• news

 سماجی ناہمواریاں اور نوجوان نسل میں پھیلتی مایوسی 

پاکستان کا شمار دنیا کے ان خوش قسمت ترین ممالک میں ہوتا ہے جن کے ہاں آبادی کا بڑا حصہ ایسے افراد پر مشتمل ہے جو نوجوان ہیں لیکن یہ بھی ایک افسوس ناک حقیقت ہے کہ ہمارے نوجوان موجودہ حالات میں سخت مایوسی کا شکار ہیں اور ان کی غالب اکثریت پاکستان سے کسی بھی طرح نکل جانا چاہتی ہے۔ یہ صورتحال ایک دن میں پیدا نہیں ہوئی اور نہ ہی راتوں رات اس کا علاج ممکن ہے۔ گزشتہ ساڑھے سات دہائیوں سے زائد عرصے میں مسلسل ایسی پالیسیاں اختیار کی گئیں جن کے نتیجے میں طاقتور طبقات مزید طاقتور ہوتے گئے اور انھوں نے اپنی طاقت کا ناجائز استعمال کر کے ریاست کے وسائل پر قبضہ اس قدر بڑھا لیا کہ کمزور طبقات کا حصہ کم سے کم تر ہوتا چلا گیا۔ اس صورتحال نے ہی اس مایوسی کو جنم دیا جس کا اوپر ذکر کیا گیا ہے اور یہ ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتی ہی چلی جارہی ہے۔
اقوامِ متحدہ کے ادارے یو این ڈی پی کی ایک رپورٹ کے مطابق، پاکستان میں ہر سال اشرافیہ کو تقریباً ساڑھے سترہ ارب ڈالر کی مراعات و سہولیات سرکاری خزانے سے دی جاتی ہیں۔ یہ رقم کتنی بڑی ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان کا مالی سال 2023-24ء کا بجٹ تقریباً پچاس ارب ڈالرز ہے، یعنی ہماری حکومت بجٹ کی کل رقم کا ایک تہائی حصہ اشرافیہ کو مراعات و سہولیات دینے پر خرچ کررہی ہے۔ دنیا کا کوئی بھی اور ملک شاید اتنی بڑی رقم ایسے کسی کام پر خرچ نہیں کرتا ہوگا۔ وزیراعظم محمد شہباز شریف نے کابینہ کے پہلے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے خود بھی اس بات کا اعتراف کیا کہ اشرافیہ کو سبسڈی دینے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ اس موقع پر انھوں نے یہ اعلان بھی کیا کہ اشرافیہ کو دی جانے والی سبسڈی جلد ختم کی جائے گی۔ عملی طور پر ایسا ممکن ہو پائے گا یا نہیں یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا لیکن یہ بات اپنی جگہ خوش آئند ہے کہ حکومت کے سربراہ نے کم از کم یہ تسلیم تو کر لیا کہ اشرافیہ کو سبسڈی دی جارہی ہے اور اس کے دیے جانے کا کوئی جواز نہیں ہے۔
ہمارے کسی حکومتی ذمہ دار کی طرف سے اس قسم کا بیان تو اب سامنے آیا ہے لیکن بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کئی بار یہ کہہ چکا ہے کہ پاکستان میں غریبوں کو سبسڈی نہیں دی جارہی اور امیروں کو دی جارہی ہے۔ سبسڈی لینے والے ان امیروں میں قابلِ ذکر تعداد ان افراد کی بھی ہے جو غریبوں کے ووٹوں سے اسمبلیوں میں پہنچتے ہیں اور ووٹ مانگنے کے لیے جب غریبوں کے پاس جاتے ہیں تو ان سے وعدے کرتے ہیں کہ میں منتخب ہو کر آپ کے حقوق کا تحفظ اور دفاع کروں گا۔ پاکستانی پارلیمان کی تاریخ کے کسی بھی حصے پر نظر ڈالی جائے تو بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ منتخب ارکان نے عوام کی فلاح و بہبود یا ان کے حقوق کے تحفظ اور دفاع کے لیے کیا کچھ کیا۔ ساتھ ہی اگر ان منتخب ارکان کے اثاثہ جات کو دیکھ لیا جائے تو یہ بات مزید واضح ہو جائے گی کہ اصل توجہ کس کی فلاح و بہبود اور کس کے حقوق کے تحفظ اور دفاع پر رہی۔
