سائفرکیس سرکاری وکلاکی تعیناتی کس قانون کے تحت ہوتی ہے؟
اسلام آباد (وقائع نگار) اسلام آباد ہائی کورٹ میں عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی سزا کے خلاف اپیلوں پر سماعت 25 مارچ تک ملتوی ہوگئی ہے۔ سماعت کے دوران چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ سرکاری وکلا کی تعیناتی کس قانون کے تحت ہوتی ہے؟۔ بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کے وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ سرکاری وکلا کو صرف ایک دن کے لیے مقرر کیا گیا تھا، ایڈووکیٹ جنرل نے دونوں کونسلز کے نام دیے تھے، جب کسی وکیل کو نہ کرسکیں تب ہی وکیل دینے کا قانون موجود ہے، عدالت یہاں پر سرکاری وکیل دینے کا مجاز نہیں، عمران خان اور شاہ محمود قریشی کے لیے سرکاری وکیل مقرر کرنے کا کوئی جواز نہیں تھا، جن فیصلوں پر انحصار کیا گیا ان میں 2، 3 سال تاخیر پر سرکاری وکلا مقرر کیے گئے تھے۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیے کہ مگر کونسلز دینے سے متعلق عدالتی فیصلے موجود ہیں، اگر کسی ملزم کی کیس میں دلچسپی نہ ہو، وکیل نہیں کر رہا ہو تو ٹرائل تو چلے گا ناں؟۔ ہائی کورٹ رولز میں کہیں پر ایڈووکیٹ جنرل کو نام دینے کا کہا گیا ہے مگر کہیں پر کسی کا نام نہیں، وکیل نے جواب دیا کہ اس کیس میں بڑے سینئر سپیشل پراسیکیوٹرز تعینات کیے گئے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ہمیں بتائیں کہ سرکاری وکلا کی تعیناتی کس قانون کے تحت ہوتی ہے؟۔ سرکاری وکلا مقرر کرنا کسی کورٹ کی دائرہ اختیار ہے یا کسی اور کا؟۔ عام حالات میں تو ایڈووکیٹ جنرل یا پراسیکیوٹر جنرل ہی نام دیتے ہیں، یہاں پر بات ڈیفنس کونسل کی ہورہی ہے تو یہ بتائیں کہ یہاں تعیناتی کسی قانون کے تحت ہوگی۔ عدالت نے سرکاری وکیل کیوں مانگے تھے؟ عدالت نے ریمارکس دیئے کہ ہم ابھی تک 26 جنوری کے آرڈر میں پھنسے ہوئے ہیں کہ سرکاری وکیل کیسے تعینات ہوئے؟کمرہ عدالت میں گفتگو پر عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پولیس والے دیکھیں باتیں کون کررہا ہے، یہ کیس چل رہا ہے کوئی تھیٹر نہیں۔ ایڈووکیٹ جنرل نے کیسے سمجھا کہ سرکاری وکلاء تعینات کیے جائیں ؟ ایڈووکیٹ جنرل کیوں؟ بار ایسوسی ایشن کا صدر کیوں نہیں تھا؟ عدالت نے ریمارکس دیے کہ اب تو میڈیا بھی تقیسم ہوگیا ہے، الیکٹرانک میڈیا، پرنٹ میڈیا اور اب سوشل میڈیا۔ وکیل نے بتایا کہ وزارت خارجہ کے گواہ سے کل 3 لائنوں کا بیان قلمبند کرایا گیا۔ اس پر عدالت نے دریافت کیا کہ اعظم خان کے حوالے سے کیا لکھا گیا ہے؟۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ سلمان صفدر صاحب آپ یہاں شرارت کررہے ہیں، آپ نے کہا کہ آپ کو ایک ہی موقع ملا اور انہوں نے ڈیفنس کونسلز تعینات کیے، مگر عدالتی فیصلے میں 22 جنوری سے آپ کو بار بار کہا جارہا تھا مگر آپ پیش نہیں ہو رہے۔ بعدازاں عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل سے سرکاری وکیل کے جیل وزٹ سے متعلق ریکارڈ طلب کر لیا۔ عدالت نے ریمارکس دیئے کہ ڈیفنس کونسلز کی تعیناتی سے متعلق ریکارڈ بھی عدالت کے سامنے پیش کریں۔