یوم پاکستان اور شہادتوں کا سلسلہ، علی امین گنڈا پور کی نامناسب گفتگو اور شاہد خاقان کی خواہش!!!!!
آج یوم پاکستان ہے، ہم یہ تاریخی دن بھی مختلف مسائل میں منا رہے ہیں۔ موجودہ حالات میں یہی باعث اطمینان ہے کہ ہم 23 مارچ منا رہے ہیں۔ ملک کو امن و امان کے مسائل کا بھی سامنا ہے۔معیشت نڈھال ہے، غربت و بے روزگاری ہے، صحت و تعلیم کے شدید مسائل کا سامنا ہے۔ دیرینہ مسائل تو اپنی جگہ ہیں، آج بھی یہ مسائل منہ کھولے کھڑے ہیں، سیاسی قیادت اپنی ذمہ داریاں نبھاتی تو شاید حالات بہتر ہوتے لیکن دوسری طرف افواج پاکستان کے جوان آج بھی ملکی دفاع کے لیے قیمتی جانوں کی قربانی پیش کر رہے ہیں۔ ملک دشمنوں کا مقابلہ کر رہے ہیں، اندرونی و بیرونی دشمنوں کا خاتمہ کرنے میں مصروف ہیں۔ گذشتہ چند ہفتوں میں پاکستان نے ایران اور افغانستان میں بھی پاکستان کے امن دشمنوں کو نشانہ بنایا ہے۔ افواج پاکستان کے افسران اور جوان ہر روز وطن پر جانیں قربان کر رہے ہیں۔ دو روز قبل بھی ڈیآئی خان میں سکیورٹی فورسز کے قافلے پر خود کش حملے میں پاک فوج کے دو جوان شہید ہوئے ہیں۔
آئی ایس پی آر کے مطابق خود کش بمبار نے اپنی گاڑی سکیورٹی فورسز کے کانوائے سے ٹکرائی جس کے نتیجے میں دو اہلکار نائب صوبیدار یاسر شکیل اور سپاہی طاہر نوید شہید ہوئے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق سکیورٹی فورسز دہشت گردی کی لعنت کو ختم کرنے کے لیے پرعزم ہیں، ہمارے بہادر سپاہیوں کی ایسی قربانیاں ہمارے عزم کو مزید مضبوط کرتی ہیں، اس بزدلانہ حملے کے ذمہ داروں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا۔ چند روز قبل شمالی وزیرستان کے علاقے میر علی میں دہشت گردوں نے سکیورٹی فورسز کی چیک پوسٹ پر حملہ کیا تھا جس میں پاک فوج کے دو افسروں سمیت آٹھ جوان شہید ہوئے تھے۔ یہی فوجی افسران اور جوان دشمنوں کے لیے سب سے بڑا خوف ہیں۔ آج بھی ہمارے محافظ قیمتی جانوں کا نذرانہ دے کر ہمارا مستقبل محفوظ بنانے میں مصروف ہیں۔
وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور کہتے ہیں کہ وزیراعظم شہباز شریف خود فارم 47 والے ہیں ان سے انتخابی دھاندلی پر کیا بات کروں۔ کام کرنے کے بہتر ماحول کو قائم کرنے کے لیے علی امین گنڈا پور پر لازم ہے کہ وہ غیر ضروری بیانات سے گریز کریں۔ اگر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ انتخابات میں ان کے ساتھ کوئی ناانصافی ہوئی ہے تو اس کے لیے متعلقہ فورمز موجود ہیں وہاں رجوع کریں۔ اس سے ہٹ کر غیر ضروری بیانات سے صرف اور صرف تلخیاں ہی پیدا ہوں گی۔ میاں شہباز شریف ملک کے وزیراعظم ہیں اور علی امین گنڈا پور ایک صوبے کے وزیر اعلیٰ ہیں ان حالات میں بہتر یہی ہے کہ غیر ضروری بیان بازی سے گریز کریں۔ ملک کو اتحاد اور اتفاق کی ضرورت ہے، ملک کو یکجہتی اور برداشت کی ضرورت ہے۔ ہر وقت دوسروں پر سیاسی نشانے بازی اور بیانات سے کچھ حاصل نہیں ہونا اور یہ ہم گذشتہ دس پندرہ برس میں بالخصوص دیکھ چکے ہیں اس لیے بہتر یہی ہے کہ تعمیری گفتگو کریں۔ اچھا بولیں ورنہ خاموش رہیں۔ خاموشی غیر ضروری بیانات سے بہت بہتر ہے۔
