آئی ایم ایف کو مہنگائی کی یقین دہانیاں
پاکستان نے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے کہا ہے کہ بجلی کے نرخوں میں سہ ماہی ایڈجسٹمنٹ ہو یا سالانہ بیس ٹیرف پر نظر ثانی کو صارف کی جانب منتقل کیا جائے گا۔ اس کے نتیجہ میں بجلی کی قیمت میں اضافہ کا تعین ہوا تو کیا جائے گا۔ گیس شعبے کے گردشی قرضے میں کمی اورگیس کی قیمتوں کی ایڈجسٹمنٹ بروقت کرنے کی یقین دہانی بھی کرائی گئی ہے۔ آج کل آئی ایم ایف کا وفد پاکستان کے دورے پر ہے۔ اس کے ساتھ حکومت کی بات چیت کا سلسلہ جاری ہے جو آج پیر کو اختتام پذیر ہوگا۔ انتخابات کے بعد معرض وجود میں آنے والی حکومت ابھی ہینڈنگ ٹیکنگ اوورہی کر رہی تھی کہ آئی ایم ایف کا وفد اپنی شرائط سمیت آدھمکا۔ نئے وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب اپنے محکمے سے ابھی بریفنگ بھی نہیں لے پائے تھے کہ ان کو آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکراتی ٹیم کی سربراہی کرنا پڑگئی۔ بجٹ میں عوام کو ریلیف ملنے کی توقع ہوتی ہے لیکن جس طرح آئی ایم ایف کو یقین دہانیاں کرائی گئی ہیں حکومت عوام کی توقعات پر کتناپورا اتر سکتی ہے۔ ایک عرصہ سے عوام مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں اگر اب بھی بجٹ میں ان کو ریلیف نہ ملا تو شدید رد عمل سامنے آ سکتا ہے۔ آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل کرنے کے باوجود بھی حکومت عوام کے لیے بہت کچھ کر سکتی ہے۔ حکومتی اخراجات میں کٹ کے حوالے سے وزیراعظم محمد شہباز شریف کی طرف سے ایک نئی کمیٹی بنائی گئی ہے۔ ایک کمیٹی وزیراعظم کی طرف سے ناصر محمود کھوسہ کی سربراہی میں بنائی گئی تھی، اس کمیٹی کی سفارشات پر عمل ہو جائے تو عوام کو ریلیف مل سکتا ہے۔اس کمیٹی کی سفارشات میں بتایا گیا تھا کہ کس طرح ایک ہزار ارب روپے سالانہ بچت کی جا سکتی ہے۔ پچھلے برس اقوام متحدہ کے یو این ڈی پی کے وفد نے پاکستان کا دورہ کیا جس کے بعد اپنی رپورٹ میں لکھا کہ پاکستان میں سالانہ سترہ اعشاریہ چار ارب ڈالر اشرافیہ کی مراعات میں خرچ کیے جاتے ہیں جس میں ٹیکس چھوٹ، صنعتوں میں بجلی گیس پر سبسڈی، مفت پٹرول اور پلاٹ شامل ہیں۔ حکومت ان سب معاملات کو سامنے رکھتے ہوئے اگر چاہے تو بجٹ میں عوام کو خاطرخواہ ریلیف مل سکتا ہے۔ خود انحصاری کی طرف آنے کی بھی ضرورت ہے۔ قرضوں سے ملک ترقی کر سکتا ہے نہ خوشحالی آ سکتی ہے۔ بہتر ہے کسی بھی طرح آئی ایم ایف سے جان چھڑانے کی کوشش کی جائے۔