قرارداد پاکستان اور موجودہ پاکستان
سر سید وہ پہلے شخص تھے جنہیں ہندوستان میں سب سے پہلے دو قومی نظریے کا ادراک ہوا اور جسے انہوں نے دلائل کے ساتھ پیش کر کے ثابت بھی کیا۔ انکے انتقال کے تقریباً 42سال بعد قراردا د پاکستان پیش کی گئی جو ایک طرح سے سرسید کے افکار و نظریات کی عملی شکل تھی۔ جس کے نتیجہ میں 14 اگست کو دنیا کے نقشے پر پاکستان کا ظہور ممکن ہوا۔ آزادی کی تحریک اور مسلمانوں کی نشاة الثانیہ میں جن عظیم شخصیتوں نے مو¿ثر کردار ادا کیا ان میں اقبالؒ کا نام سرفہرست ہے۔ ان کی انقلابی نظموں اور اشعار نے مسلمانوں میں وہ شعور بیدار کیا جو اسلام کی اصل روح کے مطابق تھا۔ ان کی شاعری میں دلوں کو تسخیر کرنے کی قوت تھی۔ یہ اقبال کی شاعری تھی جس نے مسلمانوں میں نہ صرف آزادی کی روح پھونکی بلکہ عمل کی راہیں بھی متعین کیں۔ علامہ اقبال مسلمانوں کے وہ عظیم مفکر ہیں جنہوں نے نظریاتی بنیادوں پر مسلم ریاست کا ایسا تصور پیش کیا جو مثبت اخلاقی قدروں پر مشتمل تھا۔ انکے فلسفہ اور فکر نے مسلمانوں کی سیاسی قیادت کو یہ تصور دیا کہ مسلمان ایک الگ نظامِ حیات اور تہذیب کے نمائندہ ہیں جس کی بنیادیں دین فطرت یعنی توحید اور رسالت پر استوار ہیں۔ مسلمان نہ انگریزوں کے غلام رہ سکتے ہیں اور نہ کسی ہم وطن قومیت کے چکر میں کسی اکثریت کے دست نگر بن سکتے ہیں۔ یورپ کے قیام کے دوران مغربی تاریخ کے تجرباتی اور قرآن کی علمی حقیقت نے اقبال کے ذہن میں سیاسی بصیرت اور فہم و فراست کی جو شان پیدا کی اس کے تحت ان کے خیالات میں انقلابی تبدیلی پیدا ہوئی۔ انہوں نے پروفیسر نکلسن کو لکھا کہ : ”اسلام ہی نہیں بلکہ کائنات میں انسانیت کا سب سے بڑا دشمن رنگ و نسل کا عقیدہ ہے۔“
قومیت کے اسلامی تصور کو پروان چڑھانے اور پھلنے پھولنے کا موقع دینے کیلئے اقبال نے علیحدہ ریاست کے حصول تک رسائی کیلئے اپنی عملی جدوجہد میں خطبہ الٰہ آباد کے ذریعے واشگاف الفاظ میں کہا تھا کہ میرے نزدیک ”فاشزم، کمیونزم اورزمانہ حال کے دوسرے ازم کوئی حقیقت نہیں رکھتے۔ میرے عقیدے کی رُو سے صرف اسلام ہی ایک حقیقت ہے جو بنی نوع انسان کیلئے ہر نکتہ¿ نگاہ سے موجب نجات ہے۔“
اس حقیقت تک رسائی کیلئے اقبال نے سیاسی بیداری، اتحاد اور قوتِ بازو پر بھروسہ کرنے پر زور دیتے ہوئے الٰہ آباد کے تاریخ ساز اجلاس میں جس مسلم ریاست کے قیام کا تصور پیش کیا اس تصور کو اس وقت مسلط انگریز حکومت اور ہندوﺅں کی متحد اسلام دشمن قوتوں نے محض ایک خواب ہی سمجھا لیکن اقبال کے نزدیک یہ ایک ایسی ناگزیر حقیقت تھی جس کو زیادہ عرصہ تک ٹالا نہیں جا سکتا تھا اور یہ حقیقت بالآخر اپنی مجسم شکل میں آج دنیا کے سامنے موجود ہے۔ بانی پاکستان محمد علی جناح جنہوں نے اپنے سیاسی سفر کا آغاز انڈین نیشنل کانگریس سے کیا تھا، ابتداءمیں وہ بھی ہندو مسلم اتحاد کے داعی تھے۔ ایک کانگریسی اخبار نے انہیں ”ہندو مسلم اتحاد کا سفیر“ قرار دیا لیکن قائد اعظم کے نظریے ہندو مسلم اتحاد کی خوش فہمی اس وقت ختم ہو گئی جب ”نہرو رپورٹ “ کے مقاصد کے حصول کیلئے کانگریس نے مسلمانوں کی شمولیت کے باوجود ان کی حیثیت کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ : ”ہندوستان میں صرف دو طاقتیں ہیں ایک کانگریس اور دوسری طاقت حکمران یعنی انگریز۔“
