سنا ہے ضمیر جاگ گئے، مسلم لیگ ن، خط انتظامی امور پر چارج شیٹ: پی ٹی آئی، جماعت اسلامی
لاہور+ اسلام آباد (اپنے سٹاف رپورٹر سے+ خبر نگار+ خصوصی نامہ نگار+ نوائے وقت رپورٹ) خواجہ سعد رفیق نے ٹویٹ میں کہا یاد ماضی عذاب ہے یارب ۔ سنا ہے اب ضمیر جاگ گئے ہیں۔ میں اور سلیمان رفیق‘ حفاظتی ضمانت کیلئے اسلام آباد ہائی کورٹ پیش ہوئے۔ دو معزز ججز پر مشتمل بنچ نے ضمانت دینے کی بجائے ہمارا تمسخر اڑایا۔ رہنما مسلم لیگ (ن) عرفان صدیقی نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ ایجنسیوں نہیں ججوں کے محاسبے کا فورم ہے۔ نو مئی کے ملزموں کے تحفظ کیلئے مخصوص جماعت کی سہولت کاری کی جا رہی ہے۔ چیئرمین تحریک انصاف بیرسٹر گوہر نے کہا ہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کا خط پاکستان کے انتظامی امور پر چارج شیٹ ہے، ہم عدلیہ میں مداخلت کی مذمت کرتے ہیں۔ عمر ایوب نے کہا کہ ججزکے خط پر جوڈیشل کمیشن بنا کر فوری انکوائر ی کی جائے۔ چیئرمین تحریک انصاف بیرسٹر گوہر نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ہم 2سال سے عدلیہ میں مداخلت کا کہتے چلے آرہے تھے، جج صاحبان کو بھی اللہ نے ہمت دی، انہوں نے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ اور جوڈیشری میں مداخلت ہوئی ہے، ہم مداخلت کی شدید مذمت کرتے ہیں، ہر ایک جج کو پریشر میں لایا گیا ہے، جج صاحبان نے اپنے خط میں مداخلت کا لکھا ہے۔ ٹیریان کا کیس بھی ہم میڈیا کے سامنے لا چکے تھے۔ انہوں نے کہا ایک جج صاحب نے کہا نہیں پتہ میرے بچے کہاں ہیں اور ایک جج صاحب نے کہا میرے بیٹے کا ولیمہ مؤخر کرایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم مطالبہ کرتے ہیں ججز کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں اس عمل کی جوڈیشل کمیشن کے ذریعے انکوائری ہو اور سپریم کورٹ اس کی انکوائری فل اوپن کورٹ میں کرے۔ یہ پی ڈی ایم حکومت کا کارنامہ تھا، پی ڈی ایم حکومت نے بانی پی ٹی آئی کے خلاف 200کیسز بنوائے، بانی پی ٹی آئی کی فوری رہائی ہونی چاہیے، ان کے خلاف تمام فیصلے دباؤ میں دیئے گئے۔ اس موقع پر سیکرٹری جنرل تحریک انصاف عمر ایوب کا کہنا تھا یہ خط پاکستان کی عدلیہ کیلئے ایک نہایت اہم موڑ ہے۔ یہ خط دراصل پاکستان کے انتظامی امور پر ایک چارج شیٹ ہے، ججز پر ڈالے جانے والے دباؤ کا نشانہ صرف سابق وزیراعظم عمران خان تھے، اس خط نے نظام کو مکمل طور پر بے نقاب کر دیا ہے‘ عمر ایوب نے کہا کہ ہر ایک جج کو دباؤ میں لایا گیا ہے‘ اس معاملے کو قومی و صوبائی اسمبلیوں اور سینٹ سمیت ہر فورم پر اٹھایا جائے گا۔ رہنما تحریک انصاف حامد خان نے لاہور ہائیکورٹ بار میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ لاہور ہائیکورٹ بار کو کلیئر ہونا ہوگا یہ معاملہ بہت حساس ہے، 6 ججز نے بہت بڑا کام کیا ہے، ہمیں ان ججز کو سیلوٹ کرنا ہوگا۔ حامد خان کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس پاکستان سے مطالبہ کرتے ہیں اس معاملے پر جوڈیشل کمیشن بنایا جائے۔ قائم مقام امیر جماعت اسلامی پاکستان لیاقت بلوچ نے مطالبہ کیا ہے کہ چیف جسٹس فوری طور پر 6ججوں کے خط پر سپریم جوڈیشل کونسل کا اوپن اجلاس بلائیں اور اس معاملے کا گہرائی سے جائزہ لے کر پس پردہ عناصر کو بے نقاب کیا جائے۔ پاکستان میں عدلیہ کے اختیارات اور آزادی کو سلب کرنے اور عدلیہ کے پر کاٹنے کیلئے ریاستی ادارے ہمیشہ غیر آئینی حربے استعمال کرتے رہے ہیں۔ قاضی فائز عیسی ٰ کے خلاف ریفرنس چلایا گیا جس کا اعتراف خود سابق وزیر اعظم عمران خان نے کیا۔ شوکت صدیقی کے مقدمہ سے بھی یہ بات عیاں ہوگئی ہے کہ دباؤ کہاں سے آرہا تھا۔ قومی سیاسی و جمہوری قیادت کو عدلیہ کی آزادی اور ججز کو دباؤ سے آزاد کرانے کے لئے اپنا جمہوری اور قومی فرض ادا کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت عدلیہ حکومت، سیاسی اداروں اور سوشل میڈیا کے دباؤ کا شکار ہے۔ جب تک عدلیہ آزادی کے ساتھ فیصلے نہیں کرسکے گی ملک میں آئین و قانون کی بالادستی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکے گا۔ علاوہ ازیں جسٹس شوکت صدیقی نے نجی ٹی وی سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ جب میں نے 21 جولائی 2018ء کو تقریر کی تو میرے ساتھی جج صاحبان کا رویہ اجنبیت والا ہوگیا۔ کسی بار کونسل نے میرے حق میں آواز بلند نہیں کی۔ میں نے اکیلے تن تنہا یہ جنگ لڑی اور جیتی اور سرخرو ہوا۔ میرے ساتھی ججز نے جو شکایت کی ہے یہ میرے اقدام کی حمایت کر رہی ہے۔ مجھے برطرف کرتے ہوئے کوئی انکوائری نہیں کی گئی، میں ججز کے مطالبے کی حمایت کرتا ہوں۔ معاملے کو سپریم جوڈیشل کونسل میں بھیج کر اہمیت کو کم کیا گیا ہے۔ مداخلت 2017ء سے شروع نہیں ہوئی یہ پہلے سے جاری تھی۔ فیض آباد دھرنا کیس میں بڑے سخت آرڈرز میں نے پاس کئے تھے۔ جس کی وجہ سے میرے خلاف دو ریفرنس فائل کئے گئے۔ ججز کو ماضی میں بلیک میل بھی کیا گیا‘ طرح طرح کی مراعات بھی دی گئیں۔ یا دباؤ بھی ڈالا گیا۔ یہ ہماری تاریخ ہے۔ مداخلت کرنے والوں کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ اب یہ دور نہیں ہے کہ آپ خاموشی سے جج بشیر کی عدالت میں پچھلے دروازے سے داخل ہو کر کوئی ڈائریکشن دیں گے۔ اب ہر چیز سامنے آ جاتی ہے۔