پاک بھارت تعلقات کا مستقبل
رواں سال پاکستان اور ہندوستان کے لیے انتخابات کا سال ہے۔ پاکستان میں انتخابات کے نتیجے میں نئی حکومت وجود میں آچکی ہے اور سفارتی آداب کے تقاضے کے طور پر ہندوستان کے وزیرِ اعظم نریندر مودی پاکستانی وزیرِ اعظم کو ایکس پر مبارکباد کا پیغام دے چکے ہیں۔رواں سال مئی میں ہندوستان بھی انتخابی مشق سے گذرے گا اور وہاں بھی ایک نئی حکومت متوقع ہے۔بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی نے حال ہی میں کشمیر کا دورہ کیا ہے اور بی جے پی حکومت کی کارکردگی کے طور پر کئی ترقیاتی منصوبوں کا پرچار کیا ہے۔ کشمیر کے دورے کے دوران وزیرِ اعظم مودی نے کشمیر میں سیاحت کے لیے چھ ہزار کروڑ کی سرمایہ کاری کا اعلان بھی کیاہے جو تناسب کے اعتبار سے بڑی سرمایہ کاری ہے۔ سوال اْٹھتا ہے کہ بھارتی وزیرِ اعظم کا یہ دورہ آنے والے لوک سبھا کے انتخابات کی مہم سے متعلق ہے جس سے وہ کشمیری عوام کی حمایت حاصل کرنے کی سعی کر رہے ہیںیا وہ مقبوضہ کشمیر میں اپنی نام نہاد کامیابیوں کا پرچار کرنا چاہ رہے ہیں تاکہ دْنیا کو باور کرایا جاسکے کہ کشمیر اب امن و آشتی کا گہوارہ بن چکا ہے اور وہاں کے عوام آسودہ زندگی گذار رہے ہیں۔
ہندوستان آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد خطے میں معمول کی صورتحال کو باقی ملک اور دْنیا کے سامنے پیش کرکے یہ تاثر دے رہا ہے کہ اگست 2019 میں ہندوستان کی جانب سے جو یک طرفہ طورپر بین الاقوامی قانون کی صریح خلاف ورزی کی گئی ہے وہ ہندوستان کا راست اقدام تھا اور اب وہاں حالات معمول کیمطابق ہیں۔ اِس سے پہلے بھی وزیرِ اعظم مودی کشمیر میں جی 20 کے اجلاس کی میزبانی کر کے ایسا تاثر دینے کی کوشش کر چکے ہیں۔ مودی حکومت کا یہ دعویٰ مضحکہ خیز ہے کہ کشمیر پر نئی دہلی کی براہ راست حکمرانی نیامن اور ترقی کے ایک نئے دور کو جنم دیا اور مقبوضہ وادی میں خوشحالی کی نئی راہیں روشن ہوئی ہیں۔در حقیقت اگست 2019 کے بعد ہندوستان نے شہری آزادی اور پریس کی آزادی کو بری طرح متاثر کیا اور پھر مختلف اوچھے ہتھکنڈوں سے خطے کی صورتحال کو معمول کی صورتحال کے طور پر پیش کرنے کی کوشش بھی کی جارہی ہے۔ایسی صورت حال کو کیسے معمول کی صورتحال کہا جا سکتا ہے جہاں بچوں، عورتوں اور بوڑھوں کو مسلسل بد ترین مظالم کا نشانہ بنایا جا رہا ہو۔ ایسے حالات میں سیاحت کو کیسے فروغ دیا جا سکتا ہے جہاں مقامی اآبادی کو خوف و ہراس کی صورت حال کا سامنا ہو اور لوگوں کے حقوق اور آزادیوںکو تواتر سے سلب کیا جارہاہو۔ مقبوضہ کشمیر میںاِس وقت جو کچھ بھی ہو رہا ہے وہ وزیرِ اعظم مودی کے معمول، امن یا خوشحالی کے دعووں کے یکسر برعکس ہے۔
وزیرِ اعظم مودی کا کشمیر کا دورہ صرف سیاسی مقاصد کے لیے تھا جس سے یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ کشمیر میں سب کچھ نارمل ہے، کشمیر میں ہندوستان کی پالیسی اچھی طرح سے کام کر رہی ہے اور کشمیر کے حالات قابو میں ہیں۔ جبکہ زمینی حقائق یہ ہیں کہ مقبوضہ کشمیر میںآئینی پوزیشن کو بدلنے کے یکطرفہ عمل کے ذریعے، بھارت نے شملہ معاہدے 1972 کی خلاف ورزی کی ہے۔اْسکے بعد انسانی حقو ق کے بین الاقوامی اداروں نے ہندوستان کی جانب سے کیے جانے والے مظالم کی توثیق کی ہے اور اپنی رپورٹس میں لکھا ہے کہ ہندوستان مقبوضہ کشمیر میں نوجوانوں کی بڑے پیمانے پر اِنسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور نسل کشی کا مرتکب ہو رہا ہے۔پہلی بار اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق نے گزشتہ دو سالوں میں کشمیر میں جاری اِنسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر رپورٹ جاری کی اور متعدد بین الاقوامی فورمز کو کشمیرمیں ہونے والی اِنسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے آگاہ کیا گیا ہے۔اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے بھی صورتِ حال پر مشاورت کی۔