قائد اعظم نے اسی وقت یہ جواب دیا کہ : ”نہیں ایک تیسری طاقت بھی ہے اور وہ ہے مسلمان جس کی نمائندگی مسلم لیگ کرتی ہے۔“ ان الفاظ کے ساتھ ہی ”دو قومی نظریہ“ ایک حتمی شکل اختیار کر گیا۔ لہٰذا قائد اعظم نے 17 اپریل 1938ءمیں مسلم لیگ کے اجلاس میں کہا کہ : ”مسلمان اپنے حق کیلئے اس وقت تک برسرِ پیکار رہیں گے جب تک ہندو راج کا خواب و خیال کانگریس کے دل و دماغ سے ختم نہ ہو جائے۔ جب تک مسلمانوں کے قالب میں روح رہے گی کانگریس کا غلام بننا ہرگز ہرگز گوارہ نہ کریں گے۔“یہاں تک کہ 23 مارچ 1940ءکو لاہور میں مسلم لیگ کے تاریخی اجلاس میں پیش کی گئی قرارداد پاکستان کانگریس کے برصغیر پر راج کرنے کے خواب کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوئی۔اس تاریخی اجلاس میں قائد اعظم نے اس بات کا اعادہ کیا کہ اسلام اور ہندو دھرم محض مذاہب نہیں بلکہ درحقیقت دو مختلف تہذیبیں اور جداگانہ معاشرتی نظام ہیں جن کی بنیادیں ایسے تصورات اور حقائق پر قائم ہیں جو ایک دوسرے کی نہ صرف ضد ہیں بلکہ اکثر اوقات یہ تصورات اور حقائق ایک دوسرے سے متصادم بھی ہیں ۔ انہوں نے دنیا کے سامنے ان حقائق کو پیش کرتے ہوئے سوال کیا کہ ایسی دو قومیں جن کے مذاہب، تہذیب، تاریخ، ہیرو، قابل فخر کارنامے غرض ہر چیز ایک دوسرے کی ضد ہوں اور ایک دوسرے سے متصادم ہوں انہیں گاڑی کے دو پہیے بنانے کا نتیجہ تباہی کے علاوہ اور کیا ہو سکتا ہے۔ قائد اعظم نے 1943ءمیں مسلم لیگ کراچی کے اجلاس میں کہا کہ : ”ایک خدا ، ایک قرآن، ایک رسول، ایک اُمت یہی ہمارا نعرہ ہے۔“
الغرض بہت ہی قربانیوں کے بعد 14اگست 1947ءکو زمین کا یہ ٹکڑا حاصل کر لیا گیا۔ لیکن پاکستان کے حصول اور ایک طویل عرصہ گزرنے کے بعد بھی آج بھی ایک سوال بدستور اپنی جگہ قائم ہے کہ غلامی سے آزادی اور کامیابی کی منزل تک رسائی کے بعد پوری قوم پر کون سی ذمہ داریاں اور فرائض عائد ہوتے ہیں جن کوپورا کیے بغیر کوئی قوم ترقی یافتہ قوم نہیں بن سکتی۔ آئیں اس سوال کا جواب قائد اعظم کی اس بات میں تلاش کریں جو انہوں نے حصول پاکستان کے بعد 1947ءمیں لاہور کے ایک جلسے میں کہی تھی۔
”ہم میں سے ہر شخص نہ صرف پاکستان کے لئے اپنا سب کچھ قربان کرنے کا عہد کرے بلکہ اس عزم کا بھی اظہار کرے کہ ہمیں پاکستان کو اسلام کا قلعہ بنانا ہے اور ایسی قوموں کی صف میں کھڑا کرنا ہے جن کا مقصد پاکستان کے اندر ہی نہیں بلکہ ہر جگہ امن قائم کرنا ہو۔“
آئیں اپنے اپنے گریبانوں میں جھانکیں کہ آج 76سال بعد بھی ہم نے پاکستان کیلئے اپنا سب کچھ قربان کرنے کی بجائے پاکستان کو لوٹ لوٹ کر اس حد تک کھوکھلا کر دیا ہے کہ آج دنیا ہمیں ”بھکاری“ سمجھتی ہے۔ انگریزوں، ہندوﺅں وغیرہ سے آزاد کرانے کیلئے ہمارے اسلاف نے شب و روز جو جدوجہد کی۔ آج 76سال بعد آج بھی ہم ذہنی، جسمانی، مالی طور پر بھی اُن کے غلام ہیں، ہم آج تک اپنی منزل کا تعین نہیں کر سکے۔ قائد اعظم کے اس فرمان : ” اتحاد، ایمان اور تنظیم کو ہم یکسر فراموش کر چکے ہیں۔ حقیقی آزادی اور حقیقی جمہوریت کی بجائے ہم 76سال بعد بھی ”مافیاز“ کے شکنجے میں ہیں ہماری صورتِ حال یہ ہے کہ :
قافلہ حجاز میں ایک حسین بھی نہیں