عام آدمی اور اشرافیہ کی سبسڈیاں
ملک کے وجود میں آنے کے کچھ ہی عرصہ بعد جہاں اور بہت سی انہونیاں ہوئیں اور گھٹنائیاں سامنے آئیں وہاں ایک کام یہ بھی ہوا کہ ہمارے ارباب اختیار کو عام آدمی کی فکر بہت زیادہ ستانے اور پریشان کرنے لگی۔ اور یہ فکر اس حد تک جا پہنچی کہ عام آدمی کو ’’آرام‘‘ کیلئے آئی سی یو میں پہنچا کر دم لیا۔ ان فکر مندیوں اور پریشانیوں کو دیکھ دیکھ کر انسان تو انسان، شیطان نے بھی کافی عبرت پکڑی ہے اور کانوں کو ہاتھ لگا لگا کر وضاحتیں پیش کر دی ہیں کہ عام آدمی کو اس حالت میں پہنچانے میں اس کا قطعاً کوئی ہاتھ نہیں بلکہ یہ عام آدمی کے نام لیوا کرتا دھرتا لوگوں کی ہی محنت کی کمائی ہے۔
یادش بخیر:… ایک آدمی کو ساگ کھانے کا بہت شوق تھا وہ دن میں ایک بار اپنا یہ شوق ضرور پورا کر لیا کرتاتھا۔ اس کے باپ کو خبر ہوئی (واضح رہے یہ باپ کہیں اور کا ہے اور اس کا بلوچستان والے بلکہ والی باپ سے کوئی تعلق نہیں اور یہ کہ کسی طرح کی مشابہت محض اتفاقیہ ہوگی) تو اس نے اسے بلایا اور کہا، بیٹا اتنا ساگ مت کھایا کرو۔ یہ تمہیں بیمار کر دے گا اور پھرتم ساگ کھاتے ہوئے ’’بسم اللہ‘‘ بھی نہیں پڑھتے جس سے شیطان بھی کھانے میں شامل ہو جاتا ہے۔ ایسا نہ کیا کرو۔ وعدے کے باوجود بیٹا ساگ کھانے لگا تو بسم اللہ پڑھنا بھول گیا۔ اچانک شیطان نمودار ہوا اور کہنے لگا میری نہیں تو کچھ اپنے باپ کی عزت کا ہی خیال کرو۔ روز ساگ کھاتے ہو۔ بیشک کھاؤلیکن بسم ا للہ تو پڑھ لیا کرو۔ تم بسم اللہ نہیں پڑھتے تو طوعاً کرہاً مجھے بھی کھانے میں شامل ہو کر اپنے معدے کا بْرا حال کرنا پڑتا ہے۔ سو کچھ اس طرح کی صورتحال عام آدمی کی فکر کرنے والوں کو بھی درپیش رہی ہے جن سے شیطان بھی پناہ مانگتا رہا ہے۔ کیونکہ عام آدمی کی درگت میں اس کا کوئی خاص ہاتھ نہیں لیکن بْرا بھلا اسے سننا پڑتا ہے۔ ہمارا ملک ہمارے نہیں بلکہ اپنے بچپن سے ہی مشکل اور نازک دور سے گزر رہا ہے اور اتنا گزر چکا ہے کہ بقول غالب: ’’مشکلیں اتنی پڑیں مجھ پر کہ آساں ہوگئیں‘‘۔ عام آدمی کو آئی سی یو میں بھی اس کا یقین ہو چلا ہے کہ مشکلیں اتنی پڑیں گی کہ آساں ہو جائیں گی اور آسان آسان لگیں گی۔ یعنی خوشی خوشی بھوکا رہنا ، گھر کی کوئی چیز بیچ کر بل ادا کرنا وغیرہ وغیرہ۔
یہاں ہمیں ایک نجومی اور عام آدمی کا ایک واقعہ یاد آگیا۔ وہ بھی سنائے دیتے ہیں کہ ہمارے جیسا ایک عام آدمی نجومی کے پاس چلا گیا اس یقین کے ساتھ کہ اس کی قسمت تو بدلنے والی نہیں۔ اپنا ہاتھ نجومی کے سامنے کر دیا۔ نجومی نے اس طرح ہاتھ دیکھا جیسے مولوی غریب کے دسترخوان کی طرف دیکھتا ہے اور بڑی ناگواری سے فرمایا: دو برس تمہارے لئے بہت مشکل کے ہیں پھر؟ عام آدمی نے بے تابی سے پوچھا تو نجومی محترم گویا ہوئے ’’پھر تم عادی ہو جاؤ گے‘‘ عام آدمی بے چارہ یہ سن کر اپنی مستقل مقام گاہ یعنی آئی سی یو میں واپس چلا گیا اور مزید قسمت آزمائی نہ کرنے کا فیصلہ کر کے خود کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔
ملک واقعی ایک نازک دور سے گزر رہا ہے، مہنگائی سر چڑھ کر بول رہی ہے، یوٹیلٹی بلز نے ناک کے ساتھ ساتھ کانوں میں بھی ایسا دم کر رکھا ہے کہ بیچارے بیٹھے بٹھائے خودبخود بجنے لگتے ہیں۔ ہر طرف سیاسی تقسیم ہے جو گہری ہو کر نفرت میں بدلتی جارہی ہے۔ بیرونی سرمایہ کاری نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے، ہر طرف سے یہی آوازیں سنائی دے رہی ہیں کہ مشکلات کا ڈیرہ ابھی کئی برس مزید رہے گا۔ ملک بچانے کے لئے قربانیاں دینا ہونگی جو وقت گزر گیا وہ تو کچھ بھی نہیں اصل مشکلات آنے والی ہیں لیکن گھبرانا نہیں وغیرہ وغیرہ۔
ملک کا دفاع ہو، معاشی مسائل ہوں یا سیاسی چپقلش۔ عام آدمی آئی سی یو کو اپنا مستقل ٹھکانہ بنا کر بھی کبھی نہیں گھبرایا اور ہر مشکل کا مردانہ وار مقابلہ کرتا کرتا موجودہ صورتحال تک پہنچ گیا ہے۔
ایسا نہیں کہ کچھ نہیں ہو رہا۔ ملک کی بہتری کے لئے یا آسان لفظوں میں کہا جائے تو ملک بچانے کے لئے ہر محاذ پر کوششیں ہو رہی ہیں۔ سیاسی قوتیں ایک دوسرے سے مل رہی ہیں، اچھے اچھے منصوبے بن رہے ہیں۔ ادارے بھی اس کارخیر میں حصہ ڈالنے کے لئے پْرعزم ہیں۔ پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ وزیراعلیٰ کے پی کے بھی وزیراعظم سے مل بیٹھے ہیں اور وزیراعظم کی طرف سے بھی اس کا اچھا رسپانس دیا گیا ہے۔ سب کچھ ہو رہا ہے۔ بس اب ایک بہت اہم اور ضروری کام بھی خلوص نیت سے شروع کر دیا جائے اور وہ کام عوام کو یا عام آدمی کو ساتھ ملا کر چلنے کا ہے جسے ہم عوامی اشتراک کہہ سکتے ہیں۔ آپ نے عوام کو خوب ایجوکیٹ کر دیا کہ ملک خطرے میں ہے، قربانیاں دینا ہونگی۔ اب آگے بڑھ کر عوام کے ساتھ اشتراک عمل کا حصہ بھی بن جائیں اور اس مقصد کے لئے سیاسی قوتوں بالخصوص ارباب اختیار کو آگے بڑھنا ہوگا۔
عوامی اشتراک کا مطلب گلی محلوں میں ریلیاں یا جلسے جلوس نہیں اور نہ ہی بلند و بانگ نعرے یا وعدے ہیں بلکہ وہ عمل ہے جس کا اشارہ وزیراعظم شہبازشریف نے کابینہ کے پہلے اجلاس میں وزراء سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے بہت اچھی بات کی ہے کہ عوام معاشی اعتبار سے انتہائی تکلیف میں ہیں ہر طرف سہولتوں کا فقدان ہے۔ ان کے کہنے کا عرف عام میں مفہوم یہ ہے کہ ملک کی آبادی کے بیشتر حصے کو دو وقت کی روٹی بھی میسر نہیں اور وہ اپنا پیٹ کاٹ کر یوٹیلٹی بلز ادا کر رہے ہیں۔ ان حالات میں پہلے سے ہی مراعات یافتہ طبقہ کو میسر سبسڈیاں چہ معنی دارد؟ اس کا اظہار کرتے ہوئے یقیناً فرانس اور روس کے انقلابات بھی وزیراعظم کے ذہن میں ہونگے جہاں مراعات یافتہ طبقات سہولتوں کے بوجھ تلے دبے جاتے تھے اور دوسری طرف عوام کو روٹی میسر نہ ہونے پر کیک کھانے کے مشورے دیئے جاتے تھے۔ اور پھر وہ ہوا جس کا تصور محال ہے۔ وزیراعظم صاحب: یقیناً آپ درست کہہ رہے ہیں بھلا وہ معاشرے کیسے آگے بڑھ سکتے ہیں جہاں چند ہزار افراد کے لئے زندگی نعمت اور قدرت کا حسین ترین تحفہ بن جاتی ہے جبکہ لاکھوں کروڑوں کے لئے جہنم کا عذاب ثابت ہوتی ہے۔
یقیناً معاشرے کو قائم دائم اور ریاست کو رواں دواں رکھنے کے لئے طبقاتی تقسیم کو کم سے کم کرنا ہوگا۔ رمضان پیکج اور راشن کی فراہمی بہت اچھی بات ہے کہ فوری طور پر اس سے اچھا اور کوئی عمل نہیں ہو سکتا لیکن ملک کو مستقل طور پر آگے بڑھانے کے لئے ’’صحت، تعلیم اور انصاف سب کے لئے‘‘ جیسے مستقل اور پائیدار منصوبے اپنانا ہونگے۔ لوگوں کے درمیان وسائل کی تقسیم منصفانہ کرنا ہوگی اور ملازمتوں میں میرٹ کے اصول لاگو کرنا ہونگے۔ پھر ہی ہم ایک پائیدار، متوازن اور چیلنجز کا مقابلہ کرنے والی ریاست قائم کرسکیں گے۔ گہری طبقاتی تقسیم کے اس معاشرے میں اشرافیہ کے کوڑا دانوں میں اتنی روٹی موجود ہے جو ایک غریب خاندان کے لئے ایک ہفتے کے کھانے پینے کا سامان ہو سکتی ہے۔ ایک طرف مفت پٹرول کے ڈرموں سے ’’اشنان‘‘ کیا جا رہا ہے اور دوسری طرف ایک ایک لٹر کے لئے دھکے کھائے جارہے ہیں۔ ایک طرف بہترین لش پش کرتے سکول ہیں تو دوسری طرف ’’سورج زدہ کھلے میدان‘‘ ایک طرف صحت کی سہولتوں کے انبار تو دوسری طرف بخار کی ایک گولی بھی میسر نہیں۔
وزیراعظم صاحب نے کابینہ سے اپنے خطاب میں نشاندہی کر دی ہے اور وہ یہ کہ ان حالات میں اشرافیہ کی سبسڈیاں کسی صورت قبول نہیں۔ جی بالکل درست۔ یہی وہ پہلا کام ہے جو طبقاتی تقسیم کو کسی قدر کم کر کے ’’غریبان چمن‘‘ کے زخموں پر مرہم رکھے گا، انہیں کسی قدر سکون میسر آئے گا اور محسوس ہوگا کہ یہ ملک یہ معاشرہ ان کے لئے بھی ہے اور وہ بھی اتنے ہی سٹیک ہولڈر ہیں جتنے مراعات یافتہ لوگ…
وزیراعظم صاحب! پہلے مرحلے میں یہ کام جلد سے جلد کر جائیے کیونکہ اشرافیہ میں ایسے لوگ بکثرت پائے جاتے ہیں جو اچھا کام کرنے کی کوشش کرنے والے حکمرانوں کو اْلجھانے میں کمال مہارت رکھتے ہیں۔ اشرافیہ کیلئے سبسڈیز ختم کرنے سے عام آدمی کو نفرت کی جو بیماری لگ گئی ہے وہ بھی قدرے کم ہوگی اور وہ آئی سی یو سے نکل کر آپ کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر چلنے لگے گا۔ یقین جانیں عوامی اشتراک کا یہی پہلا مرحلہ ہے۔