بھارت کو خصوصی تشویش کا ملک قرار دینے کی سفارش
بھارت میں انسانی حقوق کی صورتحال پر امریکی کانگریس کمشن نے انسانی حقوق کے حوالے سے بھارت کو خصوصی تشویش کا ملک قرار دینے کی سفارش کر دی۔ ماہرین نے کمشن کے سامنے گواہی دی کہ بھارت میں مسلمانوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ بھارت میں اقلیتوں کے خلاف قوانین کا غلط استعمال کیا جاتا ہے۔
بھارت دنیا کے ان ممالک میں شامل اور سر فہرست ہے جہاں اقلیتوں کے ساتھ بہیمانہ سلوک کیا جاتا ہے اور ان کے خلاف قوانین کا غلط استعمال بھی معمول بن چکا ہے۔ بھارت اپنی پہچان سیکولر انڈیا کے حوالے سے کرواتا رہا۔حالانکہ شروع سے ہندو شدت پسندی بھارت میں موجود رہی۔مودی حکومت اس کو انتہاو¿ں تک لے گئی۔جس طرح کے قوانین بنائے گئے اور قوانین کا غلط استعمال کیا گیا اور جو کچھ عملی طور پر بھارت میں اقلیتوں کے خلاف ہوتا ہے اب صرف بھارت کو سرکاری طور پر شدت پسند ریاست ڈکلیئر کرنے کی کمی رہ گئی ہے۔بھارت میں گرجا گھروں اور مساجد کو جلایا اور مسمار کر دیا جاتا ہے۔ بابری مسجد کی جگہ شدت پسند نظریات کی وجہ سے رام مندر بنا دیا گیا۔مسلمانوں،سکھوں اور عیسائیوں کو مذہب تبدیل کرنے پر مجبورکیا جاتا ہے۔رکن کانگریس سٹیفن شینک نے کہا کہ بھارتی حکومت کے قوانین مذہبی اقلیتوں کے خلاف استعمال کئے جاتے ہیں۔ مذہبی آزادی کمشن بھارت کو خصوصی تشویش کا ملک قرار دینے کی سفارش 2020ء سے کر رہا ہے۔ بھارت میں اقلیتوں کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے اس تناظر میں بات اب بھارت کو خصوصی تشویش کا ملک قرار دینے سے آگے جا چکی ہے۔مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کے ساتھ بھارتی حکومت کی طرف سے کیا کچھ نہیں ہوتا اس سے عالمی برادری کی آنکھیں بند ہیں۔ بھارت کے ظلم کا ہاتھ روکنے اور اقلیتوں کے تحفظ کے لیے اقوام متحدہ اور عالمی برادری کو اپنا کردار ادا کرتے ہوئے بھارت پر دفاعی اقتصادی اور ہر قسم کی پابندیاں عائد کرنا ہونگی۔پاکستان ہر عالمی فورم پر بھارت کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بے نقاب کرتا چلا آرہا ہے‘ جبکہ عالمی رپورٹیں بھی اسے بے نقاب کر چکی ہیں‘ پھر عالمی قیادتوں کی نظروں سے بھارت کی یہ خلاف ورزیاں کیوں اوجھل ہیں؟ ان کی مجرمانہ خاموشی بھارت کے مزید حوصلے بڑھا رہی ہے۔