• news

فوجی عدالتوں میں سویلین ٹرائل، جو بری ہو سکتے ہیں انہیں کریں: سپریم کورٹ

اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلین ٹرائل کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلیوں پر سماعت کے دوران عدالت نے 9 مئی کے کیسز میں بے قصور قرار دیئے گئے ملزموں کی تفصیلی رپورٹ طلب کرلی ہے۔ عدالت نے اٹارنی جنرل منصور عثمان کو روسٹرم پر بلایا اور جسٹس امین الدین خان نے استفسار کیا کہ کیا ملزموں میں کسی کی رہائی ہوئی ہے یا ہوسکتی ہے؟۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ ٹرائل مکمل ہوچکا ہے لیکن ابھی فیصلے نہیں سنائے گئے۔ کچھ ایسے ملزم ہیں جن کی گرفتاری کا دورانیہ سزا میں تصور ہوگا، سپریم کورٹ کے حکم امتناعی کی وجہ سے بریت کے فیصلے نہیں ہو سکے۔ وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ بریت کے فیصلے پر تو کوئی حکم امتناعی نہیں تھا، جو ملزم بری ہوسکتے ہیں ان کے فیصلے سنانے کی اجازت دی جائے۔ جسٹس امین الدین خان نے کہا  کہ جو ملزم بری ہوسکتے ہیں انہیں تو کریں، باقی کی قانونی لڑائی چلتی رہے گی۔ خیبر پی کے حکومت کے وکیل نے اپیل واپس لینے کی استدعا کرتے ہوئے کابینہ کی قرارداد عدالت میں پیش کی۔ وکیل خیبر پی کے حکومت نے عدالت کو بتایا کہ انٹرا کورٹ اپیلیں واپس لینا چاہتے ہیں۔ بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیئے کہ صوبائی کابینہ کی قرارداد پر تو اپیل واپس نہیں کرسکتے۔ مناسب ہوگا کہ اپیلیں واپس لینے کیلئے باضابطہ درخواست دائر کریں۔ جسٹس (ر) جواد ایس خواجہ کے وکیل خواجہ احمد حسین نے بینچ کے سائز پر اعتراض عائد کردیا۔ انہوں نے کہا کہ 103 ملزم زیر حراست ہیں، ان کے اہل خانہ عدالتی کارروائی میں شامل ہونا چاہتے ہیں چنانچہ عدالت اہل خانہ کو سماعت دیکھنے کی اجازت دے۔ اس پر جسٹس امین الدین نے ریمارکس دیے کہ کمرہ عدالت بھرا ہوا ہے، انہیں کہاں بٹھائیں گے؟۔ عدالت آنے پر اعتراض نہیں ہے، ان کا معاملہ دیکھ لیتے ہیں۔ بعد ازاں جسٹس (ر) جواد ایس خواجہ کے وکیل نے 9 رکنی لارجر بینچ بنانے کی استدعا کر دی۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے اپنی متفرق درخواست میں بھی 9 رکنی لارجر بینچ بنانے کی استدعا کی تھی، عدالت سے استدعا ہے کہ یہ سپریم کورٹ کمیٹی سے گزارش کرے کہ 9 رکنی بینچ بنایا جائے۔ سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے متفقہ فیصلہ دے کر ٹرائل کالعدم قرار دیا، 6 رکنی بینچ نے اگر اسے 4-2 سے کالعدم قرار دے دیا تو یہ متنازعہ ہوجائے گا، عدلیہ پر عوامی اعتماد کے لیے ضروری ہے کہ فیصلہ متنازعہ نا ہو، ایسا تاثر نہ جائے کہ بینچ کی تشکیل سے ہی فیصلہ واضح ہو، بینچ کی تشکیل کے لیے مناسب ہوگا کہ معاملہ دوبارہ ججز کمیٹی کو بھیجا جائے۔ دوسری جانب کیس میں درخوست گزاروں نے بینچ کے ساتھ نجی وکلاء پر بھی اعتراض عائد کردیا۔ وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ سرکاری اداروں کی جانب سے اٹارنی جنرل نے 5 اپیلیں دائر کررکھی ہیں، بعض وزارتوں کی جانب سے نجی وکلاء کی خدمات حاصل کی گئی ہیں، اٹارنی جنرل نے خود اپیلیں دائر کیں تو عوام کا پیسہ نجی وکلاء  پر کیوں خرچ ہو۔ بعدازاں عدالت نے اٹارنی جنرل سے زیر حراست 103 افراد میں سے بریت کے اہل افراد کے حوالے سے تفصیلات طلب کرتے ہوئے فریقین کو نوٹسز جاتے کرکے کیس کی سماعت 28 مارچ تک ملتوی کردی۔

ای پیپر-دی نیشن