غزوہ بدر ، پیغمبر ِ انقلاب اور ذوالفقارِ مولا علی ؓ (2)
”مدنی سرکار دِیاں گلیاں !“
معزز قارئین !۔ قیام پاکستان سے قبل مَیں نے 1946ءاور 1947ءمیں مشرقی پنجاب کی سِکھ ریاست نابھہ میں دو بار، اپنے والد صاحب تحریک پاکستان کے ( گولڈ میڈلسٹ) کارکن ، رانا فضل محمد چوہان دونوں چچاﺅں رانا فتح محمد چوہان اور رانا عطا محمد چوہان کے ساتھ عید میلاد اُلنبی کے جلوس میں شرکت کی ۔ نعت خواں بلند آواز سے پنجابی کی نعت پڑھ رہے تھے جس کا مطلع آج بھی میرے کانوںمیں گونج رہا ہے ....
”سارے جگ توں نِرالِیاں ، دِسدِیاں نَیں
مدنی سرکار دِیاں گلیاں!“
....O....
ہجرت کے بعد 1947ءمیں ہمارا خاندان پاک پنجاب کے شہر سرگودھا میں آباد ہُوا ۔ مَیں 1953ءمیں نویں جماعت کا طالبعلم تھا جب میرے والد صاحب مجھے میلاد کی محفلوں میں لے جانے لگے ۔ اختتام محفل سے پہلے سب لوگ مل کر حضور پُر نُور کو، سلام پیش کرتے تو مجھے کئی بار محسوس ہُوا کہ ”آنحضرت محفل میں تشریف لے آئے ہیں ۔
مَیں نے 1956ءمیں میٹرک پاس کِیا اور اردو میں پہلی نعت لکھی ، پھر مَیں نے اردو اور پنجابی میں باقاعد ہ شاعری شروع کردِی پھر مجھے بہت سی حمد ہائے باری تعالیٰ نعت ہائے رسول مقبول اہل بیت ؓ و اولیائے کرام کی منقبتیں لکھنے کی سعادت حاصل ہُوئی ۔
” خواجہ غریب نواز!“
1981ءکے اوائل میں میرے جدّی پشتی پیر و مُرشد خواجہ غریب نواز نائب رسول فی الہند ، حضرت مُعین اُلدّین چشتی، لاہور میں میرے گھر رونق افروز ہُوئے۔ آپ نے میری طرف مُسکرا کر دیکھا ۔ مَیں لیٹا ہُوا تھا اور جب مَیں نے اُٹھ کر آپ کی خدمت میں سلام عرض کِیا تو وہ مُسکراتے ہُوئے غائب ہوگئے۔ آنکھ کُھلی تو مَیں نے اشارے سے اپنی اہلیہ ¿ مرحومہ (نجمہ اثر چوہان) کو جگایا ۔ اُن سے پانی مانگا۔ اُنہوں نے کہا کہ ”ہمارے بیڈ روم میں تو خُوشبو پھیلی ہوئی ہے؟ “۔ پھر خواجہ غریب نواز کی برکات سے میرے لئے مختلف صدور اور وزرائے اعظم کی میڈیا ٹیم کے رُکن کی حیثیت سے کئی غیر ملکی دوروں کے دروازے کُھل گئے ۔
”مولا علیؓ کا سایہ شفقت! “
مَیں نے ستمبر 1983ءمیں خواب میں دیکھا کہ ” مَیں اور 1961ءسے میرے سرگودھوی دوست ( ہفت روزہ ”نصرت “ لاہور کے سابق ایڈیٹر) سیّد علی جعفر زیدی کہیں پیدل جا رہے ہیں۔ ایک خشک دریا آیا ، زیدی صاحب نے مجھ سے کہا کہ ” میرا آپ کا یہیں تک ساتھ تھا آپ جائیے ! ‘ ‘۔ مَیں نے دریا میں قدم رکھا تو مٹی گیلی تھی۔
