ہفتہ ‘ 5 رمضان المبارک 1445ھ ‘ 16 مارچ 2024
علی امین گنڈاپور کی شہباز شریف کیساتھ ملاقات سے بانی پی ٹی آئی خوش نہیں،کارکنوں نے بھی نہیں سراہا، شیر افضل مروت۔
شیر افضل مروت وکیل بھی ہیں۔ اب سیاستدان بھی ہو گئے۔ ان کی شہرت پھٹے چک قسم کے شخص کی ہو گئی ہے, ان کا یہ بیان بھی اسی طرح کا ہے۔پہلے حصے میں وہ کہتے ہیں کہ بانی اس ملاقات سے خوش نہیں، دوسرے حصے میں اپنی رائے دی ہے کہ کارکنوں نے بھی ملاقات کو نہیں سراہا۔ گویا خودان کو بھی یہ ملاقات پسند نہیں آئی۔اسی بیان میں ایک اور پینترا بھی موجود ہے کہ خان صاحب ملاقات سے خوش نہیں تا ہم ناراض بھی نہیں ہوئے کیونکہ مرکز سے فنڈ لینے ہیں، ارسا کے واجبات ریکور کرانے ہیں۔ شروع میں علی امین گنڈاپور کار رویہ بھی کچھ ایسا ہی تھا جیسے گنڈا سا کندھے پر رکھ کر مونچھوں کو تاو¿ دیتے ہوئے مخالف کو کہہ رہے ہوں "دیکھ لوں گا "البتہ جلد ہی انکو کسی نے سمجھایااور انکی سمجھ میں بات آگئی ورنہ اٹ کھڑکا لگا رہتا۔ سیاسی اختلافات اپنی جگہ حکومتوں کے مابین ورکنگ ریلیشن شپ ضروری ہے۔گنڈا پور وزیراعظم ہاو¿س گئے وہاں ان کا بہتر سواگت کیا گیا۔ ملاقات کے بعد میڈیا ٹاک بھی اچھی رہی جس میں احسن اقبال اور امیر مقام بھی موجود تھے۔ صدر آصف علی زرداری کی طرف سے اس ملاقات کا خیر مقدم کیا گیا ہے۔کہیں سے بھی اس ملاقات پر ناپسندیدگی کا اظہار سامنے نہیں آیا تھا کہ اچانک شیر افضل مروت لٹھ لے کردھاڑ پڑے۔ویسے قابل اعتبار وکیل اور کھرے سیاستدان ہیں۔ اپنی طرف سے انہوں نے کچھ بھی نہیں کہاہو گا۔ جو خان صاحب سے سنا انہوں نے باہر آکر بیان کر دیا۔
٭....٭....٭
پاکستان میں موبائل انٹرنیٹ ادائیگیوں کا رجحان۔ صارفین کی تعداد دو کروڑ 70 لاکھ ہو گئی۔
24 کروڑ کی آبادی میں سے پونے تین کروڑ لوگ خریداری کے بعد ادائیگی موبائل فون اور انٹرنیٹ کے ذریعے کرتے ہیں۔لگتا ہے ہم بڑی تیزی سے جدتوں کی طرف بڑھ رہے ہیں۔یہی سپیڈ برقرار رہتی ہے تو کتنے عرصے میں پوری آبادی آن لائن ادائیگی کرنے لگے گی، دو چار سال تو کہیں نہیں گئے۔یہ سال کم اور زیادہ بھی ہو سکتے ہیں۔ہم کنویں کے اندر بیٹھ کر حساب کتاب کرتے ہیں۔ایک دو چار نہیں بلکہ بیسیوں ممالک ایسے ہیں جہاں صد فیصد ادائیگی آن لائن ہوتی ہے۔بسوں ٹیکسیوں کے کرائے سے بوٹ پالش کرانے تک ادائیگی کارڈ کے ذریعے کی جاتی ہے۔ان ممالک میں کاغذ اور پلاسٹک کی کرنسی گردش میں نہیں رہی۔اگلی نسل کرنسی نوٹ سے ناواقف ہو سکتی ہے۔اسی طرح کی ادائیگیاں پاکستان میں کتنے عرصے بعد ہونے لگیں گی؟ شاید اس کے لیے قیامت تک کا وقت درکار ہوگا۔قیامت آجائے گی مگر ہم کرنسی نوٹ اٹھائے پھرتے ہونگے۔ ویسے آن لائن یا کارڈ کے ذریعے ادائیگیوں کا ایک فائدہ یہ ہوگا کہ لوگ جعلی کرنسی سے بچ جائیں گے۔ نہ ہوں گے نوٹ نہ ہوگی جعلی کرنسی اور نہ ہی جعل ساز بروئے عمل ہوں گے۔ سٹیٹ بینک حکام بھی شرمندگی سے محفوظ رہیں گے۔کل پرسوں سٹیٹ بینک سے کمرشل بینک کو جاری کئے گئے ہزار کے نوٹوں کی گڈیوں میں سے کئی نوٹ مس پرنٹ تھے صارفین تک یہ نوٹ پہنچے تو مس پرنٹنگ کا عقدہ کھلا۔ اس کے بعد سٹیٹ بینک پرملامت اور طنز و تنقید کے تیر برسائے جا رہے ہیں۔ بینک کہتا ہے صرف 10 نوٹ مس پرنٹڈ تھے جو جعلی نہیں اصلی ہیں مگر یہ چل نہیں سکتے، واپس کر کے نئے لے جائیں۔ مس پرنٹ صرف صارف ہی پکڑ سکتا ہے بینک حکام کے پاس کوئی طریقہ نہیں ہے سوائے اس کے کہ ایک ایک نوٹ پرنٹنگ کے دوران چیک کیا جائے۔اس کام کیلئے سمندر کی لہریں گننے والے ماہر درکار ہوں گے۔
