اتوار‘ 13 رمضان المبارک 1445ھ ‘ 24 مارچ 2024ئ
رمضان کا دوسرا عشرہ شروع۔ غریبوں کو مہنگائی سے نجات نہ مل سکی۔
اللہ کے فضل سے رمضان المبارک کا پہلا عشرہ رحمت خیر و خوبی کے ساتھ اختتام پذیر ہوا۔ موسم اچھا رہا۔ یعنی قدرت کو روزے داروں پر ترس آیا اور سورج نے ابھی تک آنکھیں دکھانا شروع نہیں کیں۔ مارچ عام طور پر پنجاب اور سندھ میں گرمی کے آغاز کا سندیسہ لاتا ہے۔ مگر موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ابھی وہ رنگ نہیں جما۔ ذرا گرمی ہوتی ہے تو بادل آ کر برستے ہیں یا ہوائیں متعدل ہو جاتی ہیں۔ یہ تو قدرت کے رمز ہیں۔ اسی لیے تو کہتے ہیں
اوپر والا ویری گڈ ویری گڈ
نیچے والے ویری بیڈ ویری بیڈ
سو وہی ہم سب دیکھ رہے ہیں۔ اللہ تو اپنے بندوں پر مہربان ہے مگر اللہ کے بندوں نے اپنے بھائی بندوں کی زندگی اجیرن کر رکھی۔ کوئی بھی کسی پر ترس کھانے کو تیار نہیں ہو رہا۔ دس دن کی روزے داری کے باوجود خدا جانے کیسے پتھر دل لوگ ہمارے اردگرد بیٹھے ہیں کہ ان کے دل موم نہیں ہو رہے ان میں خداترسی کا جذبہ بیدار نہیں ہو رہا۔ مسجدیں بھری ہوئی ہیں۔ تلاوت بھی سب کرتے ہیں۔ مگر اللہ کے بندوں پر کوئی ترس نہیں کھاتا۔ مارکیٹوں میں چیزوں کے دام کم نہیں کرتا کہ سب غریب روزے دار بھی پیٹ بھر کر کھا سکیں۔ وہی مہنگائی نے ہر طرف آگ لگائی ہوئی ہے اور تمام تاجر جو خیر سے حاجی اور نمازی بھی ہیں۔ دونوں ہاتھوں سے لوٹ مار میں مصروف ہیں۔ ان کی توندیں بڑھ رہی ہیں اور غریب روزے داروں کے دستر خوان سمٹ رہے ہیں جو ہوا سو ہوا۔ اب یہ دوسرا عشرہ مغفرت کا ہے۔ کیا اب بھی ان گراں فروشوں میں جذبہ رحمت بیدار نہیں ہو گا؟۔ تو پھر یادرکھیں آخری عشرہ جہنم سے آزادی کا ہے اس میں ان کو جہنم سے آزادی کا پروانہ کون دے گا کیونکہ
کرو مہربانی تم اہل زمین پر
خدا مہرباں ہو گا عرش بریں پر
٭٭٭٭٭٭
ڈونلڈ لو کی کامیاب سفارتکاری۔ حکومت بھی خوش اور اپوزیشن بھی۔
امریکہ یونہی تو دنیا کی سپرپاور نہیں بنا وہاں ہر سیٹ پر وہی نظر آتا ہے جو اس کا حقدار ہو۔ کسی زمانے میں ایسٹ انڈیا اور پھر برٹش حکومت کی یہی پالیسی رہی تھی کہ وہ بیک وقت ہر محاذ پر کام کرے۔ لارنس آف عریبیا جیسے لوگ اور میکاولی جیسی کامیاب سیاسی منافقت سے کام لیتے تھے۔ اس کا ہر سفیر اور وائسرائے کامل سیاستدان اور مقامی یعنی اس علاقے کی ہر طرح کی رسوم و رواج اور معاملات سے باخبر ہوتا تھا۔ جبھی تو کہتے تھے کہ تاج برطانیہ میں سورج بھی غروب نہیں ہوتا۔ اب یہی کام امریکہ نے سنبھال لیا ہے۔ اس کی ایک اعلیٰ مثال امریکی معاون وزیر خارجہ ڈونلڈلو ہیں جن کے بارے میں ہماری موجودہ اپوزیشن یعنی پی ٹی آئی والے کہتے ہیں کہ موصوف نے سائفر سازش رچائی اور ان کی حکومت گرائی۔ یہ الگ بات ہے کہ یہ سیاسی بیانیہ وہ صرف ملک میں چلاتے ہیں۔ بیرون ملک امریکہ یا یورپ میں شور مچاتے ہیں کہ یہ اسٹیبلشمنٹ کی سازش تھی۔ سچ کیا ہے اس پر کسی کے پاس اتنا وقت نہیں کہ غور کرے۔ اب ڈونلڈ لو نے امریکی ایوان نمائیندگان کی ذیلی کمیٹی میں سائفر کے حوالے سے پی ٹی آئی کےبانی قائد کے عائد کردہ الزامات کی تردید کی وہیں یہ بھی باور کرا دیا کہ یہ ایک جھوٹا بیانیہ ہے ایسا کچھ نہیں ہوا تھا۔ اس پر اب مسلم لیگ نون اور پی پی کی حکومت شادیانے بجا رہی ہے کہ دیکھا ہم پہلے ہی یہی کہتے تھے۔ اب ڈونلڈ لو کی یہ فنکاری دیکھیں کہ ساتھ ہی انہوں نے بیان دیا کہ الیکشن میں بے ضابطگیاں ہوئی ہیں۔ جس پر پی ٹی آئی والوں کے ہاں بھی نقارے بجائے جا رہے ہیں۔ یوں دیکھ لیں اسے کہتے ہیں کامیاب سیاست۔ ایک ہم ہیں کہ 76 سالوں سے بس ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے کو تختہ الٹنے کو ہی کامیاب سیاست سمجھتے ہیں۔ اب معلوم نہیں یہ ناکام سیاسی طرز عمل کب تک جاری رہے گا۔
٭٭٭٭٭
گوادر میں مارا جانے والا ایک دہشت گرد لاپتہ افراد میں شامل تھا۔
ہمارے ہاں مادر پدر آزادسوشل میڈیا پر جو کچھ دکھایا جاتا ہے، چلایا جاتا ہے، ایسا شاید ہی کسی اور ملک میں برداشت کیا جائے۔ سب کو چھوڑیں انڈیا میں کوئی اپنے ملک کے خلاف حکوت کے خلاف ایسی میڈیا پر مہم چلائے تو اسے لگ پتہ جائے۔ بڑے بڑے انقلابی اور نیتا وہاں ایسا کرنے کی جسارت بھی کر سکتے۔ فوری طور پر سلامتی کے ضامن ادارے حرکت میں آتے ہیں اور کیا مجال ہے جو کوئی ان کے کسی اقدام کے خلاف چوں بھی کرے ایسا کرنے والوں کو بھی چوں چوں کا مربہ بنا دیا جاتا ہے۔ کوئی ملک اپنی سلامتی کے حوالے سے اپنے شہریوں کو شتر بے مہار بننے نہیں دیتا۔ ناپسندیدہ اور غیر قانونی سرگرمیوں کے حوالے سے کوئی رعایت نہیں دیتا۔ ہمارے ہاں بھی اس حوالے سے بے شک شکایات ہیں مگر ان میں پروپیگنڈا زیادہ ہونے کی وجہ سے اصل حقائق بھی متاثر ہوتے ہیں۔ اب مسنگ پرسن کے حوالے سےدیکھ لیں یہ ایک تشویش ناک امر ضرور ہے مگر جس طرح اس مسئلے کو کالعدم تنظیموں کے حامی اچھال رہے ہیں اور دھرنے دے رہے ہیں بھوک ہڑتال کر رہے ہیں کھلے عام حکومت ہی نہیں ریاست کے خلاف بھی ناقابل برداشت باتیں کر رہے ہوتے ہیں۔ اس پر بارہا اس بارے تحقیقات کا بھی کہا گیا اور بتایا گیا کہ لاپتہ افراد میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو خود مسلح دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ مل کر روپوش ہیں۔ اب گوادر میں مارے جانے والے دہشت گردوں میں ایک ایسا شخص بھی تھا جو لاپتہ افراد میں شامل ہے مگر کالعدم تنظیموں کے حامی وہی مرغے کی ایک ٹانگ والی بات دہرا رہے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ اب واقعی اس معاملے کو سرعت کے ساتھ حل کرکے عوام کے سامنے حقائق لائے جائیں تاکہ دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہو اور بے گناہ بازیاب ہوں جبکہ گناہ گاروں کو سزا ملے مگر یہ سب قانونی طریقے سے ہو تاکہ کسی کو اس پر سیاست کرنے کا موقع نہ ملے۔
٭٭٭٭٭
پاکستان ہاکی فیڈریشن کی صدارت کے دو دعویدار سامنے آ گئے۔
جب فیڈریشن میں عہدوں پر قبضہ کے لیے جنگ جاری ہو تو وہاں کس کو فرصت ہو گی کہ وہ کھلاڑیوں کے معاملات پر توجہ دے۔ پی ایچ ایف میں عرصہ سے عہدوں پر قبضہ کرنے دفاتر پر قبضہ کرنے کی سازش چل رہی ہے۔ ابھی گزشتہ چند روز میں پہلے ہاکی فیڈریشن کے سیکرٹری کے دو عہدیدار سامنے آئے جو اپنے اپنے بلائے اجلاس کی صدارت کرتے نظر آئے۔ ابھی یہ گرد بیٹھی نہیں تھی کہ اچانک پی ایچ ایف کے اب دو عدد صدر بھی ایک دوسرے کے مقابل آ گئے ہیں۔ دیکھتے ہیں محکمہ کھیل یعنی حکومت کی حمایت کس کے حصے میں آتی ہے اور کیا گارنٹی ہے کہ اس کے بعددوسرا صدارتی دعویدار اسے تسلیم کر کے خاموش ہو جائے۔ چپ رہنا ہمارے ہاں اچھا نہیں سمجھا جاتا۔ بولنا شور مچانا البتہ ایک اچھی خوبی تسلیم کی جاتی ہے۔ کسی کو یقین نہ آئے تو ذرا اپنے اردگرد جھانک لے۔ ہر ایک شور مچاتا نظر آئے گا کوئی کسی کی سننے اور ماننے کو تیار نظر نہیں آئے گا۔ اب ہمارے قومی ٹیم کے گول کیپر وقار کئی دنوں سے زیر علاج ہیں ان کی ٹانگ پر چوٹ لگی ہے پلستر چڑھا ہے۔ وہ اور ان کے اہلخانہ شکوہ کناں ہیں اس انجری کی خبر کے باوجود ہاکی فیڈریشن سے کوئی پوچھنے تک نہیں آیا کوئی مدد تک نہیں کی۔ یہ صلہ دیا ہے 8 سال سے قومی ٹیم میں بطور گول کیپر خدمت انجام دینے کا۔ ان کا گلہ بجا ہے۔ مگر بات وہی ہے کہ سیاسی سازشی مسائل سے فرصت ملے تو کوئی جا کر ان کو دیکھے اور پوچھے۔ یہاں تو سب کو عہدوں پر قبضے کی فکر لگی ہے۔ کھلاڑیوں کی نہیں۔ پھر روتے ہیں کہ ہاکی کا قومی کھیل کیوں زوال پذیر ہو گیاہے۔ عالمی سطح پر ہماری پہچان کھو گئی ہے مگر کسی کو فکر نہیں۔
٭٭٭٭٭٭