بانی پی ٹی آئی نے آئی ایم ایف پیکج پر حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا ہے، آگے چل کر ان کا بیان بھی آپ کے سامنے رکھتا ہوں لیکن پاکستانی سیاست کی سب سے تکلیف دہ بات یہی ہے کہ وہ کام جو خود کیا جائے اچھا لگتا ہے کوئی اور کرے تو برا لگتا ہے۔ اپنے عمل پر دلائل پیش کیے جاتے ہیں، دوسروں کے اعمال اور فیصلوں کی خامیاں ڈھونڈی جاتی ہیں۔ تنقید کا پہلو تلاش کیا جاتا ہے۔ معصوم اور سادہ لوح لوگوں کے جذبات بھڑکائے جاتے ہیں۔ یہی کام بانی پی ٹی آئی کر رہے ہیں۔ میں شاہ محمود قریشی کے بیٹے زین قریشی کو سن رہا تھا وہ فرما رہے تھے کہ ہمیں آئی ایم ایف کے پاس جانا چاہیے۔ پاکستان تحریک انصاف کی وکلاء قیادت نے بھی آئی ایم ایف کے پاس جانے اور آئی ایم ایف پروگرام کی حمایت میں بیانات جاری کیے لیکن بانی پی ٹی آئی اندر بیٹھ کر مختلف بیانات جاری کر رہے ہیں۔ یعنی یا تو باہر والوں کو حالات کی سمجھ نہیں ہے یا پھر اندر بیٹھے ان کے قائد سب سے زیادہ باخبر ہیں اور وہ حالات کو سب سے بہتر سمجھتے ہیں۔
بہرحال یہ خود آئی ایم ایف کے پاس جا چکے، معاہدہ کیا توڑ دیا اس لیے اگر اب بھی ایسے بیانات کو بنیاد بنا کر کوئی اپنے لیڈر کی تعریفیں کرے تو لیڈر سمیت سب کے سب قابل رحم ہیں۔ بہرحال پڑھ لیجیے کہ پاکستان تحریک انصاف کے بانی عمران خان نے کیا کہا ہے۔ پی ٹی آئی کے بانی سربراہ کہتے ہیں کہ " آئی ایم ایف پروگرام سے مہنگائی کا طوفان آئے گا، یہ حکومت پانچ چھ ماہ سے زیادہ نہیں چلے گی۔"
یہ خان صاحب کی پیش گوئی ہے یا سیاسی سوچ بہرحال جو بھی ہے قابل مذمت ہے اس بیان کے دو حصے ہیں۔ ایک آئی ایم ایف پروگرام پر تنقید دوسرا حکومت کی مدت۔
مان لیں کہ آئی ایم ایف کے پاس جانے سے مہنگائی کا سیلاب آئے گا۔ یہ بات تو پاکستان کا ہر دوسرا شخص جانتا ہے کیا ایک مقبول سیاسی لیڈر کو بھی وہی بات کرنی چاہیے جو سوچ ایک شہری رکھتا ہو۔ بانی پی ٹی آئی کو بتانا چاہیے کہ آئی ایم ایف، ورلڈ بینک یا دوست ممالک سے قرض نہ لیا جائے تو پھر کیا ہونا چاہیے، اس ضمن قوم کی رہنمائی فرمائیں اور قوم کو یہ بھی بتائیں کہ جتنا عرصہ وہ خود حکومت میں رہے اس وقت انہیں آئی ایم ایف کشکول توڑنے کے لیے اقدامات کیوں نہیں کیے، کون تھا جو انہیں روکتا، کون انہیں قائل کرتا رہا اور وہ خود کیوں قائل ہوئے، کیوں انہوں نے بحثیت وزیراعظم متبادل ذرائع پر کام نہیں کیا، کیوں وہ جھکتے چلے گئے، کیوں معاہدہ کیا اور کیوں معاہدہ توڑا کیا، کون تھا جس کے کہنے پر خان صاحب آنکھیں بند کر کے دستخط کرتے چلے گئے، ایسی فکر کا مظاہرہ اس وقت کیوں نہیں گیا۔ بہرحال اب وہ "اندر" تو انہیں یہ ضرور چاہیے کہ قرض کے معاملے میں اپنی جماعت کے اہم لوگوں سے بات چیت ضرور کر لیں۔ کیونکہ ان کی باہر والی قیادت تو آئی ایم ایف کے پاس جانے کی حمایت کر چکی ہے۔ اگر خان صاحب کو مہنگائی نظر آ رہی ہے تو پھر انہیں اپنی سیاسی قیادت کو بھی یہ پیغام پہنچانا چاہیے کہ آئی ایم ایف بل کی حمایت کرنی ہے یا اس کی مخالفت میں ووٹ دینا ہے۔ دکھوں ماری قوم کی رہنمائی کریں، مصائب سے دوچار قوم کے زخموں پر نمک پاشی سے گریز کریں۔ قوم کو بھی چاہیے کہ ہوش کے ناخن لے۔ قیادت کے قول و فعل کا جائزہ لینا اور احتساب کرنا بھی تو قوم کی ذمہ داری ہے اگر قوم نے آنکھیں بند کر رکھی ہیں، عقل کو تالے لگا دئیے ہیں تو پھر اس کا مطلب ہے کہ جو ہو رہا ہے وہ ٹھیک ہو رہا ہے۔ اگر ایسے ہی قیادت کو آزادی دینا چاہتے ہیں تو پھر بھگتیں نہ وہ ٹھیک ہوں گے نہ حالات بدلیں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ اگر بانی پی ٹی آئی یہ سمجھتے ہیں کہ حکومت چند ماہ کی مہمان ہے تو قوم کی رہنمائی فرمائیں کہ اس کے بعد کیا ہونے والا ہے، کیا ہو سکتا ہے، کیا پاکستان ایک اور عام انتخابات کا متحمل ہو سکتا ہے، کیا اس سے ملک کو فائدہ ہو گا یا نقصان، اگر حکومت نہیں چلتی سیاسی استحکام نہیں آتا تو پھر معاشی استحکام کیسے آئے گا۔ اگر معیشت مستحکم نہیں ہو گی تو مسائل کیسے حل ہوں گے۔ یہ وہ سوالات ہیں جو ذہنوں میں ہیں لیکن بانی پی ٹی آئی اس کا جواب نہیں دیں گے کیوں کہ ان کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں ہے۔ سو ہوش کے ناخن لیں، لوگ اپنی آنکھیں کھولیں عقل سے کام لیں، ملک کو چلانے والی حکمت عملی اور سوچ کے ساتھ آگے بڑھیں، دشمن ہمیں کاٹنا چاہتا ہے اور اس کے لیے سب سے آسان اندرونی تقسیم ہے اور تقسیم کی اس سے بہتر مثال نہیں ملے جن حالات کا ہمیں سامنا ہے اس سے تشویشناک حالات نہیں ہو سکتے۔ اگر ان حالات میں بھی آپ کا دماغ درست سوچ کی طرف نہیں گھومتا تو پھر یاد رکھیں یہ وقت دوبارہ نہیں آنے والا، آپ سب پچھتائیں گے، اس سے پیشتر کہ دیر ہو جائے بہتر یہی ہے کہ ہوش میں آئیں۔
دوسری طرف سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کہتے ہیں کہ" حکومت کی ذمہ داری ہے کہ نیب کے قوانین واپس لے۔ وزیراعظم اورصدر دونوں نیب کی جیلیں لمبا عرصہ گزارچکے ہیں، تمام وزرائے اعلیٰ بھی نیب میں شامل تفتیش ہوئے، نیب کا تماشا اب ختم ہونا چاہیے، پانچواں سال نیب عدالتوں میں شروع ہو گیا پہلے بھی نو سال لگے۔ نیب کے خوف سے ملک کا کوئی افسرکام کرنے کو تیارنہیں، حکومت کی ذمہ داری ہے کہ نیب کے قوانین واپس لے۔ سنا تھا مسلم لیگ (ن) نے کہا ہے کہ نیب کو ختم کریں گے۔"
شاہد خاقان صاحب نے حکومت سے نیب کو ختم کرنے کی اپیل تو کر دی ہے لیکن کیا وہ اس کی ضمانت دیتے ہیں کہ ملک و قوم کا خزانہ لوٹنے والوں کے لیے بھی کوئی سزا ہونی چاہیے۔ کون لوگ ہیں وہ جو حکومت میں آنے کے بعد امیر ہوئے، ان کی دولت میں اضافہ ہوا اور کسی نے نہیں روکا۔ نیب قوانین ختم کر دیں لیکن کوئی ایسا قانون ضرور متعارف کروائیں کہ اگر کسی نے قومی خزانے کو نقصان پہنچایا تو اسے دنوں میں نشان عبرت بنایا جائے گا۔ اگر تو آپ صرف اس کیے نیب ختم کرنا چاہتے ہیں کہ وہ صرف سیاست دانوں کو بلایا جاتا ہے تو یہ بھی غلط ہے۔ وہاں زندگی کے مختلف شعبوں سے لوگ پیشیاں بھگت رہے ہیں۔ اگر سیاست دانوں کو لگتا ہے کہ صرف انہیں بلایا جاتا ہے تو یہ غلط ہے۔ سو یہ کام سیاسی قیادت کا ہے وہ اعتماد کی ایسی فضا قائم کریں جہاں کرپشن کی سوچ رکھنے والا ہر شخص ہر وقت خوف میں مبتلا رہے۔ مسئلہ پیشیاں ہرگز نہیں مسئلہ وہ سوچ ہے جو کسی کو پھنسانے اور کسی کو نکالنے کا کام کرتی ہے۔
آخر میں قتیل شفائی کا کلام
تمہاری انجمن سے اٹھ کے دیوانے کہاں جاتے
جو وابستہ ہوئے تم سے وہ افسانے کہاں جاتے
نکل کر دیر و کعبہ سے اگر ملتا نہ مے خانہ
تو ٹھکرائے ہوئے انساں خدا جانے کہاں جاتے
تمہاری بے رخی نے لاج رکھ لی بادہ خانے کی
تم آنکھوں سے پلا دیتے تو پیمانے کہاں جاتے
چلو اچھا ہوا کام آ گئی دیوانگی اپنی
وگرنہ ہم زمانے بھر کو سمجھانے کہاں جاتے
قتیل اپنا مقدر غم سے بیگانہ اگر ہوتا
تو پھر اپنے پرائے ہم سے پہچانے کہاں جاتے