• news

منگل‘  8  رمضان المبارک  1445ھ ‘  19  مارچ  2024ء

سینیٹ الیکشن میں پی پی پی، مسلم لیگ نون اور پی ٹی آئی کے متعدد رہنما ٹکٹوں سے محروم۔
اب اس محرومی کی وجہ کیا ہے یہ تو پارٹی رہنما ہی جانتے ہوں گے مگر جس طرح یہ متحرک رہنما اپنے رہنمائوں کی نظر کرم سے محروم رہے ہیں اس سے پتہ چلتا ہے سیاست میں وفاداری بشرط استواری کا چلن اب کافی نہیں سمجھا جاتا۔ اب وفاداری سے زیادہ مالی استطاعت اور دیگر معاملات کو اہمیت دی جا رہی ہے۔ ویسے بھی مخلص و دیرینہ کارکن بھلا ان تمام شرائط پر کہاں پورے اترتے ہیں۔ فراز نے کیا خوب کہا تھا۔ 
فراز تو نے اسے مشکلوں میں ڈال دیا 
زمانہ صاحب زر اور صرف شاعر تْو
تو جناب اب سینیٹ الیکشن لڑنے کے لیے ہر پارٹی صرف ان پروانوں کا انتخاب کرتی ہیں جو سنہری پروں والے ہوتے ہیں۔ دیوانے ، متوالے اور جیالے اب کسی کھاتے میں شمار نہیں ہوتے وہ بس تقریبات اور جلسوں کی رونق بڑھانے اور ان میں شرکت کے لیے افرادی قوت مہیا کرنے کے کام آتے ہیں۔ ان کی خدمات کی صرف ستائش کی جاتی ہے اور اسے ہی بڑا اعزاز قرار دیا جاتا ہے۔ اب رضا ربانی ، مشاہد حسین، مولا بخش چانڈیو، آصف کرمانی، رخسانہ زبیری، حافظ عبدالکریم، شہزاد وسیم اور ولیداقبال جیسے تجربہ کار اور سینئر لیڈرز کو ٹکٹ دینے کی بجائے نوآموز افراد کو یہ شرف بخشا گیا ہے کہ وہ سینیٹ کو رونق بخشیں۔ چلیں دیکھتے ہیں۔ ہو سکتا ہے اس طرح سینیٹ کا ماحول بھی بدل جائے۔ نئے لوگ وہاں نیا رنگ جمائیں اور پرانے خیالات کے حامل ماحول سے چھٹکارا مل جائے۔ ویسے بھی اب نیا دور ہے۔ ہر جگہ نیا ماحول بن رہا ہے تو سینیٹ میں بھی ایسا ہی ہونے لگا ہے۔ ایسے میں ہم پرانے تجربہ کار پارٹی رہنمائوں اور سینیٹروں سے صرف اظہار افسوس ہی کر سکتے ہیں۔ وہ خود بھی شاید اس رنگ محفل کو دیکھ کر سوچ رہے ہوں گے کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔ مگر یاد رکھیں نئے پتے نکلنے سے پہلے پرانے پتوں کو گرنا ہی ہوتا ہے۔ 
٭٭٭٭٭
سندھ میں پہلی چڑیا شماری کا آغاز اور لوگوں میں جوش و خروش۔ 
ویسے تو چڑیا ایک کارآمد ماحول دوست پرندہ ہے۔ یہ ننھی منی چڑیاں جب چہچہاتی ہیں تو گھروں ، پارکوں، سڑکوں ، کنارے لگے درختوں پر ایک وجدکا عالم طاری ہو جاتا ہے۔ کھیتوں کھلیانوں میں یہ کیڑے مکوڑوں اور فصلوں کے دشمن دیگر حشرات الارض کو بھی ختم کرنے میں معاون ثابت ہوتی ہیں۔ اب انسانی قبضے کی حرص نے ان کے رین بسیروں کی جگہوں کو ختم کرنا شروع کر دیا ہے۔ درختوں کے سبزے کی جگہ عمارتوں نے لے لی ہے۔ اس پر سندھ میں ماحولیات کے خیر خواہ اب ان کی مردم شماری کر رہے ہیں جسے ہم چڑیا شماری بھی کہہ سکتے تھے۔ خدا کرے اس میں کوئی ڈنڈی نہ مارے ورنہ مردم شماری کی طرح چڑیا شماری پر بھی طرح طرح کے اعتراضات اٹھا کر اسے کہیں متنازعہ نہ بنا دیا جائے۔ اب کے ضد اس پر ہو کہ اندرون سندھ زیادہ چڑیاں ہیں یا کراچی اور حیدر آبادمیں۔ حالانکہ یہ معصوم چڑیاں ہر طرح کے لسانی، صوبائی اور نسلی تعصب سے پاک ہوتی ہیں۔ ان میں کوئی شہری اور دیہی کی تفریق بھی نہیں ہوتی۔ یہ کسی کی جگہ پر قبضہ بھی نہیں کرتیں۔ نہ کسی کا حق اور رزق چھینتی ہیں۔ صبح ہوتے ہی حمد و ثنا بجا لاتی ہیں دن بھر اپنا رزق ڈھونڈتی ہیں شام کو رب کا شکر ادا کرتے ہوئے جہاں جگہ ملی شب بسری کرتی ہیں۔ کاش انسان بھی ان معصوم پرندوں سے ہی کچھ سبق حاصل کریں اور حرص و قبضے کے کلچر سے نکل کر صبر و شکر اور اطمینان سے زندگی بسر کرنے کو ترجیح دیں تو بہت سے مسائل خودبخود حل ہو سکتے ہیں۔ اب دیکھنا ہے کہ اس چڑیا شماری کے بعد کیا پتہ چلتا ہے کہ سندھ میں کتنی چڑیاں ہیں۔ کیا معلوم یہ بھی پتہ چلے کہ کتنی چڑیاں ہیں اور کتنے چڑے ہیں۔ اس کے بعد شاید دیگر صوبوں میں ایسی ہی تحریک چل پڑے اور چڑیوں  کے بعد کوے اور چیلوں کی بھی گنتی شروع ہو۔ 
٭٭٭٭٭
تیل کمپنیاں اسرائیل کو فراہمی بند کر دیں: اقوام متحدہ۔
یہ ایک اچھی بات ہے، اگر اس پر عمل بھی ہو جائے تو۔ترجمان اقوام متحدہ نے یہ بھی کہا ہے کہ جو کمپنیاں ایسا نہ کریں ان پر پابندیاں عائد کر دی جائیں۔ یہ تو سونے پر سہاگہ والی بات ہو گی۔ اقوام متحدہ کب سے اسرائیل کو غزہ جنگ بند کرنے اور وہاں انسانیت سوز مظالم روکنے کا کہتا آ رہا ہے۔ مگر اسرائیل کی ہٹ دھرمی جاری ہے وہ رمضان المبارک کا بھی احترام نہیں کر رہا اور اربوں مسلمانوں کے ہوتے ہوئے غزہ میں فلسطینی مسلمانوں کا قتل عام جاری رکھے ہوئے یہ شہید ہونے والے، زخمی ہونے والے اور محصور فلسطینی مسلمان ہیں اور اسی حالت میں روزے بھی رکھ رہے ہیں کہ وہاں نہ پینے کا پانی دستیاب ہے نہ کھانے کے لیے روٹی۔ کچھ ادارے وہاں کھانا پکا کر تقسیم کر رہے ہیں مگر یہ اونٹ کے منہ میں زیرہ کے مترادف ہے۔ کئی اسلامی ممالک کی سرحدیں اسرائیل سے لگتی ہیں ان میں وہ ممالک بھی شامل ہیں جن کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی اور تجارتی تعلقات قائم ہیں اگر اب اسرائیل کو تیل کی فراہمی روک دی جائے تو وہ خودبخود فلسطینیوں کی امدادی قافلوں کو غزہ جانے کی اجازت دینے پر مجبور ہو گا۔ اس وقت ہزاروں بچیاور بوڑھے بھوک سے دم توڑ چکے ہیں۔ زخمی اور مریض دم توڑ رہے ہیں مگر عالمی برادری اسرائیل کے خلاف سخت پابندیاں لگانے سے قاصر ہے۔ اب دنیا والے اگر پٹرول اور امریکہ والے اسلحہ کی فراہمی روک دیں تو شاید صورتحال میں بہتری آئے مگر اس کے لیے اب اسلامی ممالک کو بھی آگے بڑھ کر کچھ سخت رویہ اپنانا ہو گا۔ ورنہ اسرائیلی درندہ کسی کو خاطر میں نہیں لائے گا نہ اس کا سرپرست کسی کی فریاد پر کان دھرے گا۔ اس لیے ان دونوں کے کان کھینچنے کی ضرورت ہے تاکہ انہیں بھی احساس ہو کہ یہ غلط ہو رہا ہے۔ 
٭٭٭٭٭
وزیر اعلیٰ پنجاب کوٹ لکھپت جیل میں اسیری کے ایام یاد کر کے افسردہ ہو گئیں۔
اس دور ے میں انہوں نے اپنے قید کے ایام کے دوران جیل میں ڈیوٹی دینے والے اس وقت کیعملے سے بھی ملاقات کی اور اپنے والد کے جیل والے کمرے میں بھی گئیں جہاں انہیں رکھا گیا تھا۔ اس موقع پران کی آنکھیں بھر آئیں انہیں اپنی اور اپنے والد کی تکالیف یاد آئیں۔ انہوں نے جس طرح قیدیوں کے لیے اچھی افطاری کا بندوبست کرایا اس سے قیدی مرد و خواتین کو تو خوشی ہوئی ہو گی مگر جب انہوں نے رہا ہونے والے
قیدیوں میں کپڑے اور نقدی تقسیم کئے تو ان کی خوشی دوچند ہو گئی۔ اگر ہمارے سیاستدانوں کو اپنے دور اسیری کی تکالیف یاد رہیں تو وہ ضرور جیلوں میں بند قیدیوں کو کچھ نہ کچھ ریلیف دینے کے لیے اقدامات ضرور کریں۔ کیا معلوم پھر کب کیسے انہی حالات سے دوبارہ گزرنا پڑے۔ اس لیے جیل کی حالت بہتر بنانا بہت ضروری ہے۔ اب مریم نواز کے جیل کے دورے سے اور تاثرات سے معلوم ہوتا ہے کہ انہیں ابھی تک یاد ہے  سب ذرا ذرا چلیں اسی بہانے وہ اب جیلوں کے دورے کر کے وہاں رہنے والوں کے لیے کچھ اچھا ہی کریں گی خاص طور پر جیلوں میں بند خواتین کی حالت زار پر توجہ دینے کی ضرورت ہے خاص طور پر جن کے ساتھ بچے بھی ہیں۔ اس طرح کبھی کبھی اچانک دورے کر کے جیلوں کے عملے کی فسطائیت بھی نوٹ کر لیں تو بہت اچھا ہو گا۔ جیل کے دروازے سے لے کر ملاقات تک جتنے بھی مراحل ہیں وہ مٹھی گرم کئے بغیر ممکن نہیں ہوتے قیدیوں کے گھروں سے آنے والے سامان یا خوراک کا بڑا حصہ انتظامیہ کی جیبوں اور پیٹوں میں چلا جاتا ہے۔ 
رشوت کا بازار گرم ہی نہیں عروج پر ہے۔ قیدیوں کو اندر بیٹھے منشیات ، موبائل فون اور ہر قسم کی سہولت مالی خرچے پر مل جاتی ہے۔ اعلیٰ حکام، محکمہ جیل سب کچھ جانتے ہوئے بھی اس پر قابو پانے میں یا تو ناکام رہتے ہیں یا وہ ایسا کرنا ہی نہیں چاہتے، یہ معلوم کرنا وزیر اعلیٰ کا کام ہے۔ عام لوگ تو طرح طرح کی باتیں کرتے ہیں کہ بااثر قیدی جیلوں میں بھی مزے سے رہتے ہیں۔ 
٭٭٭٭٭

ای پیپر-دی نیشن