انڈیا جیتے گا یا ہار جائیگا
عجب سا ماجرا ہوا، پہلے پختونخواہ میں کرپشن کا بھانڈا خود علی امین گنڈا پور نے پھوڑا اور اب ایک اور بھانڈا، پہلے سے بھی بڑا، پی ٹی آئی کے شعلہ فشاں قائد شیر افضل مروت نے پھوڑ ڈالا ہے۔ دو بڑے بھانڈے پھوٹنے کے بعد پی ٹی آئی بے چاری بے مایوس سی ہوتی لگنے لگی ہے۔ پہلے شیر مروت کا سن لیجئے کہ ان صاحب کا مقام و مرتبہ کیا ہے۔ اب تو خیر وہ کچھ تکون کی زد میں آ گئے ہیں لیکن چند ہی ہفتے پہلے تک ان کو عمران خان ثانی کا خطاب خود پی ٹی آئی والوں نے دیا تھا۔ کہا جاتا تھا کہ ایک عمران خان جیل کے اندر، دوسرا جیل کے باہر ہے۔ عمران کے بعد پی ٹی آئی کا دوسرا بڑا ’’کرائوڈ پلّر‘‘ انہی کو مانا جاتا ہے۔ پی ٹی آئی کے حامی ان کی ہر تقریر، پریس کانفرنس میں کہے گئے ہر جملے پر عش عش کر اگلتے تھے۔ ان کی دی ہوئی ایک گالی تو پی ٹی آئی کا سیاسی ابلاغیاتی ’’ٹریڈ مارک‘‘ بن گئی تھی۔
اب انہی شیر مروت نے کہا ہے کہ پختونخواہ میں پی ٹی آئی کے دور حکومت میں اربوں نہیں، کھربوں روپے کی کرپشن ہوئی۔ کئی لوگ اربوں نہیں، کھربوں پتی بن گئے۔
یعنی کئی ’’لوگ‘‘ کئی کھرب روپے اور یہ کئی لوگ تھے چنانچہ کئی کئی کھرب کو کئی افراد سے ضرب دیں اور حاصل ضرب سے کرپشن کا اندازہ لگا لیں۔ کئی افراد کی تعداد مروت صاحب نے نہیں بتائی، شاید اگلی پریس کانفرنس میں بتا دیں۔
ان سے پہلے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور سابق حکومت کے 9 وزیروں کی کرپشن کا ذکر کر چکے ہیں۔ بعض احباب نے بتایا کہ 9 نہیں ، دس وزیر تھے اور دسویں وزیر نے اپنا ذکر نہیں کیا، کچھ اس لئے کہ اب وہ وزیر سے ’’بڑے وزیر‘‘ بن گئے۔ شاید آپ کو پتہ ہو کہ سندھی زبان میں وزیر اعلیٰ کی اصطلاح استعمال نہیں کی جاتی بلکہ ’’وڈو وزیر‘‘ (بڑا وزیر) کہا جاتا ہے۔
ہر دو حضرات کے بیانات سے پی ٹی آئی میں ’’مخفی‘‘ کہرام برپا ہے، یعنی گریہ ہے لیکن بے آواز، زندگی کے ساز کی طرح کہ بج رہا ہے اور بے آواز ہے۔
____
ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں نے حملہ کر کے میران شاہ میں دو افسروں سمیت پاک فوج کے سات جوان شہید کر دئیے۔ کچھ ’’نامعلوم‘‘ افراد نے اس پر ٹویٹر کے پلیٹ فارم پر اظہار مسرت کیا۔ اگلے دن جوانوں کے تابوت اٹھائے گئے۔ ایک تابوت ایک طرف سے صدر زرداری نے دوسری طرف سے آرمی چیف حافظ عاصم منیر نے اٹھایا۔ اس کی تصویر میڈیا پر نشر ہوئی تو انہی ’’نامعلوم‘‘ عناصر نے یہ تصویر ایڈٹ کی اور تابوت پر ننگی گالی لکھ دی۔ اس سے پہلے یہی ’’نامعلوم‘‘ عناصر بلوچستان میں ایک جنرل کی شہادت پر بھی اظہار مسرت کر چکے ہیں۔ ان نامعلوم عناصر کے ٹویٹ کو بڑی تعداد میں ری ٹویٹ کیا گیا اور باہمی مسرت شیئر کی گئی۔
عوام کیلئے یہ ’’نامعلوم‘‘ اتنے بھی نامعلوم نہیں ہیں۔ ان ٹوئٹوں کو ری ٹویٹ اور شیئر کرنے والے اکائونٹس ایک خاص انقلابی سیاسی پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں۔ عوام کو بہت کچھ ان نامعلوم کے بارے میں معلوم ہے البتہ حکومت واقعتاً ان نامعلوم کے بارے میں بھی وہ کچھ نہیں جانتی ورنہ ضرور ان کے خلاف کارروائی کرتی۔
