مملکت خداداد کی تاسیسی قرارداد کا دن
خالد کاشمیری
بیسویں صدی کے آغاز ہی میں مسلمانوں اور ہندوئوں کے مابین سیاسی کشمکش کا میدان لگ چکا تھا۔ ہندوئوں کی طرف سے مسلمانوں کو سیاسی اور اقتصادی میدان میں نیچا دکھانے کے لئے برصغیر کی فرنگی حکومت ہندوئوں کی کھلے عام اور درپردہ ہر طرح کی مدد کر دی تھی اس صورت حال کی سنگینی کو محسوس کرتے ہوئے ملت اسلامیان ہند کے چوٹی کے زعماء نے ایک ایسی تنظیم کی نیو اٹھانے کا فیصلہ کیا جو برصغیر کے مسلمانوں کو ذہنی پسماندگی سے نکال کر اپنے حال کے سنوارنے اور مستقبل کے خطرات سے عہدہ برآہ ہونے کے لئے تیار کر سکے۔ چنانچہ ابتدائی صلاح و مشورے اور غور و فکر کے بعد ہندوستان کے ایک سرے سے لے کر دوسرے سرے تک کے سر برآوردہ زعماء ملت کا اجلاس 30 دسمبر1906ء کو ڈھاکہ میں نواب سلیم اللہ خان کی اقامت گاہ پر منعقد ہوا۔ اس تاریخ رقم کرنے والے آل انڈیا مسلم لیگ کے تاسیسی اجلاس میں کم و بیش تین درجن اپنے دور کی اعلیٰ دماغ شخصیتیں شریک تھیں۔ مسلمانوں کیلئے پسماندگی پہلے ہی مقدر بنی چلی آرہی تھی ، اس اجلاس کے فوری بعد فرنگی حکمرانوں اور ہندوئوں کے باہمی گٹھ جوڑ سے مسلمانوں کو سیاسی اور اقتصادی میدان میں ہر لحاظ سے پسپا کرنے کی کوششیں تیز تر ہوتی چلی گئیں۔ اس صورت حال کی سنگینی کو بھانپتے ہوئے حکیم الامت علامہ محمد اقبال نے آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس منعقدہ الہ آباد میں اپنے صدارتی خطبے میں اسلامیان ہند کے لئے ایک الگ مملکت کا تصور پیش کرکے ہندوئوں کی قیادت میں تھرتھلی مچا دی۔ یہی وہ سنگ میل تھا جو آگے چل کر غیر منقسم ہندوستان میں مسلمانوں کے اکثریتی خطوں میں آزاد اور خود مختار ملک کے قیام کی تجویز بنا۔ اس کے بعد برصغیر کی مسلم ہندو سیاست میں تیزی آگئی اور دونوں اقوام کی صف اول کی سیاسی جماعتوں آل انڈیا مسلم لیگ اور آل انڈیا کانگریس کے پرچم تلے دونوں سیاسی جماعتوں کے قائدین پوری طرح سرگرم عمل ہوگئے۔
آل انڈیا کانگریسی کے پرچم تلے ہندو اور آل انڈیا مسلم لیگ کے سبز ہلالی پرچم تلے مسلمان برطانوی سامراج سے حصول آزادی کے لئے جدوجہد میں ایک دوسرے کے خلاف صف آراء ہو چکے تھے۔ انہی حالات میں آل انڈیا مسلم لیگ کا اجلاس دسمبر1938ء کو پٹنہ میں ہوا اہم ترین کام پورے ہندوستان میں مسلم لیگ کو منظم کرنے کا تھا۔ چنانچہ حضرت قائداعظم کی شبانہ روز محنت و کاوش سے کم و بیش پندرہ ماہ کے دوران میں ہندوستان کے قریباً ہر صوبے میں صوبائی مسلم لیگ قائم کر دی گئی۔ اسی مدت کے دوران میں قانون ساز اسمبلیوں کے ہر ضمنی انتخاب میں طاقتور حریفوں کے مقابلے میں شایان شان کامیابیاں حاصل ہوئیں۔ ایوان بالا کے انتخابات میں مسلم لیگ کو سو فیصد کامیابی حاصل ہوئی۔ہندستان بھر سے آل انڈیامسلم لیگ کا نمائندہ اجلاس اس بار لاہور کے منٹو پارک میں رکھنے کا اعلان کر دیا گیا ۔