ہمارے سیاستدان اس بات کو تسلیم کریں یا نہ کریں مگر حقیقت یہی ہے کہ طاقت کا سرچشمہ عوام ہی ہیں۔ ہاں، وہ اپنی طاقت سے واقف نہیں ہیں اس لیے ان کا مسلسل استحصال ہورہا ہے لیکن عوام میں اس استحصالی نظام سے نفرت اور بیزاری میں جس تیزی سے اضافہ ہورہا ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اگر حکومت نے خود عوام کے مسائل و مصائب میں کمی لانے کے لیے ٹھوس اقدامات نہ کیے تو تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق عوام اپنے حقوق کے تحفظ اور دفاع کی ذمہ داری اپنے ہاتھ میں لے لیں گے اور جو لوگ ان کے حقوق کا نام لے کر اپنی توندیں اور تجوریاں بھر رہے ہیں وہ ان کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے۔ ممکن ہے ایسا آئندہ نصف صدی میں بھی نہ ہو پائے لیکن پاکستان کے سماجی حالات میں جو تبدیلیاں آرہی ہیں وہ اسی بات کی طرف اشارہ کررہی ہیں کہ آج تک تو نہیں ایسا ہوگا ضرور۔
عوام میں اس استحصالی نظام کے خلاف جو نفرت اور بیزاری پیدا ہورہی ہے اس کے مختلف مظاہر ہمیں معاشرے کے اندر بھی نظر آتے ہیں اور سوشل میڈیا پر بھی اس کا اظہار ہوتا ہے۔ سوشل میڈیا جو لوگ استعمال کررہے ہیں ان کی غالب اکثریت ایسے افراد پر مشتمل ہیں جو نوجوان ہیں اور مختلف واقعات سے متعلق ان کے تبصروں وغیرہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اس نظام کو موجودہ شکل میں ہرگز قبول نہیں کریں گے۔ اہم بات یہ ہے کہ جس نفرت اور بیزاری کا ذکر کیا جارہا ہے وہ ایسے بچوں میں بھی نظر آتی ہے جو ابھی ٹین ایج کو بھی نہیں پہنچے، یعنی معروف معنوں میں انھیں بالغ قرار نہیں دیا جاسکتا لیکن ان کی بات چیت سے پتا چلتا ہے کہ وہ اس نظام کو اپنے مسائل و مصائب کے لیے پوری طرح ذمہ دار سمجھتے ہیں اور جو کچھ اس ملک میں دہائیوں سے ہورہا ہے اور اس کی وجہ سے ملک جس حال کو پہنچ چکا ہے اسے سامنے رکھ کر دیکھا جائے تو یہ افراد اور بچے جو کچھ کہتے ہیں وہ جائز معلوم ہوتا ہے۔
ایسا ہرگز نہیں ہے کہ ہم مشکل حالات کی جس دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں اس سے نکلنے کی کوئی سبیل نہیں ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ کوئی بھی حکومت وہ سنجیدہ اور ٹھوس اقدامات کرنے پر آمادہ دکھائی نہیں دیتی جو ان مشکل حالات سے ہمیں نکال سکتے ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف نے اشرافیہ کو دی جانے والی سبسڈی کا ذکر کر کے اچھا اقدام کیا ہے جس کی حمایت کی جانی چاہیے لیکن اس بات کو صرف زبانی جمع خرچ تک محدود نہیں رہنا چاہیے بلکہ اس حوالے سے پالیسی بھی بنائی جانی چاہیے جس کے ذریعے معاملات کو آگے بڑھایا جائے۔ اگر حکومت ایسا کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو امید کی جاسکتی ہے کہ معاشرے میں بڑھتی ہوئی ناہمواریوں اور عدم مساوات کی وجہ سے نوجوان نسل میں جو مایوسی پھیل رہی ہے ہم اس پرکسی حد تک ہی سہی لیکن قابو ضرور پالیں گے۔

ای پیپر-دی نیشن