• news

عارف مبین جٹ اور خرم دستگیر خاں 

2013ء میں عمران خان الیکشن دھاندلی کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے ن لیگی قلعہ گوجرانوالہ پہنچے۔ شہر کی مین سڑک جی ٹی روڈ پر ایک اکیلے پومی بٹ نے ان کا ’’سواگت‘‘ کیا۔ یہ سواگت کیسا رہا؟ اب اسے چھوڑیں بات پرانی ہو گئی۔ بہر حال اس وقت اس غیر سیاسی سواگت کے خلاف کوئی مقامی مزاحمت دیکھنے میں نہ آئی تھی۔ شہر بھر میں اس انتخابی احتجاج سے لاتعلقی کا عالم رہا۔ آج اگرعمران خان ادھر سے گزرتے ہیں تو کیا ایسا ویران منظر نامہ دیکھنے میں آسکتا ہے۔ نہیں۔ بالکل نہیں کیونکہ اب 2013ء نہیں 2024ء ہے۔ اور ن لیگی قلعہ فتح کیاجاچکا ہے۔ اس فاتح لشکر کا کمانڈر کون ہے؟ کوئی بھی تو نہیں۔ یہ فتح پر امن نہتے لشکریوں نے کسی کمانڈر کے بغیر ہی پالی۔ ایک کمانڈر تو کیا اس لشکر کے لشکریوں کے پاس ایک مشترکہ علَم بھی نہیں تھا۔ ہر دستے کا اپنا الگ الگ کماندار تھا اور اپنااپنا الگ الگ علَم۔ ایک انتخابی جنگ میں ایک انتخابی نشان ہی علَم ہوتا ہے۔ حالیہ الیکشن ہماری سیاسی تاریخ کا ایک عجب معرکہ تھا۔ 
غلام دستگیر خان گوجرانوالہ کی اہم ترین سیاسی اور سماجی شخصیت ہیں۔ کوئی اہم اجتماع، بارات، جنازہ ان کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔ ان کی سیاسی اہمیت، تذکرہ اور کامیابی ایوب خاں کے مادر ملت کے خلاف 1964ء کے صدارتی انتخاب سے شروع ہوتی ہے۔ مقامی میونسپل کارپوریشن اسی زمانہ سے انکے زیر تسلط ہے۔ وہ 1970ء میں بھٹوی سیلاب کے آگے نہ ٹھہر سکے۔ ڈوب گئے۔ لیکن تحریک نظام مصطفی میں پھر ابھر کر قومی اسمبلی پہنچ گئے۔ سیالکوٹی خواجہ محمد آصف کی طرح یہ بھی جنرل ضیاء الحق کی مارشل لاء میں اس کے ساتھی رہے۔ خواجہ محمد آصف قوم سے اپنے اس مارشل لائی جرم کی معافی مانگ چکے ہیں۔ غلام دستگیر خاں نے شاید اسے اپنا  جمہوری گناہ، گناہ ہی نہیں سمجھا۔ خیر لوگوں نے بھی غلام دستگیر خان کو 1985ء کے غیر جماعتی انتخاب میں سیاسی میدان میں ایک قطعی نووارد سے شکست دلوا کر اپنا حساب برابر کرلیا۔ اگلے الیکشن میں انہیں پیپلز پارٹی کے حاجی امان اللہ نے قومی اسمبلی نہ پہنچنے دیا۔ آخر کار یہ قومی اسمبلی جانے سے روکے نہ جا سکے۔ 
صدر پرویز مشرف نے ایسے تجربہ کار بزرگ سیاستدانوں سے نجات پانے کے لئے الیکشن میں بی اے کی ڈگری کی شرط ڈھونڈ لی۔ اس شرط کے باعث بہت سے بزرگ سیاستدانوں کو اپنے نوجوانوں کو اپنی جگہ دینا پڑی۔ 2002ء کے جنرل الیکشن میں غلام دستگیر خان کی بجائے انکے صاحبزادے خرم دستگیر خاں امیدوار بنائے گئے۔ ان کا مقابلہ ایک درویش عالم دین قاضی حمید اللہ سے آن پڑا۔ سیاست کے میدان میں ایسے بوریا نشین قسمت سے ملتے ہیں جن کے بوریے میں بوئے ریا نہ ہو۔ قاضی حمید اللہ یہ الیکشن جیت گئے۔ خرم دستگیر تیسرے نمبر پر رہے۔ دوسرے نمبر پر آنے والے پیپلز پارٹی کے خواجہ محمدصالح تھے۔ لیکن سیاست کے میدان میں محض پاکیزگی کافی نہیں ہوتی۔ اسکے کچھ اپنے آداب اور تقاضے ہیں۔ اگلے جنرل الیکشن میں خرم دستگیر خاں کامیاب ہو گئے اور قاضی صاحب بری طرح شکست سے دوچار ہوئے۔ 
