سائفر کے متن کا کسی کو علم نہیں، کہا جا رہا ہے دشمن کو فائدہ ہو گیا: اسلام آباد ہائیکورٹ
اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت) اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق اور میاں گل حسن اورنگزیب نے بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کی سائفر کیس میں سزائوں کے خلاف اپیلوں پر سماعت آج تک ملتوی کر دی۔ گزشتہ روز سماعت کے موقع پر پی ٹی آئی وکلاء بیرسٹر سلمان صفدر، علی بخاری، بیرسٹر تیمور ملک، شیراز احمد رانجھا، بیرسٹر گوہر علی خان، عمر ایوب خان، نیاز اللہ نیازی، شاہ محمود قریشی کے اہل خانہ اور بانی پی ٹی آئی کی بہنیں عدالت میں موجود تھیں۔ ایف آئی اے پراسیکیوٹر جسٹس (ر) حامد علی شاہ ، ذوالفقار عباس نقوی اور سابق وزیر اعظم آزاد کشمیر سردار قیوم خان نیازی بھی عدالت میں موجود تھے۔ سماعت شروع ہونے پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد کے آفس سے کوئی آیا ہے؟ ہم نے سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل سے ریورٹ منگوائی تھی۔ عدالت کو بتایا گیا کہ سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ کی جانب سے رپورٹ ابھی تک پیش نہیں ہوئی۔ ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد ایاز شوکت عدالت کے سامنے پیش ہو گئے۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ آپ نے جج پر جو اعتراض کیا تھا وہ درخواست دکھائیں، سائفر کیس کی سماعت کے دوران جب جج پر یہ اعتراض آیا تھا تو عدالت نے آبزرویشن دی تھی ٹرائل جج کے سامنے درخواست دائر کر سکتے ہیں۔ اس موقع پر اڈیالہ جیل حکام بھی عدالت میں پیش ہو گئے۔ بیرسٹر سلمان صفدر نے کہا کہ سائفر آفس چوبیس گھنٹے کام کرتا ہے، سائفر بذریعہ ای میل موصول ہوا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ابھی جو سائفر آتا ہے وہ بذریعہ ای میل کوڈڈ شکل میں آتا ہے، آفیسر اس کو ڈاؤن لوڈ کر کے ڈی کوڈ کرے گا۔ بیرسٹر سلمان صفدر نے کہا کہ اوریجنل سائفر اسی کے پاس رک جائے گا، سیکرٹ لینگوئج بھی اس کے اوپر لکھی ہوئی ہے، سیکرٹری فارن افیئرز اجازت دیتا ہے کہ سائفر کس کس کے پاس جانا ہے، سائفر کی کاپی جس کے پاس بھی جائے وہ اوریجنل سائفر تصور ہو گا جو واپس کرنا ضروری ہے، یہ سائفر واپس کر کے ضائع کر دیا جاتا ہے۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ جو ای میل کوڈڈ فارم میں بذریعہ ای میل آیا کیا وہ اب موجود ہے؟۔ بیرسٹر سلمان صفدر نے کہا کہ سائفر آفس 24 گھنٹے کام کرتا ہے، سائفر آفس کبھی بند نہیں ہوتا ہے، اصل سائفر وصول کرنے والے افسر کے پاس رہتا ہے۔ فاضل جسٹس نے کہا کہ گواہ نے کہا ہے کہ میں نے سائفر ڈاؤن لوڈ کیا، جس ای میل میں آیا کیا وہاں سائفر اب بھی موجود ہے؟۔ ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے کہا کہ تمام اوریجنل سائفر کو ڈی کوڈ کرنے بعد ختم کر دیا جاتا ہے۔ عدالت نے استفسار کیا کہ کیا ڈی کوڈڈ سائفر بھی واپس آنے کے بعد ختم کردیے جاتے ہیں؟۔ ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے کہا کہ ڈی کوڈڈ کاپی بھی بعد ازاں ختم کر دی جاتی ہے۔ عدالت نے استفسار کیا کہ کیا سافٹ کاپی رہتی ہے؟۔ ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے کہا کہ وہ کاپی تو رہے گی۔ عدالت نے کہا کہ رہے گی نہیں آپ کو بہت احتیاط سے بتانا ہے۔ سلمان صفدر نے کہا کہ سائفر آفس 24 گھنٹے کام کرتا ہے۔ عدالت نے کہا کہ کوڈڈ فارم میں ای میل آئی ہو گی اس کو یہاں ڈاؤن لوڈ کرکے اس کو ڈی کوڈ کیا ہو گا۔ حامد علی شاہ نے کہا کہ جو بھجیں گے وہ ضائع کریں گے وہاں کوئی پڑا نہیں ہو گا۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ یہ گائیڈ لائنز کہاں لکھی ہوئی ہیں، یہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے ضمانت پر سماعت کے دوران کوئی بک دی گئی تھی۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ جو سائفر کوڈڈ فارم میں ہے وہ رہے گا؟۔ حامد علی شاہ نے کہا کہ جی وہ تو رہے گا۔ چیف جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ سائفر ای میل کے ذریعے کوڈڈ لینگویج میں آتا ہے؟۔ ای میل ہوتی ہے تو پھر اسے ڈاؤن لوڈ تو نہیں کرنا بلکہ پڑھنا کہا جائے گا۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ ای میل کے ساتھ اٹیچمنٹ ہو گی نا، جو ڈاؤن لوڈ کی گئی۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آپ نے جرح کے دوران یہ سوالات نہیں کئے؟۔ سلمان صفدر نے کہا کہ ہم نے تو جرح کے دوران بھی اس حد تک سوالات نہیں کئے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سائفر دفترِ خارجہ میں موجود ہونے کا مطلب کہ ای میل موجود ہو گی؟۔ یہ کرمنل کیس ہے ڈاکومنٹ بھی ریکارڈ پر نہیں ہے، ڈاکومنٹ جس کے غلط استعمال یا ٹوئسٹ کرنے کا الزام ہے اس کا متن ریکارڈ پر ہی نہیں ہے ، یہ سول کیس نہیں ہے بلکہ کرمنل کیس ہے اور مفروضوں پر نہیں جا سکتے، بغیر کسی شک و شبہ کے پراسیکیوشن نے یہ ثابت کرنا ہے۔ سلمان صفدر نے کہا کہ جب سپریم کورٹ کے سامنے یہ کیس سنا گیا تو بنچ نے بار بار کہا اس کو سائفر نا کہیں۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ کیا کوڈ تک بانی پی ٹی آئی کی کسی سٹیج پر رسائی تھی؟۔ سلمان صفدر نے کہا کہ بالکل کوئی رسائی نہیں تھی نہ ہی ایف آئی اے کا یہ کیس ہے۔ سائفر سکیورٹی کا سیکریٹ کوڈ تک تو رسائی ہی نہیں تو کیسے سسٹم کمپرومائز ہو گیا، کل میں عدالت کے سامنے درخواستیں ہائی لائٹ کروں گا کہ وہ کیا ہیں، ہم نے ٹرائل کورٹ کو سائفر گائیڈ لائن کی درخواست دی تھی جو مسترد کردی گئی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سارا کیس ایک ڈاکومنٹ کے اردگرد گھوم رہا ہے، وہ ڈاکومنٹ ریکارڈ پر نہیں ہے یا کم از کم متن بھی ریکارڈ پر نہیں ہے۔ وکیل نے کہا کہ آئیڈیلی پراسیکیوشن کا کیس یہ تھا کہ دفتر خارجہ سے کوئی سائفر چوری کرکے دشمن ملک کو دے دے۔ عدالت نے کہا کہ کیا گواہ کہہ رہا ہے کہ ڈائریکٹر جنرل کی ہدایت پر سائفر کی کاپی تفتیشی افسر کو دی گئی؟۔ وکیل نے کہا کہ تفتیشی افسر نے کسی سٹیج پر یہ نہیں کہا کہ اسے سائفر کی کاپی دی گئی، ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے کہا کہ وہ رجسٹر کی کاپی کی بات ہو رہی ہے۔ سلمان صفدر نے کہا کہ اس میں کچھ لنکس مسنگ ہیں، سائفر سیکشن کے آفیسر شمعون کا بیان عدالت کے سامنے پڑھ رھا ہوں۔ حامد علی شاہ نے کہا کہ سیکریٹ سیکشن پولیٹیکل (ایس ایس پی ) وزارت خارجہ میں ایک سیکشن ہے۔ سلمان صفدر نے کہا کہ دفتر خارجہ کے گواہ شمعون نے کہا کہ اوریجنل سائفر دفتر خارجہ میں پڑا ہے، اس ایف آئی آر میں سائفر لفظ غلط استعمال ہوا ہے، سائفر دفتر خارجہ میں ہی رک جاتا ہے آگے کاپی پلین ٹیکسٹ جاتی ہے، ایک گواہ تیسری دفعہ پیش ہوا ہے۔ عدالت نے کہا کہ سپر کاپی کوئی آفیشل ٹرمینالوجی تو نہیں ہے؟۔ حامد علی شاہ نے کہا کہ نہیں ایسا نہیں ہے۔ سلمان صفدر نے کہا کہ جو نمبر لگا ہے وہ سائفر نہیں پلین ٹیکسٹ ہے یہ ظاہر ہو رہا ہے، ایک صفحہ پہلے وہ کہہ رہے ہیں امریکہ سے نمبر لگا، اگلے صفحے پر کہہ رہے ہیں سائفر کو نمبر یہاں لگا ہے، درست پوزیشن یہ ہے کہ گواہ یہ کہہ رہے ہیں یہ سائفر کی کاپی پر پاکستان میں نمبر لگا ہے۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ ٹرائل کورٹ کے فیصلے میں بھی کچھ جگہوں پر میں نے پڑھا ہے وہاں بھی کاپی لکھا ہوا ہے، یہ کہاں لکھا ہے کہ سائفر کی کاپیز کو ضائع کیا جائے گا؟۔ سلمان صفدر نے کہا کہ آپ بھی سائفر دیکھ سکتے ہیں۔ عدالت نے کہا کہ ہم اپیل سن رہے ہیں ہم نے ٹرائل کورٹ کے فیصلے کی قانونی پوزیشن دیکھنی ہے، نہ جج کو نہ پراسیکیوشن کو وہ ڈاکومنٹ دکھایا گیا۔ چیف جسٹس نے ایڈووکیٹ جنرل سے کہا کہ بدھ کے روز آرڈر ہوا تھا آپ نے ابھی تک سی ویز کی کاپیز نہیں دیں۔ چیف جسٹس نے جیل حکام پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کیا یہ سول کورٹ ہے مجسٹریٹ کورٹ ہے کہ ہاتھ سے فائل کریں گے۔ عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل سے سٹیٹ کونسلز کی سی ویز طلب کی تھیں، سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل سے ریکارڈ طلب کیا تھا وہ بھی پیش نہیں کیا گیا۔ ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ ہمیں کورٹ کا آرڈر ہی نہیں مل سکا تھا۔ آپ کی موجودگی میں آرڈر لکھوایا تھا، آپ ہمارے آرڈر کو بہت غیرسنجیدہ لے رہے ہیں؟ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ کسی کو پتہ نہیں کہ سائفر کا متن کیا ہے لیکن کہہ رہے ہیں کہ دشمن کو فائدہ ہو گیا، سائفر کا متن جج ، پراسیکیوشن یا ملزمان کے وکلاء کے سامنے ہی نہیں، عدالت نے کہا کہ سائفر کام کیسے کرتا ہے، دفتر خارجہ کو کیا بلا کر پوچھ لیں؟۔ اس حوالے سے کل عدالتی معاونت کریں۔ عدالت نے سماعت آج تک ملتوی کر دی۔