داعش اور طالبان عالمی امن کیلئے خطرہ
روس کے دارالحکومت ماسکو میں کنسرٹ کے دوران چار مسلح افراد نے فائرنگ کر دی۔ فائرنگ سے 40 افراد ہلاک اور 100سے زائد زخمی ہو گئی۔ داعش نے سماجی رابطوں کی ایپلی کیشن ٹیلی گرام پر اس حملے کی ذمہ داری قبول کر لی۔
افغانستان میں آج کی طالبان حکومت علاقائی امن کے لیے شدید ترین خطرہ بنی ہوئی ہے تو داعش عالمی امن کے لیے خطرہ ہے۔کبھی یہ دونوں تنظیمیں مل کر کارروائیاں کرتی تھیں کبھی ان کے مابین اختلافات درآتے ہیں اور ایک دوسرے کے خلاف بھی یہ برسر پیکار ہو جاتی ہیں۔داعش کے جن ملکوں میں مضبوط ٹھکانے ہیں ان میں افغانستان بھی ہے۔دونوں تنظیموں کے کم و بیش ایک جیسے ہی مقاصد ہیں۔داعش خصوصی طور پر اپنے مقاصد دہشت گردی کی بنیاد پر حاصل کرنا چاہتی ہے۔یہ عالمی سطح پر اپنی طرز کی شریعت کے نفاذ کے لیے کوشاں ہے۔افغان سرزمین پڑوسی ممالک کے ساتھ ساتھ عالمی امن کے لیے بھی تباہی کی علامت بنتی جا رہی ہے۔بھارت کے ایما پر افغانستان سے پاکستان میں دہشت گردی کی جاتی ہے۔باڑ کے باوجود پاک افغان سرحد آئے روز گولا باری کی وجہ سے غیر محفوظ ہو چکی ہے۔طالبان حکومت اگر چاہے تو افغانستان سے داعش کو بے دخل کر سکتی ہے۔پرامن افغانستان ہی علاقائی اور عالمی امن کی ضمانت بن سکتا ہے۔مگر یہ اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک طالبان اپنے انہی نظریات پر قائم رہتے ہیں جن پر وہ چل رہے ہیں اور داعش بھی افغانستان کے ذریعے روس تک میں دہشت گردی کے لیے آزادی کے ساتھ بروئے کار رہتی ہے۔ اقوام متحدہ کی بے عملی اور اسکے کٹھ پتلی ہونے کی وجہ سے ہی افغانستان، اسرائیل اور بھارت جیسے دہشت گرد ملک علاقائی اور عالمی امن کیلئے خطرہ بن چکے ہیں اور داعش بھی اپنے خلاف عالمی کارروائیوں سے محفوظ ہے۔اگر انکے ہاتھ نہ روکے گئے تو کرہ ارض کی تباہی کے ذمہ دارعالمی ادارے اور طاقتیں ہونگی۔