• news

جب دنیا کی چھت محاذ ِ جنگ بنی

1984ء میںبھارت نے اچانک سیاچن کی برفانی چوٹیوں پر قبضہ کرنا شروع کردیا۔ جب پاکستان کو پتہ چلا تو بھارت تقریباً تمام اہم چوٹیوں پر قابض ہو چکاتھا۔ اُس کی مزید پیش قدمی روکنے کے لئے فوری طور پر کچھ یونٹوں کو اوپرسیاچن بھیجنا پڑاجسے دنیا کی چھت بھی کہا جاتا ہے ۔جس کے لئے جوان تربیت یافتہ نہ تھے اور انہیں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔برفانی علاقے میں جنگ کے لئے فوج کو خصوصی لباس اور خصوصی تربیت کی ضرورت ہوتی ہے۔ عام سولجر کے لئے اتنی بلندی پرلڑنا ممکن نہیں ہوتا لہٰذا اس وقت جوفو جی دستے وہاں بھیجے گئے تھے وہ بہت زیادہ مشکلات کا شکار ہوئے جو انسانی برداشت سے باہرتھیں جس کا نتیجہ انسانی ضیاع کی صورت میں ہمیں برداشت کر نا پڑا۔ اس وقت جو پہلا مسئلہ پیش آیا وہ تھا کہ اس علاقے کے تفصیلی فوجی نقشے موجود نہ تھے۔ایسے نقشے جن پر تمام چوٹیاں، اہم راستے، راستے میں حائل ندی نالے، گہرے کھڈے یا منہ پھاڑے ہوئی غاریں اور پہاڑوں پر  چڑ ھائی کی شرح وغیرہ کسی قسم کی تفصیل نہ تھی اور فوج کے لئے ان امدادی نقشوں کے بغیر آگے بڑھنا بہت مشکل اور پر خطر تھا۔
دوسری مشکل جو پیش آئی وہ راستوں کی عدم موجودگی تھی۔ کسی کو معلوم نہیں تھا کہ اس کی منزل کونسی ہے اور اس تک کیسے پہنچنا ہے۔ وہاں بلندی پر سڑکیں تو تھیں نہیں کہ گاڑیوں کے ذریعے چلے جاتے۔ نہ ہی برف کے اس وسیع میدان میں راستوں کی کسی قسم کی نشاند ہی تھی۔ تمام راستہ پیدل ہی چلنا پڑتا تھا۔ راستے میں کوئی آبادی بھی نہ تھی اور نہ ہی کوئی سپلائی لائن تھی۔ جوانوں کو اپنے ذاتی سامان کے علاوہ اپنے ہتھیار بھی اٹھا کرلے جانے تھے اور بلندی پر جیسے جیسے آگے بڑھیں آکسیجن کم ہوتی جاتی ہے جہاں چند قدم سے زیادہ چلنا ممکن نہیں رہتا۔ لہٰذا جوان تھکاوٹ اور سانس کی بیماریوں میں مبتلا ہو گئے جو نہ تو پیدل واپس آنے کے قابل تھے اور نہ ہی انہیں واپس لانے کا کوئی اور معقول ذریعہ تھا۔ اس بلندی پر میڈیکل کی سہولت بھی قابل اعتماد اور مناسب نہ تھی اور مزید بد قسمتی کہ اوپر جانے والے نوجوان ڈاکٹر زبرف سے پیدا ہونیوالی بیماریوں اور انکے علاج میں بھی مکمل طور پر ماہر نہ تھے بلکہ وہ خود بھی بہت سی بیماریوں کا شکار ہو گئے۔
