وزیراعظم سے وزیراعلیٰ خیبر پی کے کی ملاقات قومی مفاہمت کی جانب اہم پیش رفت
ملک میں وفاقی پارلیمانی جمہوری نظام کے تسلسل و استحکام کیلئے گزشتہ روز وزیراعظم ہاﺅس اسلام آباد میں وزیراعلیٰ خیبر پی کے علی امین گنڈاپور کی وزیراعظم شہبازشریف کے ساتھ خوشگوار فضا میں ہونیوالی ملاقات کی صورت میں ٹھنڈی ہوا کا جھونکا آیا جو بلیم گیم کی سیاست میں ایک دوسرے کیخلاف صف آراءسیاسی جماعتوں اور انکی قیادتوں کی جانب سے امور حکومت میں بہتر تعلقات کار کیلئے اہم پیش رفت قرار دی جا رہی ہے۔ وزیراعظم آفس کے مطابق وزیراعظم نے علی امین گنڈاپور کا وزیراعظم ہاﺅس میں خیرمقدم کیا اور ان کیلئے نیک توقعات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ چاروں صوبے وفاق کی اکائیاں ہیں۔ چاروں صوبے مل کر چلیں گے تو ملک ترقی کریگا۔ اس موقع پر وزیراعلیٰ خیبر پی کے علی امین گنڈاپور نے بھی وزیراعظم کے ساتھ نیک جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ خیبر پی کے حکومت اچھی نیت کے ساتھ آگے بڑھنا چاہتی ہے اور ہم ملکی ترقی میں اپنا کردار ادا کرنے کیلئے پرعزم ہیں۔ انہوں نے وزیراعظم کو صوبے کے انتظامی امور پر مفصل بریفنگ دی جس پر وزیراعظم شہبازشریف نے کہا کہ معاشی صورتحال کے تناظر میں خیبر پی کے صوبہ کے تمام جائز مطالبات پورے کئے جائیں گے‘ ہمیں مل بیٹھ کر تمام مسائل کا حل نکالنا ہے اور مشترکہ کاوشوں میں عوامی فلاح و بہبود ہماری اولین ترجیح ہوگی۔ وفاقی حکومت چاروں صوبوں سے ہم آہنگی کے ساتھ کام کرنے پر یقین رکھتی ہے۔
وزیراعظم سے ملاقات کے بعد وزیراعلیٰ خیبر پی کے نے اس ملاقات کو مثبت قرار دیا اور کہا کہ وزیراعظم نے تعاون کا یقین دلایا ہے اور مطالبات بھی تسلیم کئے ہیں۔ انہوں نے وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال کے ہمراہ میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ہم ایسا کوئی مطالبہ نہیں کرینگے جو وفاقی حکومت کیلئے ناممکن ہو۔ وزیراعظم نے انہیں صوبے کے واجبات ادا کرنے کا بھی یقین دلایا ہے جبکہ انہوں نے وزیراعظم کے روبرو بانی پی ٹی آئی سے جیل میں ملاقات کا معاملہ بھی اٹھایا اور کہا کہ انہوں نے سینیٹ الیکشن کے معاملہ میں بانی پی ٹی آئی سے مشاورت کرنی ہے جس پر وزیراعظم نے یقین دلایا کہ انکی بانی پی ٹی آئی سے جلد ملاقات کرائی جائیگی۔ اس موقع پر احسن اقبال نے بھی وزیراعظم سے وزیراعلیٰ خیبر پی کے کی ملاقات کو خوش آئند قرار دیا اور کہا کہ سیاست اپنی اپنی مگر ریاست سانجھی ہے۔ انکے بقول وفاقی حکومت خیبر پختونخوا میں امن و ترقی کیلئے ہر ممکن کردار ادا کریگی۔ وفاقی وزراءاسحاق ڈار‘ خواجہ محمد آصف‘ امیر مقام اور اعلیٰ سرکاری حکام بھی اس ملاقات میں شریک تھے۔
بدقسمتی سے ہماری سیاست میں سیاسی اختلافات کو ذاتی دشمنیوں کی سطح پر لے جا کر ملک میں سیاسی محاذآرائی انتہاءکو پہنچائی جاتی رہی ہے جس میں ایک دوسرے کی حکومت کو قبول نہ کرنے اور چلنے نہ دینے کے اعلانات کرکے سیاسی عدم استحکام کے راستے نکالے جاتے رہے۔ اس کا یقیناً ملک کے سسٹم کے علاوہ قومی معیشت کو بھی سخت نقصان پہنچا اور اسی بنیاد پر سسٹم کو ڈی ریل کرنے کے مواقع بھی نکلتے رہے جن سے غیرجمہوری عناصر کے علاوہ ملک کے دشمنوں نے بھی فائدہ اٹھایا اور ملک کی سلامتی کیخلاف اپنی سازشوں کے جال پھیلائے۔ بے شک سیاسی اختلافِ رائے ہی جمہوریت کا حسن ہے جس کے منتخب ایوانوں کے اندر اور اپنی اپنی پارٹی کی سطح پر اظہار میں کوئی قباحت نہیں۔ اس سے سسٹم میں موجود خامیاں دور کرنے اور حکومتی گورننس بہتر بنانے میں مدد ملتی ہے لیکن سیاسی اختلافات کو ذاتی دشمنی کی حد تک بڑھا دیا جائے تو اس سے سسٹم کے استحکام کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکتا ہے نہ گھمبیر اقتصادی اور مالی مسائل کے حل کیلئے قومی افہام و تفہیم کا کوئی راستہ نکل سکتا ہے۔ سیاسی اختلافات کو ذاتی دشمنیوں اور انتقام میں بدلنے کا خمیازہ ہم ماورائے آئین اقدامات کے تحت جمہوریت کی بساط باربار الٹائے جانے کی صورت میں ماضی میں بھگت چکے ہیں جبکہ اس سیاست کا عوام کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچا جن کے اول تو روٹی‘ روزگار کے مسائل حل نہ ہو پائے جبکہ منافرت کی یہ فضا اداروں‘ خاندانوں اور گھروں تک بھی جا پہنچی جس سے پورا معاشرہ پراگندہ ہوتا نظر آیا۔ گزشتہ ایک دہائی سے بلیم گیم کا یہی کلچر ہمارے معاشرے پر حاوی رہا ہے جس سے تمام معاشرتی سماجی اقدار بھی تہس نہس ہو کر رہ گئیں چنانچہ فروری 2024ءکے انتخابات منافرت کی اسی فضا میں منعقد ہوئے تو بعض سیاسی جماعتوں اور انکی قیادتوں کی جانب سے انتخابات کے نتائج قبول نہ کرنے اور ان انتخابات کی بنیاد پر قائم ہونیوالی وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو چلنے نہ دینے کے اعلانات بھی سامنے آنے لگے۔
اس حوالے سے سب سے زیادہ جارحانہ طرز عمل خیبر پی کے کی جانب سے اختیار کیا جاتا نظر آیا جہاں پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئے جنہوں نے پارٹی پالیسی کے تحت سنی اتحاد کونسل میں شامل ہو کر خیبر پی کے حکومت بھی تشکیل دے دی۔ علی امین گنڈاپور کو بانی پی ٹی آئی عمران خان کی جانب سے امیدوار وزیراعلیٰ کے طور پر نامزد کیا گیا جنہوں نے اس منصب پر منتخب ہونے کے بعد اپنے جارحانہ بیانات کے ذریعے وفاق پر چڑھائی کا عندیہ دینا شروع کر دیا اور یہ کہہ کر وزیراعظم کی حلف برداری کی تقریب میں شمولیت سے بھی انکار کر دیا کہ وہ شہبازشریف کو رکن قومی اسمبلی ہی نہیں سمجھتے‘ انہیں بطور وزیراعظم کیسے قبول کرلیں۔ اس بنیاد پر سیاسی تلخیاں مزید بڑھتی محسوس ہوئیں اور وفاق اور صوبے میں ٹکراﺅ کے حالات پیدا ہوتے نظر آئے جس سے خیبر پی کے میں گورنر راج کے نفاذ کے امکانات پر بھی چہ میگوئیاں ہونے لگیں اور علی امین گنڈاپور کو اڈیالہ جیل میں بانی پی ٹی آئی عمران خان سے ملاقات سے بھی روک دیا گیا جبکہ پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر علی اور اس پارٹی کے دوسرے عہدیدار حکومت کیخلاف احتجاجی تحریک کی تیاری کرتے بھی نظر آئے۔
گزشتہ روز جب وزیراعلیٰ خیبر پی کے کی وزیراعظم شہباز شریف سے ملاقات کی خبریں چلنا شروع ہوئیں تو اس پر پوری قوم کو خوشگوار حیرت ہوئی اور اسے منافرت کی سیاست میں افہام و تفہیم کیلئے برف پگھلنے سے تعبیر کیا گیا۔ اس ملاقات میں وزیراعظم پاکستان اور وزیراعلیٰ خیبر پی کے نے ایک دوسرے کیلئے جن نیک اور خوشگوار جذبات کا اظہار کیا اور امور حکومت کی انجام دہی میں ایک دوسرے کی معاونت کا عندیہ دیا وہ فی الواقع سسٹم اور ملک و قوم کیلئے نیک شگون ہے۔ توقع کی جانی چاہیے کہ معاملہ فہمی اور افہام و تفہیم کے اس دوطرفہ جذبے کو ہماری سیاست میں فروغ حاصل ہوگا جس سے سسٹم بھی مستحکم ہوگا اور سلطانی جمہور کے ثمرات بھی براہ راست عوام تک پہنچنا شروع ہو جائیں گے۔