٭....٭....٭
ساڑھے تین سال میں کراچی ترقی دیکھے گا۔ میئر کراچی۔
کراچی نے فوری ترقی تو مرتضیٰ وہاب کے میئر بننے سے دیکھ لی۔ میئر صاحب نے ساڑھے تین سال میں ترقی دکھانے کی اس طرح بات کی ہے جیسے ملکہ حسن کی نقاب کشائی کریں گے۔ ترقی دکھانے کے لیے ساڑھے تین سال کیوں کھل کر وقت کیوں نہیں مانگ لیا۔ کوئی 10 پندرہ سال کی بات کریں۔
یہ تو سن رکھا ہے سہج پکے سو میٹھا، برق رفتاری سے ترقی "جلدی کام شیطان کا" کی طرح ہوتی ہے لہٰذا زیادہ جلدی کی ضرورت نہیں ہے ویسے ان کی بات، وعدے یا دعوے پر جائیں تو اگلے ساڑھے تین سال میں ترقی کیا ہو سکتی ہے؟ کراچی میں ہوائی بسیں چلنے لگیں گی۔ ویسے تو آج کل کئی رکشوں کی سپیڈ بھی جہازوں جیسی ہوتی ہے۔ ہوائی جہازوں جیسی۔ ٹن پروگرام والے جہازوں کی طرح نہیں، سوٹا لگایا دوسرا سوٹا لگانے سے پہلے لم لیٹ ہوگئے باقی سوٹے ساتھ والے لگانے لگتے اور لڑھکتے چلے جاتے ہیں۔ ترقی یہ بھی ہو سکتی ہے کہ مچھیرے بغیر جال کے مچھلیاں پکڑنے لگیں۔ پتنگیں بغیر ڈور کے اڑا کریں۔ 10 روپے کی روٹی دال فری ہو۔ اور بھی کئی ماڈل مرتضی وہاب کے ذہن رسا میں پنپ رہے ہوں گے۔بارش زیادہ ہوگی پانی زیادہ آئےگا اس کی نکاسی کے لیے فول پروف انتظامات بھی ترقی کی فہرست میں شاید شامل ہوں۔
٭....٭....٭
جس کی لا ٹھی اس کی بھینس والا قانون چل رہا ہے، حلیم عادل شیخ۔
چلیں قانون چل رہا ہے زمین جنبد نہ جنبد گل محمد کی طرح جام ہو کے نہیں رہ گیا۔حلیم عادل شیخ سخت جان اور مضبوط اعصاب کے مالک ثابت ہوئے ہیں۔ان کا پتہ نہیں چلتا کہ جیل میں ہیں یا آزاد ہیں؟ جیل سے باہر آتے ہیں تو اسی دبنگ لہجے میں جس کی بنا پر جیل گئے ہوتے ہیں۔واپسی پر کہتے نظر آتے ہیں اب کے مار، تو پھر وہیں پڑے ہوتے ہیں جہاں ضمانت سے پہلے تھے۔انہوں نے کہا کہ کہیں یہ نہ ہو کہ پوری قوم عمران خان سے ملاقات کے لیے جیل کے باہر جمع ہو جائے۔ شیخ صاحب نے یہ تڑی لگائی ہے، انکشاف کیا ہے یا پھر پیشگوئی کی ہے؟ پیش گوئی کی ہے تو پھر جیل حکام ابھی سے الرٹ ہو گئے ہوں گے. پوری قوم جیل کے باہر جمع ہوتی ہے تو اس سے عمران خان کو کیا فائدہ ہوگا؟الٹا خان صاحب کو اپنے حصے کی دیسی گھی میں تلی ہوئی دیسی مرغی سے ان کی تواضع کرنی پڑے گی۔ ویسے یہ بات درست ہے کہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس۔کون سی بھینس ؟ جو بین سن کر سر دھنتی ہے. لاٹھی وہ جو لالے کو نظر آتی تھی۔
چور تے لاٹھی دوجنے تے میں تے لالا کلے۔یعنی لالا جی کہہ رہے ہیں چور اور اس کے ہاتھ میں دبی لاٹھی وہ تو دو ہیں لیکن میں اور میرا لالہ دو نہیں، ہم اکیلے ہیں۔