آکسیجن کی کمی کی وجہ سے اچانک ناک اور کانوں سے خون بہنا شروع ہو جاتا ۔سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ماؤف ہو جاتی۔ پھر برفانی جوتوں کے بغیر عام فو جی بوٹوں میں برف پر چڑ ھنا بھی بہت خطر ناک تھا۔ اکثر جوان پھسل کر گہرے کھڈوں میں جا گرتے جہاں سے دوبارہ کبھی نہ اٹھ سکتے۔ گہری غاریں اور گھاٹیاں تمام راستے موجود تھیں جن کے اوپر وقتی طور پر برف کی تہہ جمی ہوتی۔جو نہی ایسی جگہ پر قدم پڑتا جو ان سینکڑوں فٹ گہری اورعمودی غاروں میں جا گرتے اور نیچے گرتے ہی اللہ تعالی کو پیارے ہو جاتے۔ جونہی دھوپ کی چمک آنکھوں پر پڑتی تو جوان بینائی سے محروم ہو جاتے۔ برف کے لئے خصوصی عینکیں ہوتی ہیں وہ بھی ان کے پاس نہ تھیں۔ اوپر بھیجے جانے والے زیادہ تر جوانوں کا تعلق میدانی علاقوں سے تھا ۔انہیں برف سے حفاظتی تدابیر کا بھی علم نہ تھا ۔جسم کا جو حصہ خالی ہو تا برفانی بیماریوں سے نا کارہ ہو جاتا۔
دشمن سے لڑنا ایک بات ہے لیکن یہاں تو ہر قدم پر موت منہ پھاڑے کھڑی تھی اور اس کا جو اثر جوانوں پر ہوا اس کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ پھر بات یہاں پر ہی ختم نہیں ہوتی۔ بلندی پر پہنچ کر برف میں رہائش کے لئے خصوصی برفانی ٹینٹ ’’ایگلوز‘‘ نہ تھے اور نہ ہی پورے بر فانی بسترجنہیں ''Sleeping bags'' کہا جاتا ہے۔ اوپر آگ کے لئے لکڑی بھی نہ تھی۔برفانی لباس بھی میسر نہ تھا۔ پینے کے لئے پانی کی بجائے برف کے گولے منہ میں رکھنے پڑتے یا برف کیتلی میں اُبال کر پانی بنایا جاتا۔ چائے کا کپ ایک گھنٹے میں تیار ہوتا اور دال پکنے میں ڈیڑھ سے دو گھنٹے لیتی تازہ سبزیاں یا فروٹ وغیرہ کا تو تصور ہی ممکن نہ تھا۔ سردی کا یہ عالم تھا کہ منہ سے جو سانس نکلتا برف کی ٹکڑیاں بن جاتا۔ ان حالات میں اند ازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہاں کیسے کوئی انسان زندہ رہ سکتا ہے۔ وہاں پربیٹھنے والے فوجی کو سوائے اللہ میاں کی ذات کے اور کسی طرف سے امداد کی توقع نہیں ہوتی۔ وہاں اپنے پرائے سب بھول جاتے ہیں۔ دن کا احساس رہتا ہے نہ رات کا۔ بعض اوقات تو وجودیت کا احساس بھی ختم ہو جاتا ہے۔ یقین نہیں رہتا کہ زندہ واپس پہنچیں گے بھی یا نہیں؟ ہر وقت خدا یاد آتا ہے اور ہر طرف بھی خداہی نظر آتا ہے۔ جتنا زیادہ خدا کی ذات پر ایمان اور عقیدہ یہاں پختہ ہوتا ہے اتنادنیا کے کسی اور مقام پر نہیں ۔سخت سے سخت گنہگار انسان بھی یہاں پہنچ کر خدا کی ذات کو یاد کئے بغیر نہیں رہ سکتا بلکہ یہ کہنا بجا ہوگا کہ خدا کی یاد ہی یہاں زندہ ر ہنے کا واحد ذریعہ بنتی ہے۔ 
 گو اب حالات بہت بہتر ہوگئے ہیں۔برفانی لباس اور ایگلوز مل گئے ہیں۔ کسی حد تک برفانی تربیت بھی ہو چکی ہے۔ راستوں کی نشاندہی بھی کی جاچکی ہے لیکن اب بھی ان بلند چوٹیوں پر جانا اور وہاں رہنا ’’اللہ میاں‘‘ کے پاس جانے کے مترادف ہے ۔ایک غیر مصدقہ سروے کے مطابق سیاچن پر پاکستان کا ایک برگیڈ اور بھارت کا تقریباًایک ڈویژن حالت جنگ میں ہیں۔ دونوں طرف موسم سب سے بڑا مشترکہ دشمن ہے۔وہاں زیادہ تر اموات شدید موسم کی وجہ سے ہیں۔ہماری طرف سب سے بلند اور آگے والی پوسٹ سے نزدیک ترین سڑک بیس کلومیٹر کے فاصلے پر ہے اور بھارت کی طرف سے80 کلومیٹر کے فاصلے پر ۔پاکستان کو اپنے ٹروپس پر ہر ماہ ایک خطیر رقم خرچ کرنی پڑتی ہے۔بھارت کا خرچ ہم سے دس گنا زیادہ ہے۔ جنگی خرچ کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اگر تمام خرچہ شامل کیا جائے تو سری نگر میں 5/- روپے میں ملنے والی روٹی سب سے آگے والی پوسٹ پر 80/- روپے میں جاپڑتی ہے اور ہماری طرف یہ روٹی 50روپے میں۔
یادر ہے کہ 1942 ء میں مہاراجہ گلاب سنگھ کی تقریباًدس ہزار فوج جنرل زور آور سنگھ کی زیر کمان تبت کے برفانی میدان میں پھنس کرختم ہوگئی تھی۔ ایک شخص بھی زندہ نہ بچا۔ یہی کچھ دوسری جنگ عظیم میں ہوا ۔اس وقت کی عظیم طاقت اور دنیا کی بہترین فوج’’ جر من آرمی ‘‘سٹالن گرا ڈ برفانی میدان میں پھنس کر تباہ ہوگئی اور اس جنگ نے ہٹلرکی قسمت کا فیصلہ کر دیا۔ پاکستان اور بھارت تو ویسے ہی غریب ممالک کی صف میں شمار ہوتے ہیں جو اتنے زیادہ جنگی مصارف اور انسانی جانوں کے ضیاع کے متحمل ہی نہیں ہو سکتے۔
ان نقصانات اور بے پناہ جنگی مصارف کے باوجود بھارت کسی تصفیے کے لئے تیار نہیں اور پاکستان کو مجبوراً اچھی فوج وہاں رکھنی پڑ رہی ہے۔اگر آج دونوں ممالک کسی شریفانہ تصفیے پر راضی ہو جاتے ہیں تو صرف اتنے بڑے جنگی مصارف سے بچ سکتے ہیں بلکہ یہ ر قوم عوام کی بہتری پراستعمال ہوسکتی ہیں اور فوج بھی بے مقصد انسانی ضیاع اور نا قابل برداشت مشکل حالات سے بچ جائیگی۔ خدا کرے کہ انسانیت جنگی جنون پرغالب آجائے۔ ہمیں یہ امر کبھی نہیں بھولنا چاہئے کہ فوجی ایک بیٹا ہے، بھائی ہے، شوہر ہے اور باپ بھی ہے اور سب سے بڑھ کر ایک انسان بھی ہے جو مشکلات کا ادراک رکھتا ہے۔ اسے سردی بھی لگتی ہے اور گرمی بھی۔ اس پر معاشرتی اور رشتہ داری کی ذمہ داریاں بھی ہیں۔ اسے نیند بھی آتی ہے۔ تھکاوٹ بھی ہوتی ہے۔ وہ بیمار بھی ہوتا ہے۔ز خمی بھی اور معذور بھی لیکن وہ کسی سے کچھ نہیں کہہ سکتا۔ ملک میں سیلاب آئیں، کوئی وبا پھیلے، لینڈ سلائیڈ ہو، امن و امان کا مسئلہ ہو، دہشت گردی ہو بلکہ وطن عزیز پر خدانخواستہ کوئی بھی آفت آئے بے دھڑک فوج کو بھیج دیا جاتا ہے۔ اس کے لئے دن ہے نہ رات، سردی نہ گرمی، دھوپ نہ چھاؤں۔جہنم جیسا تپتا ریگستان ہو یا بحر منجمد جیسا برفانی صحرا۔ فوجی کو بلا چوں چراں وہاں جانا پڑتا ہے کیونکہ وہ صرف فوجی ہے اور کچھ نہیں۔ یہی اس کے فرض کا تقاضا ہے اور فوجی سے یہاں میری مرادجرنیل نہیں۔

سکندر خان بلوچ

سکندر خان بلوچ

ای پیپر-دی نیشن