خود انحصاری کی طرف آنا ہوگا
وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کی سربراہی میں پاکستان کی معاشی ٹیم کے دورے پر آئے آئی ایم ایف کے وفد کے ساتھ مذاکراتی عمل شروع ہو گیا۔ وزیر خزانہ نے نجی ٹی وی چینل کو دیئے گئے انٹرویو میں کہا ہے کہ اس وقت میکرو استحکام ہے۔ اسے مستقل کرنا ہے۔ آئی ایم ایف پروگرام کے بعد مشرق وسطیٰ کے بینکوں سے رابطہ کریں گے۔
آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کے دوران ہماری معاشی ٹیم کی کوشش ہوگی کہ اس عالمی مالیاتی ادارے سے زیادہ سے زیادہ مالی مفاد حاصل کیا جائے جبکہ دوسری طرف بیٹھے ہوئے لوگوں کی کوشش ہوگی کہ جورقم قرض میں لی جا رہی بمع سود اس کی واپسی یقینی بنائی جائے۔اسی لئے یہ مالیاتی ادارے قرض دینے کے ساتھ ہی شرائط بھی رکھ دیتے ہیں جن کو تسلیم کرنا قرض خواہ کی مجبوری ہوتی ہے۔پاکستان کی نئی حکومت کی نئی معاشی ٹیم مذاکرات میں کہاں تک کامیاب ہوتی ہے اس حوالے سے زیادہ خوش فہمی کی ضرورت نہیں ہے۔مذکورہ انٹرویو میں وزیر خزانہ کی طرف سے کہا گیا کہ ہمارے پاس بٹن نہیں ہے کہ اسے دبائیں گے تو پاکستان کی مالی حالت بہتر ہو جائے گی۔وزیر خزانہ یہ بھی کہتے ہیں کہ دوست ممالک نے واضح عندیہ دیا ہے کہ وہ امداد نہیں بذریعہ سرمایہ کاری مدد کرنا چاہتے ہیں‘ تجارت کرنا چاہتے ہیں۔ پرائیویٹ انویسٹمنٹ بھی ایس آئی ایف سی کے ذریعے کی جا سکتی ہے۔گویا امداد دینے والوں نے ہاتھ کھڑے کر دیئےہیں۔آخر کب تک وہ امداد دیتے رہیں گے۔ اس سے بڑا سوال یہ ہے کہ ہم کب تک امدادوں اور قرضوں پر چلتے رہیں گے ؟ خود انحصاری کی طرف کیوں نہیں آتے؟ آج مسلم لیگ نون کی حکومت ہے اس کی طرف سے پاکستان کو ایشئن ٹائیگر بنانے کے دعوے کیے جاتے رہے ہیں۔ایشین ٹائیگر بننے کے لیے دوست ممالک نے فارمولا بتا دیا ہے۔مزید برآں وزیراعظم شہباز شریف نے وفاقی حکومت کے اخراجات کم کرنے کیلئے سات رکنی کمیٹی تشکیل دی ہے۔کمیٹی سرکاری اخراجات میں کمی لانے کیلئے عملی منصوبہ پیش کرے گی۔ملک ترقی اور خوشحالی کی شاہراہ پر ایسے اقدامات کے ذریعے ہی گامزن ہوسکتا ہے۔آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات میں عوامی مشکلات کو پیش نظر رکھا جائے۔ ان اداروں کی اپنی ترجیحات ہیں جہاں پر بچت کی ضرورت ہے وہیں اشرافیہ کی بڑی بڑی مراعات پر بھی کٹ لگانا ہو گا۔ایسے اقدامات ہی سے مالیاتی اداروں کے چنگل سے نکل کر خود انحصاری کی طرف بڑھا جا سکتا ہے۔