____
امریکہ اور یورپ میں پاکستانی نڑاد مخلوق کے لوگ پاکستان اور پاکستانی فوج کیخلاف مظاہرے کر رہے ہیں اور مطالبہ کر رہے ہیں کہ پاکستان کی مدد کی جائے۔ اسیقرضے نہ دئیے جائیں اور اس کی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا جائے اور حقیقی آزادی دیجائے۔ حقیقی آزادی کے کماندار اعلیٰ سے جو ان دنوں جیل نشین ہیں ، اخبار نویسوں نے پوچھا تو کہا یہ مظاہرے جائز ہیں، میری حمایت انہیں حاصل ہے البتہ انہوں نے جو نعرے لگائے ہیں ان کے بارے میں لاعلم ہوں۔
صرف لاعلمی ظاہر ہوئی، یہ نہیں کہا کہ جنہوں نے بھی لگائے غلط کیا۔ مذمت بھی نہیں کی۔ تادم تحریر حقیقی آزادی کے پورے لشکر میں سے کسی نے ان نعروں کی مذمت نہیں کی۔ حقیقی آزادی کا ایک مجاہد راقم کا محلے دار ہے، اس سے پوچھا کہ کیا بات ہے، کسی نے کبھی مذمت نہیں کی تو اس نے کمال کا شافی و کافی جواب دے کر راقم کو لاجواب کر دیا۔ فرمایا، جب نعروں کا علم ہی نہیں تو مذمت کیسے کر دیں؟
____
پی آئی اے کی نج کاری کے مسئلے پر حکمران اتحاد میں اختلافات پیدا ہو گئے ہیں اور پیپلز پارٹی نے سخت الفاظ میں نج کاری کی مخالفت اور مزاحمت کا اعلان کیا ہے۔
نج کاری ہو پاتی ہے یا نہیں، اس پر تو کچھ نہیں کہا جا سکتا لیکن جو بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے، وہ یہ ہے کہ حکومت چلے گی اور پورے پانچ سال چلے گی۔ دو ، اڑھائی سال بعد یا اس سے بھی پہلے حکومت کا ڈرائیور بدل جائے گا یا یہی رہے گا، یہ بات بھی نہیں کہی جا سکتی لیکن چلے گی یہی حکومت، اتنا ضرور کہا جا سکتا ہے۔ حقیقی آزادی کے مجاہد تب تک صبر سے کام لیں۔ صرف پانچ سال تک صبر سے کام لینے کی ضرورت ہے، بعد میں تو عادت ہو ہی جائے گی۔
____
اگلے ماہ کے بیچ میں بھارتی الیکشن ہوں گے۔ ہندوتوا کی پارٹی کا اپوزیشن کے اتحاد سے مقابلہ ہو گا۔ اس اتحاد کا نام ’’انڈیا‘‘ رکھا گیا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ الیکشن میں فتح کس کی ہو گی، ہندوتوا کی یا انڈیا کی۔ زیادہ تر مبصرین کہتے ہیں کہ انڈیا ہار جائے گا۔ کم تر مبصرین کا بھی ملتا جلتا خیال ہے۔ انڈیا جیت جائے گا، ایسا خیال بہت ہی کم لوگوں کا ہے۔
ہندوتوا کے معنے ہیں غیر ہندوئوں کو بھارت سے نکال دو، مسلمانوں کو چھوڑ کر، مسلمانوں کو بھارت سے نکالو مت، یہیں مار دو۔
پہلے بھارت بہت بدنام تھا۔ مسلمانوں کا قتل عام وقفے وقفے سے ہوتا رہتا تھا، احمد آباد سے مراد آباد تک، جمشید پور سے سہارنپور تک۔ ہندوتوا روپ بدل کر نریندرا مودی بن گیا۔ قتل عام کے واقعات روک دئیے۔ نئی پالیسی یہ بنی کہ قتل عام مت کرو۔ ان کے گھر گرا دو، ان کے روزگار کے اڈّے تباہ کر دو، گلی محلّے میں ان کا آنا جانا بند کر دو، ہر روز کہیں نہ کہیں اکیلے دو اکیلے کو پکڑ کر یا تو مار دو، یا ہڈیاں توڑ دو پھر اس کی وڈیو بنا کر پھیلا دو۔ یعنی سسک سسک کر خود ہی مر جائیں۔
اور دنیا کہے دیکھو ، مودی جب سے آیا ہے کوئی احمد آباد ہوا ہے نہ مراد آباد
چلئے دیکھتے ہیں، انڈیا نے ہارنا تو ہے ہی، کتنے بڑے یا کتنے کم مارجن سے ہارتا ہے۔ اس بات کی بھی تو اہمیت ہے۔