں ہوئے لیکن انہیں اندازہ ہے کہ وفاق سے فنڈز، خیبر پی کے، ارسا کے واجبات ریکور کرنا ہیں۔ خیبر پی کے کی معاشی حالت ناگفتہ بہ ہے۔ اس لئے بانی پی ٹی آئی نے علی امین کی ملاقات پر کچھ زیادہ ناراضی کا اظہار نہیں کیا۔ بانی پی ٹی آئی پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے سے ناخوش اور مایوس ہوئے۔ بانی پی ٹی آئی سے کہا کہ ہم نے دو غلطیاں کیں جن کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔ مولانا شیرانی سے بات ہونے کے بعد اچانک ان کا پتا کٹ گیا۔ بانی پی ٹی آئی نے کہا اگر بلا جاتا ہے تو بطور متبادل شیرانی صاحب کی پارٹی کی شکل میں رہیں گے۔ بلے باز کیوں آیا، کیسے آیا اس کا پتا لگانا چاہئے۔ ایم ڈبلیو ایم سے معاہدہ ہوا تو اس کیخلاف میسیجز آنے لگے۔ ایم ڈیلو ایم چھوڑ کر اچانک سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار کی گئی۔ پہلی غلطی بلے باز کی طرف جھکاؤ تھا جس سے مولانا شیرانی کی پارٹی کا پتا کٹ گیا۔ دوسری بڑی غلطی ایم ڈبلیو ایم کے ساتھ شمولیت کا فیصلہ ہوا لیکن تھریٹس ملنا شروع ہو گیا۔ جبکہ ہمارا مقصد اپنی سیٹیں بچانا تھیں۔ پھر اس تھریٹ کی وجہ سے سنی اتحاد کونسل میں شرکت کا فیصلہ ہوا۔ ہمیں علم تھا کہ سنی اتحاد کونسل میں شمولیت پر یہ مسئلہ پیش آئے گا۔ بانی پی ٹی آئی نے کہا کہ کسی قوم میں صدیوں میں ایسے انقلاب آتے ہیں۔ گوجرانوالہ کی سیٹ ہم سے ری کاؤنٹنگ میں چھینی گئی۔ ہمارے امیدوار کو پتا بھی نہیں۔ یہی ہمارے ساتھ لودھراں کے ایک حلقے میں ہوا۔ عاطف خان کا ان پٹ بہت ضروری ہے۔ صدر اور وزیراعظم دونوں مل کر عوام کو گھسیٹنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ انہوں نے عوام کے مینڈیٹ کو چوری کیا۔ ہماری ریزرو سیٹوں پر ڈاکہ ڈالا۔ ہماری خواتین جیلوں میں بند ہیں۔ 9 مئی کے نام پر طعنے دیئے جا رہے ہیں۔ ابھی تک ظلم و جبر کا تسلسل برقرار ہے۔ لہذا کیا راستہ بچتا ہے؟۔ اسمبلیاں چھوڑنے کا ابھی آپشن زیر بحث نہیں آیا۔ جس تیز رفتاری سے الیکشن کمشن سہولت کاری کر رہا ہے ایک دن آئے گا ہم کہیں گے کہ جو نشستیں رہ گئی ہیں وہ بھی لے لیں۔ پاکستان کے مستقبل اور سالمیت کے ساتھ مل کر کھیل رہے ہیں۔ تحقیقات کے بعد ان دو غلطیوں کی ذمہ داری فکس کی جانی چاہئے۔ بانی کے احکامات رد ہوئے، ان غلطیوں کا تدارک پہلے ہونا چاہئے۔ علی امین کی وزیراعظم سے ملاقات کو کارکنوں نے سراہا نہیں ہے۔ وکلاء پہلے وکیل تھے اب وہ سیاستدان بھی ہو گئے ہیں۔ مزاحمت سے متعلق اسد قیصر کے بیان کی مکمل تائید کرتا ہوں۔ یہ فیصلے جس نے بھی کئے اس سے پارٹی کو نقصان ہوا۔ اس کے خلاف کارروائی ہونی چاہئے۔ اسد قیصر ، بیرسٹر گوہر اور مجھے ٹاسک دیا گیا۔ ہم نے شیرانی صاحب سے میٹنگ کیں۔ ہم کچھ ٹی او آر پر پہنچ گئے اور بلوچستان، کے پی میں کچھ سیٹوں کی ایڈجسٹمنٹ پر بانی تیار ہو گئے۔ بانی پی ٹی آئی نے کہا ٹی او آر پر دستخط کرکے پبلک کر دیں۔ ہم نے میڈیا میں اعلان کر دیا کہ شیرانی صاحب سے اتحاد ہو گیا ہے۔ پھر ان کا پتہ کٹ گیا۔