حضرت فاطمة الزہرارضی اللہ تعالی عنہا(۲)
ایک دن حضرت علی المرتضی رضی اللہ تعالی عنہ کی ایک آزاد کردہ لونڈی نے پوچھا کیا کسی نے فاطمہ ؓ کے لیے پیغام حضور نبی کریم ﷺ کو بھیجا ہے ۔ حضرت علی نے جواب دیا مجھے نہیں معلوم ۔ اس نے کہا کہ آپ حضور نبی کریم ﷺکی بارگاہ میں حاضر ہو کر پیغام عرض کریں ۔ حضرت علی نے کہا میرے پاس کیا شے ہے جو میں نکاح کے لیے آپﷺ کو پیغام بھیجو ں۔
حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہا اس کے کہنے پر حضور نبی کریم ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہو ئے ، لیکن نبوت کے رعب اور فطری حیا کی وجہ سے زبان سے کچھ کہہ نہ سکے اور سر جھکا کر آپ ﷺ کے سامنے بیٹھ گئے ۔ حضور ﷺ نے خود ہی ان کی طرف توجہ فرمائی اور پوچھا اے علی کیا بات ہے آج خلاف معمول چپ چاپ ہو کیا فاطمہ کا پیغام لے کر آئے ہو ۔ حضرت علی نے عرض کی جی یا رسو ل اللہ ﷺ ۔ حضور ﷺ نے پوچھا تمہارے پاس حق مہر ادا کرنے کے لیے کچھ ہے ؟
حضرت علی نے عرض کی یارسو ل اللہ ﷺ ایک زرہ اور ایک گھوڑے کے سوا کچھ نہیں ۔ حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا گھوڑا تو لڑائی کے کام آئے گا لیکن زرہ فروخت کر کے اس کی قیمت لے آﺅ ۔ حضرت عثمان غنی نے یہ زرہ خرید لی اور پھر ہدیہ حضرت علی کو واپس کر دی ۔
حضرت علی یہ رقم لے کر حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سارا واقع سنایا تو آپ ﷺ نے حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کے لیے دعا فرمائی ۔ حضرت فاطمہ کی رضا مندی کے بعد آپ ﷺ مسجد نبوی تشریف لائے اور منبر پر تشریف فرما ہو کر فرمایا اے مہاجرین و انصار مجھے اللہ تعالی نے حکم دیا ہے کہ حضرت فاطمہ کا نکاح حضرت علی کے ساتھ کر دو ں ۔ پھر حضور نبی کریم ﷺ نے چار سو مثقال چاندی کے عوض حضرت فاطمہ کا نکاح حضرت علی کے ساتھ پڑھایا ۔
حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں حضرت فاطمہ بہت عبادت کرتی تھیں لیکن اس کے باوجود گھر کے کاموں میں کبھی فرق نہیں آنے دیا ۔ حضرت امام حسن فرماتے ہیں میری والدہ ماجدہ گھر کے کام کاج کے ساتھ ساتھ صبح سے شام تک محراب میں اللہ تعالی کی عبادت میں مشغول رہتی ۔گریہ و زاری کرتیں اور خشوع و خضوع کے ساتھ حمد و ثناءکرتیں اور دعا مانگتیں امام حسن فرماتے ہیں ایک رات والدہ ماجدہ ساری رات عبادت میں مشغول رہیں اور صبح تک اللہ کے حضور دعائیں مانگتی رہیں ۔ تمام مﺅ منین اور مﺅمنات کے لیے دعا مانگی لیکن اپنے لیے کچھ نہیں مانگا ۔ میں نے عرض کی امی جان آپ نے اپنے لیے کچھ نہیں مانگا تو آپ نے فرمایا : بیٹا پہلا حق باہر والوں کا ہوتا ہے ۔اسی عبات کے شوق کی وجہ سے آپ کا لقب بتول پڑ گیا ۔