آج کے دن23 مارچ1940ء کو حضرت قائداعظم کی زیر صدارت میں یہ فقید المثال جلسہ عام تھا جو آزاد مملکت پاکستان کی بنیاد بنا۔ حضرت قائداعظم خطبہ دینے کے لئے کھڑے ہوئے تو تا حد نظر سامعین ہی سامعین اقبال پارک( منٹو پارک) کے وسیع و عریض سبزہ زاروں میں کھڑے اپنے قائد کا استقبال کر رہے تھے۔ بلکہ اردگرد کی چاروں اطراف کی سڑکوں پر دور دور تک اسلامیان ہند ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر کی طرح نظر آ رہے تھے، چشم فلک نے اس عظیم جیسا اجتماع نہ پہلے کبھی دیکھا تھا نہ کبھی کسی کو دیکھنے کو ملا۔ اور حضرت قائداعظم نے اس عظیم الشان اجتماع کی تالیوں کی گونج میں اپنی تقریر کا آغاز کیا۔ درحقیقت اسلامیان ہند کے اس تاریخ ساز مدبر اور بے مثال سیاستدان کی تقریر نے اس وقت ہندو قوم کے نام نہاد رہنمائوں کے اسلام اور مسلم دشمن عزائم کی قلعی کھول کر رکھ دی۔ لاتعداد ایسے نکات کی وضاحت کی جو اس وقت اسلامیان ہند کے علم میں لانا ضروری تھے۔ انہوں نے تقریر کے آغاز میں کھل کر بتایا کہ پٹنہ میں منعقدہ اجلاس میں ایک’’مجلس خواتین‘‘ مقرر کی گئی۔ کیونکہ یہ امر ہمارے لئے بیحد اہم ہے کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ زندگی اور جدوجہد میں ہم اپنی عورتوں کو شریک کرنے کاموقع دیں۔ عورتیں پرد ے میں اور گھر کی چار دیواری میں رہ کر بھی بہت کچھ کر سکتی ہیں۔ انہیں مسلم لیگ کے کام میں شریک کیا جائے، خواتین کو بڑی تعداد میں مسلم لیگ کارکن بنانا تاکہ ان میں سیاسی شعور پیدا کیا جائے ۔
انہوں نے اپنی تقریر میں برطانوی سامراج کی مسلم لیگ اور اسکی قیادت سے بے اعتنائی برتنے کا بھی تذکرہ کیا اور کہا فرنگی حکمرانوں کو جنگ عظیم دوئم چھڑنے کے بعدمسلم لیگ کی سیاسی قوت ہونے کا ادراک حاصل ہوا ۔ ہندو مسلم اتحاد کا واحد حل مخلوط انتخابات کے حوالے سے انہوں نے راج گوپال اچاریہ کے اس بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ گویا کانگرس کے ایک بڑے ڈاکٹر کی حیثیت سے انہوں اپنا نسخہ تجویز کیا ہے۔ (اس پر سامعین میں قہقہے بلند ہوئے) انہوں نے موہن داس کرم چند گاندھی کے مختلف بیانات کا ذکر کرتے ہوئے بڑے خوبصورت پیرائے میں ان کے لتے لئے۔
اس تاریخ ساز دن کے موقع پر نے اپنی تقریر میں دوٹوک موقف بیان کرتے ہوئے قائد اعظم نے کہا کہ اسلام اور ہندو دھرم محض مذاہب نہیں ہیں بلکہ درحقیقت مختلف اور جداگانہ معاشرتی نظام ہیں۔ یہ محض ایک خواب ہے کہ ہندو اور مسلمان کبھی مل کر ایک مشترکہ قومیت تخلیق کر سکیں گے۔ انہوں نے فرمایا ہندو اور مسلمان مختلف مذہبوں، فلسفوں، معاشرتی نظاموں اور ادبیات سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ آپس میں بیاہ شادی نہیں کرتے۔ نہ ایک دسترخوان پر کھانا کھاتے ہیں۔ بلاشبہ یہ بالکل مختلف تہذیبوں سے واسطہ رکھتے ہیں۔ انہوں نے آگے چل کر کہا کہ مسلم ہندوستان کسی ایسے دستور کو قبول نہیں کر سکتا جس کا لازمی نتیجہ ہندو اکثریت کی حکومت کی صورت میں نکلے۔ ایک ایسے جمہوری راج کا مطلب صرف ’’ہندو راج‘‘ ہی ہو سکتا ہے جو اقلیتوں پر زبردستی ٹھونس دیا گیا ہو۔
