اربوں کمانے والے دھیلہ بھی ٹیکس نہیں دیتے: وزیراعظم، ارکان کابینہ سمیت تنخواہ ، مراعات نہ لینے کا اعلان
اسلام آباد (خبر نگار خصوصی+ نوائے وقت رپورٹ) وزیراعظم محمد شہباز شریف سمیت کابینہ ارکان نے رضاکارانہ طور پر تنخواہیں اور مراعات نہ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف کی زیر صدارت کابینہ اجلاس ہوا جس میں چار نکاتی ایجنڈے پر غور کیا گیا۔ کابینہ ارکان نے تنخواہیں اور مراعات نہ لینے کا فیصلہ حکومتی سطح پر کفایت شعاری کی ترویج کے تناظر میں لیا۔ وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کابینہ کو آئی ایم ایف کے ساتھ سٹاف لیول ایگریمنٹ پر تفصیلی بریفنگ دی جس میں بتایا گیا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے سے ملکی معیشت میں بہتری آئے گی اور سرمایہ کاروں کے اعتماد میں مزید اضافہ متوقع ہے۔ کابینہ نے پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز (پی آئی اے) ہولڈنگ کمپنی تشکیل کرنے کی منظوری دے دی جو کہ پی آئی اے کی نجکاری کی طرف ایک اہم پیش رفت ہے۔ وفاقی کابینہ نے میر علی دہشت گرد حملے کے شہداء کو خراج عقیدت اور ان کے لیے فاتحہ خوانی کی۔ کابینہ نے ملک سے دہشت گردی کے مکمل خاتمے کا عزم کیا۔ کابینہ اجلاس میں ملکی معاشی اور سکیورٹی صورتحال پر غور کیا گیا جبکہ آئی ایم ایف کے ساتھ ہونے والے مذاکرات پر بھی کابینہ کو اعتماد میں لیا گیا۔ کابینہ نے پی آئی اے کی نجکاری کے معاملہ کا جائزہ لیا۔ جبکہ شیریں مزاری کی حراست کی تحقیقات کے لیے قائم کمیشن رپورٹ اور حیدر آباد کی بینکنگ کورٹ کی بحالی کا بھی جائزہ لیا گیا۔ محمد شہباز شریف نے کہا ہے کہ سرحد پار سے دہشت گردی اب برداشت نہیں کریں گے اور پاکستان کی سرحدیں دہشت گردی کے خلاف ریڈ لائن ہیں۔ کابینہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ خطے میں امن کے لیے ہمسایہ ممالک کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہتے ہیں، دہشتگردی کے خاتمے کے لیے قوم نے عظیم قربانیاں دی ہیں۔ ہمیں آئی ایم ایف کے نئے پروگرام کی ضرورت ہے کیونکہ قرضوں کے بغیر ہمارا گزارا نہیں، معیشت کو پاؤں پر کھڑا کر کے ملک کو قرضوں سے نجات دلانی ہے، کوشش کریں گے کم سے کم قرض لیں، پچھلی حکومت میں ہم نے ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچایا۔ ہم نے ملک کے لیے اپنا سیاسی اثاثہ بھی داؤ پر لگا دیا، ہمارے 2400ارب کے محصولات اس وقت یا تو ٹریبیونلز کے پاس ہیں یا عدالتوں میں ان کے مقدمات زیر سماعت ہیں، چیف جسٹس سے درخواست ہے تمام ہائیکورٹس کو ہدایت دیں کہ تمام کیسز پر میرٹ پر فیصلہ دیں، نوٹس لینے پر چیف جسٹس کا شکر گزار ہوں گا۔ کفایت شعاری پالیسی سے متعلق وزیراعظم نے کہا کہ حکومت کے شاہانہ اخراجات میں کمی انتہائی ضروری ہے، کئی ایسے محکمے ہیں جن کی ضرورت نہیں اور جو محکمے رہ گئے اٹھارویں ترمیم کے تحت صوبوں کو حوالے کریں۔ بجلی چوری سے متعلق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ سالانہ چار سے 500 ارب کی بجلی چوری ہوتی ہے، اب بجلی اور گیس کی چوری برداشت نہیں کریں گے، بجلی اور گیس کی چوری کے مکمل خاتمے کے لیے پلان لانا ہوگا۔ ان کا کہنا تھا ہمیں آئی ایم ایف کے نئے پروگرام کی ضرورت ہے ، 2400 ارب کے محصولات کے کیسز ٹربیونلز یا عدالتوں میں ہیں، مافیاز قوم کے اربوں کھربوں روپے کھا رہی ہے، 400 سے 500 ارب روپے کی سالانہ بجلی چوری ہو رہی ہے، چیئرمین ایف بی آر، وزیر خزانہ کو کہا ہے فرض شناس، دیانتدار افسران کی فہرستیں بنائیں، ٹربیونلز سے میٹنگ کریں اور جلد از جلد انصاف پر مبنی فیصلہ کریں۔ ان کا کہنا تھا ہمیں قرضوں سے جان چھڑانی ہے، قرضوں کے رول اوور اور مزیر قرض پاکستان کے لیے نقصاندہ ہیں۔ شہباز شریف کا کہنا تھا میثاق معیشت کے ساتھ ہمیں یکجہتی کا چارٹر بھی پیش کرنا چاہیے کیونہ یکجہتی اور معاشی ترقی دونوں لازم و ملزوم ہیں، امید ہے کہ کابینہ عوامی توقعات پر پورا اترے گی۔ ملک میں ہونے والی حالیہ دہشتگردی کے واقعات پر گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا تھا دہشتگردوں کا مقابلہ کرنے والے پاک فوج کے جوانوں کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں، پاک فوج کے جوانوں کی وطن کے ساتھ والہانہ محبت انمول ہے۔ ان کا کہنا تھا سرحد پار سے دہشتگردی اب برداشت نہیں کر سکتے، ہمسایہ ملک کی زمین دہشتگردی کے لیے استعمال ہو گی تو یہ قابل قبول نہیں، ہمسایہ برادر ملک کے ساتھ امن کے ماحول میں رہنا چاہتے ہیں، برادر ہمسایہ ملک کے ساتھ برادرانہ تعلق اور تجارت چاہتے ہیں۔ ہمسایہ ملک کو دعوت دیتا ہوں آئیں ملکر دہشتگردی کے خاتمے کے لیے کام کریں، امید ہے کہ ہمسایہ ملک کے ارباب اختیار ملکر خطے کو امن کا گہوارہ بنائیں گے۔ وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا تھا شہداء اور ان کے اہلخانہ کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں، شہداء کے والدین نے کہا کہ ملک سے دہشت گردی کا خاتمہ کیا جائے۔ شہبا زشریف نے مزید کہا کہ آئی ایم ایف نے ٹیکس بیس بڑھانے کا کہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اربوں کمانے والے دھیلے کا ٹیکس نہیں دیتے۔ علاوہ ازیں وزیراعظم کی زیر صدارت قانونی، عدالتی اصلاحات کیلئے خصوصی کمیٹی کا پہلا اجلاس ہوا۔ کمیٹی میں اعظم نذیر تارڑ، شہزاد شوکت، احسن بھون، زاہد حامد، شاہد حامد، اٹارنی جنرل منصور اعوان نے شرکت کی۔ وزیراعظم نے کمیٹی کو عام آدمی کی سہولت کیلئے سول اور فوجداری قوانین میں آسانیاں پیدا کرنے کیلئے لائحہ عمل تشکیل دینے کی ہدایت کی۔ دریں اثناء برطانوی ہائی کمشنر جین میریٹ نے وزیراعظم شہبازشریف سے ملاقات کی۔ ملاقات کے دوران باہمی دلچسپی کے امور پر گفتگو کی گئی۔