پاکستان کے قابل فخر ادارے
ہم پاکستانی مجموعی طور پر احساس محرومی کا شکار ہیں۔ ہمیں نہ جانے کیوں یہ خوف مارے جا رہا ہے کہ ہم عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ ہم اپنی اچھی بھلی چیز کو بھی کم تر تصور کرتے ہیں۔ اس کی ایک بنیادی وجہ تو یہ ہے کہ ہمارے ہاں تسلسل نہیں ہے۔ اوپر سے ہر چوتھے دن سسٹم تبدیل ہو جاتا ہے اور ہر حکمران پاکستان کو اپنی من مرضی سے چلانے کی کوشش کرتا ہے۔ ہر چوتھے دن ہمارے اصول ضابطے تبدیل ہوئے ہوتے ہیں۔ عدم استحکام نے ہمیں ذہنی طور پر کھوکھلا کر کے رکھ دیا ہے حالانکہ دیکھا جائے تو پاکستان ڈونیشن دینے والی قوموں میں ٹاپ ٹین میں شامل ہے۔ رمضان المبارک میں زکوٰۃ، صدقات اور عطیات دینے کے حوالے سے خصوصی اہمیت رکھتا ہے۔ انسانی فلاح کے لیے کام کرنے والے ادارے اس ایک ماہ میں اتنی ڈونیشن اکٹھی کر لیتے ہیں کہ پورا سال اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے کافی ہوتی ہیں۔ میرے نزدیک الخدمت فاونڈیشن اس حوالے سے آئیڈیل ادارہ ہے جس کے زیر اہتمام ملک بھر میں مختلف شعبہ جات میں خدمت خلق کے متعدد منصوبے کام کر رہے ہیں لیکن غزالی ایجوکیشن کا منصوبہ بہت ہی قابل قدر ہے۔ پاکستان بھر کے دیہات میں اس وقت غزالی ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے 800 سے زائد سکول قائم ہیں جہاں کم وسیلہ خاندانوں کے تقریباً سوا لاکھ سے زائد بچے زیر تعلیم ہیں۔ نصف فیصد تعداد یعنی تقریباً 48 ہزار کے قریب بچے ایسے ہیں جو یتیم اور مستحق ہیں۔ ان بچوں کی مکمل تعلیمی کفالت بھی غزالی ایجوکیشن فاؤنڈیشن کر رہی ہے۔ تعلیمی کفالت کی مد میں یونیفارم ، کورس، اسٹیشنری وغیرہ ادارے کی جانب سے ہی مہیا کی جاتی ہے۔ دیہات کے نظر انداز سپیشل بچوں کیلئے بھی ایک انکلوسو ایجوکیشن ماڈل غزالی فاؤنڈیشن کی کاوشوں میں شامل ہے۔ بے شمار خصوصی بچے تعلیم و بحالی کے مراحل سے گزر کر اب نارمل بچوں کے ساتھ بیٹھ کر تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ یہ سپیشل بچے بھی بالکل مفت تعلیم حاصل کر رہے ہیں جبکہ ان کی کفالت کے ساتھ ساتھ والدین کی راہنمائی اور کونسلنگ بھی ادارے کی جانب سے اضافی سہولت کے طور پر کی جا رہی ہے۔ جنوبی پنجاب کے نظر انداز ہندو بچوں کیلیے بھی الگ سکول قائم ہیں جہاں سینکڑوں ہندو بچے تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ غزالی ایجوکیشن فاؤنڈیشن ہر اس پسماندہ علاقے پر فوکس رکھے ہوئے ہیں جہاں دیگر سکولوں کی تعداد نہ ہونے کی وجہ سے آؤٹ آف سکول بچے پڑھ رہے ہیں۔ اسی طرح ایجوکیشن سیکٹر میں اخوت یونیورسٹی کا پراجیکٹ بھی ایک رول ماڈل ہے ڈاکٹر امجد ثاقب ویڑنری شخصیت ہیں۔ انھوں نے غریبوں کو پاؤں پر کھڑا کرنے کے لیے بلاسود قرض دینے کا جو منصوبہ وضع کر رکھا ہے، اسے بین الاقوامی سطح پر قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ اسی طرح پنجاب کی جیلوں میں قید بچوں کی تعلیم وتربیت اور جیلوں میں بند خواتین کی بہبود کے لیے کام کرنے والی تنظیم رہائی کا کام بھی سنہرے حروف میں لکھے جانے کے قابل ہے۔ فرح ہاشمی اور عدیل نیاز شیخ کی سربراہی میں رہائی تنظیم اب تک جیل میں بند سیکڑوں بچوں کو تعلیم یافتہ بنا کر ان کی زندگیاں محفوظ کر چکی ہے۔ نہ صرف ان بچوں کو جرائم کی دنیا سے نکال کر معاشرے کا فعال رکن بنانے بلکہ انھیں ہنر سیکھا کر روزگار کے قابل بھی بنانے میں مددگار ثابت ہو رہی ہے۔ جیلوں میں بند قیدی خواتین کو بھی مختلف ہنر سکھا کر انھیں باعزت زندگی گزارنے کے قابل بنا چکی ہے۔ رہائی تنظیم کم تر وسائل اور بیشمار پابندیوں کے باوجود بہت اعلی کام کر رہی ہے۔ تعلیم کے حوالے سے پیر ضیاالحق نقشبندی کی زیر سرپرستی الاامین اکیڈمی بھی یونیک کام کر رہی ہے۔ مستحق اور ذہین بچوں کو سی ایس ایس اور پی سی ایس کے امتحانات کی تیاری کروائی جاتی ہے۔ ان بچوں کی کوچنگ رہائش خوراک اور تربیت کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ اب تک درجنوں بچے افسر بن کر ملک وقوم کی خدمت کر رہے ہیں، سندس فاونڈیشن تھیلیسیمیا کے بچوں کے علاج کے لیے گرانقدر خدمات سرانجام دے رہی ہے۔ یاسین خان نیاپنی زندگی تھیلیسیمیا کے بچوں کے لیے وقف کر رکھی ہے۔رحمن فاونڈیشن گردوں کے مریضوں کے علاج کے لیے ملک بھر میں خدمات سرانجام دے رہی ہے۔ چند روز قبل مجھے ماڈل ٹاؤن لاہور میں الواسع ویلفیئر سوسائٹی کے پراجیکٹ کے وزٹ کاموقع ملا۔ میں حیران رہ گیا کہ وہ ماڈل ٹاؤن اور کیولری گراونڈ جیسے علاقوں میں گھر لے کر یتیم بچوں کی پرورش کر رہے ہیں اور انھیں شہر کے ٹاپ کلاس سکولوں میں بھاری فیسیں ادا کر کے تعلیم دلوا رہے ہیں۔ اسی قسم کا ایک منصوبہ المرا فاونڈیشن کے زیر اہتمام ہمارے دوست ڈی آئی جی محبوب اسلم اور ان کی اہلیہ صوفیہ وڑائچ چلا رہی ہیں۔ امجد وٹو لاہور میں ہسپتال، سکول، دستکاری سکول، دستر خوان چلا رہے ہیں اور بے روزگار نوجوانوں کو آئی ٹی کورسز کروا کر پاؤں پر کھڑا کر رہے ہیں گھرکی ہسپتال دکھی انسانیت کی خدمت میں پیش پیش ہے۔ اسی طرح بے شمار مخیر حضرات ہیں جنھوں نے اپنی کمائی کا ایک حصہ ڈونیشن کے لیے وقف کر رکھا ہے۔ ان میں میاں سعید ڈیرے والا قابل قدر ہیں جو درجنوں اداروں کو سپورٹ کر رہے ہیں۔ ایسے تمام لوگ اور ادارے پاکستان کا فخر ہیں۔ ہمیں ان پر مان کرنا چاہیے۔ پاکستان میں ہزاروں کی تعداد میں ایسے لوگ ہیں جو سکول دستر خوان ہسپتال، ڈسپنسریاں اور دیگرخدمت خلق کے منصوبے چلا رہے ہیں۔ ہمیں پاکستان کے اس چہرے کو بھی نمایاں کرنا چاہیے اور میری مخیر حضرات سے درخواست ہو گی کہ وہ ایجوکیشن سیکٹر میں کام کرنے والے اداروں کو زیادہ سے زیادہ ڈونیشن دیں تاکہ قوم کے بیسہارا بچوں کو تعلیم یافتہ بنایا جا سکے۔