ایسے حالات میں اِس وقت کچھ وثوق سے نہیں کہا جاسکتا کہ دونوں ملکوں کے مابین مفاہمت کی کیا صورتحال سامنے آتی ہے۔ دونوں حکومتیں مذاکرات کی میز پر بیٹھیں گی۔ اس کے لیے کچھ مزید مثبت سفارت کاری درکار ہوگی۔ یہ بھی اہم ہوگا کہ نئی دہلی میں قائم ہونے والی نئی حکومت کی ترجیحات کیا ہوں گی اور وہ پاکستان کے بارے میں کیا رویہ اپنائے گی۔ پاکستان کے نئے وزیر اعظم شہباز شریف کو وزیرِ اعظم مودی نے ایکس پوسٹ کے ذریعے مبارکباد دی جو ایک اچھا شگون ہے اور اِس سے کچھ برف پگھلنے کا اِمکان دکھائی دیتا ہے۔ پاک بھارت مذاکرات پر ماہرین کی مختلف آراء ہیں۔ پاکستان ہندوستان پر نظر رکھنے والے کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ 2024 ء کے آخر تک پاکستان اور ہندوستان میں دونوں حکومتوں کے فعال ہونے کے بعد کچھ برف مزید پگل سکتی ہے اور دونوں ملکوں کے درمیان مذاکرات کا آغاز ہو سکتا ہے۔ لیکن اکثریت کے خیال میں دونوں ملکوں کے درمیان سر د مہری جاری رہے گی۔ کیونکہ بی جے پی حکومت نے سالوں میں جو پاکستان مخالف بیانیہ عوامی سطح پر لوگوں کے ذہنوں میں پختہ کیا گیا اْس سے نہ تو فوری طور پر الگ ہوا جاسکتا ہے اور نہ ہی اْنکے لیے سیاسی طور پر اچھا آپشن ہے۔ اِسکے علاوہ خطے میں بین الاقوامی سیاسی صف بندی بھی غماز ہے کہ حالات جیسے ہیں ایسے ہی رہیں گے۔
ہندوستان اور پاکستان کے درمیان مفاہمت ایک پیچیدہ اور حساس مسئلہ ہے جس میں تاریخی، سیاسی اور تزویراتی عوامل شامل ہیں۔ اگرچہ مستقبل قریب میں مکمل مفاہمت کا حصول مشکل دِکھائی دیتا ہے، لیکن ایسے ممکنہ راستے ہیں جو دونوں ممالک کے درمیان بہتر تعلقات کی جانب جا سکتے ہیں۔ دونوں ممالک کی سیاسی قیادت فراست کا مظاہرہ کرتے ہوئے باہمی تعلقات کی سمت کا تعین کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔ ماضی میں امن مذاکرات جیسے مثبت اقدامات اْٹھائے گئے ہیں لیکن پیش رفت اکثر سست روی کا شکار رہی۔دونوں ممالک میں عوامی جذبات تاریخی بیانیے، قوم پرستی اور سلامتی کے خطرات کے تصورات سے متاثر ہیں۔ اِن تصورات کے اثرات کو زائل کرنا اور عوام میں بقائے باہمی کے بیانیے کو فروغ دینا مفاہمت کی کوششوں کے لیے بے حد اہم ہے۔بڑی طاقتیں، اقوام متحدہ اور دیگر ممالک، پاکستان اور ہندوستان کے درمیان بات چیت کو بامقصد اور بامعنی بنانے اور امن کو فروغ دینے میں کردار ادا کر سکتے ہیں۔غیر رسمی مکالمہ اور عوامی سطح کے رابطے دونوں ممالک کے درمیان افہام و تفہیم اور اعتماد پیدا کرنے میں مدد کر سکتے ہیں، جو سرکاری سفارتی کوششوں کی تکمیل کرتے ہیں۔ اقتصادی تعاون اور تجارتی تعلقات باہمی فائدے کا باعث ہو سکتے ہیں اور دونوں ممالک کو مفاہمت کی طرف کام کرنے کے لیے ترغیب پیدا کر سکتے ہیں۔دہشت گردی اور سرحدی سیکورٹی سے متعلق مسائل سمیت سیکورٹی خدشات کو دْور کرنا اعتماد سازی اور تنائو کو کم کرنے کے لیے ضروری ہے۔اگرچہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان مکمل مفاہمت کا حصول ایک چیلنج ہے لیکن بات چیت، اعتماد سازی کے اقدامات اور تنازعات کے حل کے لیے مسلسل کوششیں وقت کے ساتھ ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے میں مدد دے سکتی ہیں۔پاکستان اور ہندوستان کے تعلقات دونوں ممالک کی سیاسی قیادت کی فہم و فراست اور سیاسی بصیرت و دور اندیشی کا امتحان ہے۔ یہ بات بہرحال طے ہے کہ دونوں ملکوں کی آنے والی نسلیں بہتر مستقبل کی مستحق ہیں اور جنگ و جدل اور دِلوں میں پلنے والی مستقل نفرتیں بہتر مستقبل کا راستہ نہیں ہیں۔