قائد اعظم نے فرمایا کہ لفظ قوم کی ہر تعریف کی روسے مسلمان ایک علیحدہ قوم ہیں۔ اس لحاظ سے ان کا اپنا علیحدہ وطن ، اپنا علاقہ اور اپنی مملکت ہونی چاہیے ہم چاہتے ہیں کہ آزاد اور خودمختار قوم کی حیثیت سے اپنے ہمسائیوں کے ساتھ امن اور ہم آہنگی کے ساتھ ز ندگی بسر کریں۔ اپنی روحانی، ثقافتی، معاشی، معاشرتی اور سیاسی زندگی کو اس طریق پر تری دیں۔ جو ہمارے نصب العین سے ہم آہنگ اور قوم کے مزاج کے مطابق ہو۔ رہبرِ ملت حضرت قائداعظم نے مزید کہاکہ ہم جانتے ہیں کہ گزشتہ بارہ سو سال کی تاریخ ان دو قوموں میں اتحاد پیدا کرنے سے قاصر رہی ہے۔ مختلف ادوار میں ہندوستان، ہندو ہندوستان اور مسلم ہندوستان کی صورت میں ہمیشہ منقسم رہا ہے ہندوستان کے موجودہ مصنوعی اتحاد کا آغاز انگریزوں کے تسلط سے ہوا تھا اور برقرار ہے تو انگریزی سنگینوں کے باعث، لیکن جب انگریزوں کا تسلط ختم ہو جائے گا تو اتحاد کی یہ عمارت فوراً منہدم ہو جائے گی۔
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ /23 مارچ 1940ء کے اجلاس سے قبل فروری 1940ء میں دہلی میں آل انڈیا مسلم لیگ کی مجلسِ عاملہ کے اجلاس میں مسلمانوں کے لئے علیحدہ وطن کے مطالبے پر بڑی سنجیدگی سے سوچ بچار کی گئی اور طے پایا کہ مارچ کے مہینے میں لاہور میں ہونے والے کھلے اجلاس میں باضابطہ طور پر مسلم لیگ کی جانب سے یہ مطالبہ کیا جائے اسی اجلاس کے دو روز بعد ہی 6 فروری 1940ء کو حضرت قائداعظم نے ہندوستان کے وائسرائے لارڈ لینتھگر کو مطلع کر دیا کہ مسلم لیگ اپنے لاہور کے اجلاس عام میں ہندوستان کی تقسیم کا مطالبہ کرے گی۔
چنانچہ /23 مارچ 1940ء کو منٹو پارک (آج کے اقبال پارک) میں منعقدہ حضرت قائداعظم کی زیر صدارت اجلاس میں بنگال کے وزیر اعظم مولوی اے کے فضل الحق نے قرارداد پیش کی یہی قرارداد لاہور بعد میں قرارداد پاکستان قرار پائی۔ اس قرارداد کی تائید میں مولانا ظفر علی خان، صوبہ سرحد سے سردار اورنگزیب خان، سندھ سے سر عبداللہ ہارون اظہار خیال کیا اور اگلے روز کے اجلاس میں بلوچستان کے مندوب قاضی عیسیٰ ، مدارس کے عبدالحمید خاں، بمبئی کے اسماعیل ابراہیم چندریگر، پنجاب کیڈاکٹر محمد عالم، بہار کے خان بہادر نواب محمد اسمعٰیل خان، سی پی کے سید عبدالرئوف شاہ، یو پی کے ذاکر علی، بیگم محمد علی اور مولانا عبدالحمید بدایونی نے بھی قرارداد کی حمایت میں تقاریر کیں اور پھر حضرت قائداعظم نے اپنا خطبہ صدارت ارشاد فرمایا۔ واضح رہے کہ /23 مارچ 1940ء کی منظور کردہ قرارداد پاکستان کی مزید تشریح کے لیے مرکزی اور صوبائی مجلاسِ قانون ساز منتخب ارکان مسلم لیگ کا ایک اجلاس حضرت قائد اعظم کی زیر صدارت /19 اپریل 1946ء کو دہلی میں منعقد ہوا۔ جس متفقہ طور پر ایک قرارداد منظور کی گئی۔ جس میں واضح کیا گیا کہ ہندوستان کے شمال مشرق میں بنگال اور آسام شمال مغرب میں پنجاب، صوبہ سرحد، سندھ اور بلوچستان یعنی پاکستان کے علاقے جہاں مسلمانوں کو غالب اکثریت حاصل ہے وہاں واحد مقتدر آزاد مملکت کی تشکیل کی جائے اور پاکستان کا بلاتاخیر قیام عمل میں لایا جائے۔