کالم کے آغاز میں لکھ چکا ہوں کہ حالیہ الیکشن اک عجب ڈھب کا معرکہ تھا۔ اس کے نتائج نے پہلوانوں کے شہر کی فضا بدل کر رکھ دی ہے۔ شہر گوجرانوالہ قومی اسمبلی کے دو حلقوں پر مشتمل ہے۔ ایک حلقے سے ن لیگی شرافت، دیانت اور استقامت نے ایک پرانے منجھے ہوئے سیاسی کارکن سے تھوڑے سے مارجن سے بمشکل اپنی عزت بچائی۔ البتہ خرم دستگیر خاں دوسرے شہری حلقے سے بری طرح ہارے ہیں۔ کالم نگار خود اس حلقہ کا ووٹر ہے۔ مزے کی بات ہے کہ اسے ابھی تک خرم دستگیر خاں کے کامیاب حریف عارف مبین جٹ کو ایک نظر دیکھنے کا موقعہ بھی میسر نہیں آیا۔اس سے آپ ان کی انتخابی مہم کی سنجیدگی کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ وہ کون ہیں؟ وہ کیا ہیں؟کم ازکم کالم نگار بالکل نہیں جانتا۔ الیکشن کے زمانہ کو چھوڑیں۔ وہ غیر معمولی مشکل وقت کٹ گیا۔ انہیں اب تو حلقہ میں نظر آنا چاہئے۔کبھی ملاقات ہوئی تو پوچھوں گا۔ کیا آپ اخبارات پڑھتے ہیں؟ اس سوال کا پس منظر یوں ہے کہ پچھلے ہی دنوں انتخاب ہارنے کے بعد ان کے انتخابی حریف خرم دستگیر خاں کا ایک کالم ’’مارگلہ پر ہیلری کسنجر کی روح‘‘کے عنوان سے اخبارات میں شائع ہوا۔ یاد رہے کہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے مقابلہ میں پڑھے لکھے نوجوانوں کی اکثریت نے پی ٹی آئی کو ووٹ دیا ہے۔ ہیلری کسنجر کو امریکہ کا موثر ترین وزیر خارجہ سمجھا جاتا ہے۔ جن کی پالیسیوں کی باز گشت آج بھی دنیا بھر کے سیاسی ایوانوں میں گونجتی ہے۔
 انکی کتاب ’’ڈپلومیسی‘‘1994ء میں شائع ہوئی۔ اس میں مغربی طرز کی سیاست اور بین الاقوامی تعلقات کا احاطہ کیا گیا ہے۔ خرم دستگیر خاں نے اپنی سیاسی جماعت کی حکومت کو جس میں وہ خود شامل نہیں، اپنی اخباری تحریر کے ذریعے یوں سمجھانے کی کوشش کی ہے۔وہ لکھتے ہیں: ’’ہیلری کسنجر سے طاقت کیخلاف، طاقت کو متوازن کرنے، سفارتکاری کو بھرپورطریقے سے چلانے، روایتی تعصبات اور فرسودہ جذباتی نعروں کی بجائے قومی مفاد کی پیروی کرنے کا فن سیکھیں۔ عزم اور انتھک محنت کے ساتھ ہم پاکستان کی خارجہ پالیسی کو دنیا میں امن کا مینار اور پاکستانی عوام کیلئے خوشحالی کا پیامبر بنا سکتے ہیں۔ تھامس پین ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ دنیا میں دوبارہ سفر کا آغاز کرنا ہمارے بس میں ہے‘‘۔ خرم دستگیر خاں سے ان کی جماعت ان سے قومی مفاد کی پیروی کرنے کا فن سیکھتی ہے یا نہیں۔ اس تحریر سے کم از کم وہ انتخابی شکست کے بعدبھی اپنے انتخابی حلقہ اورملکی سیاست میں دکھائی دے رہے ہیں۔ جبکہ عارف مبین جٹ اپنی انتخابی کامیابی کے بعد بھی اپنے حلقہ اور ملکی سیاست میں محسوس نہیں کئے جا رہے۔ 
پس نوشت:گوجرانوالہ کے نوجوان ایڈووکیٹ خاں عبداللہ لودھی کی تجویز ہے کہ ن لیگی شہر گوجرانوالہ میں خرم دستگیر خاں کی شکست کے بعد غلام دستگیر خاں روڈ کا نام مادرِ ملت روڈ رکھ دیا جائے۔ اس تجویز کا پس منظر یہ ہے کہ غلام دستگیر خاں کی فعال سیاست کا آغاز صدر ایوب اور مادر ملت کے درمیان صدارتی انتخابی معرکہ سے ہی ہوا تھا۔ جس میں غلام دستگیر خاں صدر ایوب کے حامی تھے۔ ایک سوال ہے کہ کیا اس نام کی تبدیلی کا زیادہ برا ن لیگی رہنما خرم دستگیر خاں منائیں گے یا صدر ایوب خاں کے پوتے پی ٹی آئی رہنما عمر ایوب خاں؟

ای پیپر-دی نیشن