عمران سے ملاقات، سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل نے عدالت سے معافی مانگ لی: آن لائن کرانے سے انکار
اسلام آباد (وقائع نگار+ نوائے وقت رپورٹ) سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل نے بانی پی ٹی آئی سے ملاقات نہ کرانے پر توہین عدالت کیس میں غیر مشروط معافی مانگ لی۔ جسٹس ثمن رفعت امتیاز نے بانی پی ٹی آئی سے ملاقات نہ کرانے پر توہین عدالت کی درخواستوں پر سماعت کی۔ عدالت نے سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل کے جواب پرعدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے عدالتی حکم پرعمل نہ کرنے کے اپنے اقدام کا جواز دینے کی کوشش کی، آئندہ سماعت پر اس متعلق عدالت کو مطمئن کریں۔ بعد ازاں عدالت نے 26 مارچ کو درخواست گزاروں کی بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کرانے کا حکم جس میں علامہ ناصرعباس، شہریار آفریدی، شاندانہ گلزار اور فردوس شمیم نقوی کی بھی ملاقات کرانے کا حکم دیا گیا ہے۔ دوسری جانب جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے عمران سے وکلا کی ملاقات کیلئے دائر درخواست پر سماعت کی جس سلسلے میں ایس پی اڈیالہ جیل عدالت میں پیش ہوئے۔ سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل نے عدالت کو بتایا کہ جیل رولز میں آن لائن ملاقات کی اجازت نہیں اس لیے ملاقات نہیں کرا سکتے، تھریٹ الرٹس کی وجہ سے 12 مارچ سے ملاقاتیں نہیں کرائی جارہی ہیں۔ عدالت نے کہا کہ میڈیا میں تھا کہ وزیراعلیٰ پنجاب نے کوٹ لکھپت جیل میں آن لائن ملاقاتوں کا اعلان کیا، وزیراعلیٰ نے تو فخریہ کہا کہ پورے ایشیا کی پہلی جیل ہے جہاں یہ سہولت دے رہے ہیں، اگرجیل رولز میں اجازت نہیں توکوٹ لکھپت جیل میں غیرقانونی کام کیسے شروع ہوگیا؟ جیل اتھارٹیز اپنے جواب میں یہ کہہ رہی ہیں کہ وزیراعلیٰ پنجاب کا اقدام غیرقانونی ہے؟ آپ کہہ رہے ہیں عدالتی حکم پر عمل نہیں کیا جاسکتا، ترمیم کی ضرورت ہے۔ عدالت کے ریمارکس پر اسٹیٹ کونسل نے استدعا کی کہ ہمیں مزید ہدایات لینے کیلئے کچھ وقت دے دیں، اس پر عدالت نے کہا کہ آئندہ سماعت پر جواب دیں، ایڈووکیٹ جنرل آئندہ سماعت پر اپنی واضح پوزیشن لیں۔ بعد ازاں عدالت نے درخواست پر مزید سماعت 29 مارچ تک ملتوی کردی۔جسٹس اعجاز اسحاق نے کہا کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ عدالتی حکم پر عمل نہیں کیا جا سکتا، ترمیم کی ضرورت ہے۔عدالت نے کہا کہ ہدایات لینے کی کوئی ضرورت نہیں، سپرنٹنڈنٹ جیل کہہ رہے ہیں کہ رولز اجازت نہیں دیتے، ایک ہی حکومت نے ایک جیل میں آن لائن میٹنگ سے منع کیا جبکہ دوسری میں خود فخریہ وہی کیا۔عدالتی معاون نے بتایا کہ سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل کا مؤقف پنجاب حکومت سے الگ نہیں ہونا چاہیے، وہ ان کے ماتحت ہیں۔شیر افضل مروت نے کہا کہ کوٹ لکھپت میں فخریہ اعلان کیا لیکن یہاں عدالت سے چھپن چھپائی کھیل رہے ہیں۔جسٹس اعجاز اسحاق خان نے کہا کہ ہم نے اس نکتے کو جلد ہی طے کرنا ہے، زیادہ وقت نہیں ہے، سوال اب یہ ہے کہ جیل میں ملاقات میں سیاسی گفتگو ہو سکتی ہے یا نہیں، اگر ہم نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ سیاسی گفتگو ہو سکتی ہے تو پھر ترمیم کرنا ہو گی، یہ معاملہ حل ہونے دیں، آن لائن میٹنگ کو اب روکا نہیں جا سکتا، اگر یہ کہیں گے کہ آن لائن میٹنگ نہیں کروا سکتے تو پوری دنیا میں مذاق اڑے گا، ملک میں 200 سینئر سول افسر غیر قانونی حکم ماننے سے انکار کر دیں تو نظام ٹھیک ہو جائے گا، 200 افسر ایک ساتھ یہ کر لیں تو یہ سلسلہ رک جائے گا۔شیر افضل مروت نے کہا کہ عدالت اگر 200 سول سرونٹس کو جیل بھیج دے تو بھی بہتری ہو سکتی ہے۔جسٹس اعجاز اسحاق خان نے کہا کہ ایک جگہ لکھا ہوا کاغذ ہے اور دوسری جگہ اس کے سر پر بندوق ہے، دوسری طرف اس کے گھر والوں اور اس کے کیریئر کو خطرہ ہے، جب تک دو تین سو ایک نظریے کے لیے قربانی نہیں دیں گے یہ ایسے ہی رہے گا، ہم کیوں یہاں بیٹھ کر دکھاوا کر رہے ہیں؟شیر افضل مروت نے کہا کہ جو طاقت قلم میں ہے وہ بندوق میں بھی نہیں ہے، ایک آرڈر سے دیکھیں ڈی سی اسلام آباد کا کیا حال ہوا ہے۔اسٹیٹ کونسل عبدالرحمٰن نے کہا کہ کوٹ لکھپت کی پیش رفت کے بعد اب ہم نئی ہدایات لیں گے۔عدالت نے استفسار کیا کہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ آن لائن ملاقاتیں ایک جیل میں قانونی اور دوسری میں غیر قانونی کیسے ہیں؟ ایڈووکیٹ جنرل آئندہ سماعت پر اپنی واضح پوزیشن لیں، وزیرِ اعلیٰ پنجاب کا اعلان غیر قانونی تھا یا جیل اتھارٹیز کا خط، آئندہ سماعت پر جواب دیں۔جسٹس اعجاز اسحاق نے سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل سے سوال کیا کہ کیاآپ کو جیل میں زیادہ خطرہ ہے؟ کل پرسوں اتنا بڑا مارچ ہونے جا رہا ہے، اس کو تھریٹ نہیں ہے؟ کل ہزاروں لوگ سڑکوں پر ہوں گے، جہاز اڑیں گے، ان کو تھریٹ نہیں؟ اس بات میں مجھے نیک نیتی نظر نہیں آئی کہ وہاں تھریٹ ہے اور یہاں نہیں ہو گی۔