حقیقت یہ ہے کہ /23 مارچ 1940ء کا دن ملت اسلامیانِ ہند کی نشاۃ ثانیہ کے آغاز کا پہلا ایسا قدم تھا جو غیروں کی ڈیڑھ صدی سے کچلی ہوئی مسلمان قوم نے عظیم مدبر، دانشور اور عظیم النظیر قائد محمد علی جناح کی قیادت میں اٹھایا گیا۔ اسی اجلاس عام میں اس قیادت کے حسب حال اس قیادت کے شیدائی میاں بشیر احمد نے اجلاس کے پہلے روز اپنی یہ نظم سنا کر ہندوستان کے کونے کونے سے آئے ہوئوں کے دلوں کو گرما دیا۔ نظم کے کچھ شعر ؎
ملت کا پاسباں ہے محمد علی جناح
ملت ہے جسم، جاں ہے محمد علی جناح
صد شکر پھر ہے گرم سفر اپنا کارواں
اور میرکاروں ہے محمد علی جناح
اس کے بعد پورے ہندوستان میں ’’ملت کا پاسباں ہے محمد علی جناح‘‘ مسلم عوام کے دردِ زبان ہو گیا۔ اس حقیقت کا اظہار بھی بے جا نہیں ہو گا کہ جس روز سعید کو قرار داد پاکستان منظور ہوئی اسی روز نوائے وقت مطلع صحافت پر طلوع ہوا۔ اس وقت نوائے وقت پندرہ روزہ اخبار کی صورت میں اپنے بانی حمید نظامی کی زیر ادارت شائع ہوا۔ حمید نظامی نے /23 مارچ 1940ء کو اقبال پارک (ماضی کے منٹو پارک) میں منعقدہ جلسہ عام کی رپورٹنگ خود کی تھی چنانچہ /29 مارچ 1940ء کو نوائے وقت میں حمید نظامی نے ’’لیل و نہار‘‘ کے عنوان سے /23 مارچ 1940ء کے اجلاس میں منظور کردہ قرارداد کے حوالے سے لکھا تھا…مسلم لیگ کے اجلاس لاہور نے اسلامی ہند کی سیاست کی تاریخ ایک نہایت اہم باب کا اضافہ کیا ہے۔ مسلم لیگ نے اپنی 37 سالہ زندگی میں پہلی مرتبہ مسلمانان ہند کے سامنے ایک واضح اور غیر مبہم نصب العین رکھا ہے۔ اسی قرارداد سے لیگ نے ایک بات کا فیصلہ کر دیا ہے کہ جہاں تک مسلم لیگ کا تعلق ہے وہ ہندوستان میں متحدہ قومیت کے نظریہ کو تسلیم کرنے سے انکار کرتی ہے۔ مسلمان ایک علیحدہ قوم ہیں اور ہندو ایک علیحدہ قوم اب اگر ہندوئوں اور مسلمانوں کے مابین کوئی سمجھوتہ ہو تو اسکی بنیاداسی اصول پر ہونی چاہیے کہ مسلمان ایک فرقہ نہیں بلکہ ایک مستقل قوم ہیں۔ آج ملک وقوم کو انگریز کی غلامی اور ہندو اکثریت کے جبر سے آزاد ہوئے 77 برس بیت گئے آزاد مملکت کے باسی اپنے بزرگوں اور اسلامیان ہند کے قائدین کو سلام پیش کرتے ہیں جن کے اخلاص و ایثار کے نتیجے میں ہم آزاد فضا میں سانس لے رہے ہیں مگر یہ امر بھی قابل افسوس ہے کہ انگریز راج سے چھٹکارا پا کر آج بھی ہم اس کے عالمی مالیاتی نظام کے نرغے میں اسیر بنے چلے آرہے ہیں اور ہمارا آزادی کا خواب اس کے اصل مقاصد کی تکمیل چاہتا ہے،جس کیلئے اس گلشن کو خون دے کر سینچا گیا۔