کچھ دیر بعد پتہ چلا کہ یہ تو دلدل ہے؟۔ میرا جسم آہستہ آہستہ دلدل میں دھنس رہا تھا ۔ اچانک میرے منہ سے از خود یا علیؓ کا نعرہ بلند ہُوا پھر مجھے محسوس ہوا کہ کسی "Crane" نے مجھے دلدل سے نکال کر دوسرے کنارے پر چھوڑ دِیا ۔ مجھے آواز سُنائی دِی کہ ” تم پر مولا مُشکل کُشا ،حضرت علی مرتضیٰ ؓ کا سایہ¿ شفقت ہے !“۔ سیّد علی جعفر زیدی 1983ءسے اپنے اہل و عیال کے ساتھ لندن میں نامور سیاستدان اور بزنس مین کی حیثیت سے آباد ہیں ! ۔
” دورنِ خانہ¿ کعبہ !“
معزز قارئین ! ستمبر 1991ءمیں مجھے ” نوائے وقت “ کے کالم نویس کی حیثیت سے صدرِ پاکستان غلام اسحاق خان کے ساتھ دورہ¿ سعودی عرب میں خانہ¿ کعبہ کے اندر جانے کی سعادت ہُوئی ۔ مجھے دو صحافی دوستوں کے ساتھ پاکستانی سفارتخانہ کی گاڑی میں مدینہ منورہ میں گاڑی سے اُتر کر پیدل چل کر اور زمین پر بیٹھ کر ” سارے جگ توں نِرالیاں ، ”مدنی سرکار دِیاں گلیاں “ دیکھنے کا اعزاز حاصل ہُوا۔
”نعت ہائے رسول مقبول !“
آج مَیں آپ کی خدمت میں اپنی اُردو نعت کے تین شعر اور پنجابی نعت کے تین بند پیش کر رہا ہوں ۔ ملاحظہ فرمائیں ....
”یوں ضَو فِشاں ہے ، ہر طرف ، کردار آپ کا!
اَرض و سماءہے، حلقہ¿ انوار ، آپ کا!
.... O ....
حقّ کی عطا سے ، صاحبِ لَوح و قلم ہیں آپ !
قُرآنِ پاک بھی ہُوا، شَہہ کار آپ کا!
.... O ....
مولا علی ؑو زَہراؓ، حسنؓ اور حُسینؓ سے!
عرشِ برِیںسے کم نہیں ، گھر بار آپ کا!“
.... O ....
سَرچشمہ ، حُسن و جمال ، دا!
کِسے ڈِٹھّا نہ ، اوس دے نال دا!
ربّ گھلّیا ، نبی ، کمال دا!
مَیں غُلام ، اوس دی ، آلؓ دا!
.... O ....
سوہنے ربّ دا ، سوہنا ، عرش سی!
اوہدے ، پَیراں لئی، اوہ فرش سی!
محبُوب، جی ذواُلجلال دا!
مَیں غُلام، اوس دی، آلؓ دا!
.... O ....
بُوہا عِلم دا، تے مہابلی!
اوہدا جانِشین، علیؓ وَلی!
جیہڑا ، ڈِگدیاں نُوں، سنبھال دا!
مَیں غُلام ، اوس دی، آلؓ دا!
.... O ....
معزز قارئین ! شفقات پنجتن پاکؓ سے میرے پانچوں بیٹوں ذوالفقار علی، افتخار علی، انتصار علی، انتظار علی، شہباز علی اور پانچوں پوتوں شاف علی حیدر علی، عزم علی ، ذاکر علی اور احمد علی کے نام ،حضرت علی مرتضیٰ ؓ کے نام پر ہیں اور میری سب سے پیاری بیٹی عاصمہ معظم ریاض چودھری کے بیٹے کا نام علی امام ۔ مَیں نے مولا علی مرتضیٰ ؓ اور آئمہ اطہار ؓ کی خدمت میں کئی منقبتیں پیش کیں۔ فی الحال مولا علی ؓ کی پنجابی منقبت کا مطلع ، دو بند اور اُردو منقبت کے تین شعر پیش خدمت ہیں ....
”نبی آکھیا سی، ”وَلیاں دا وَلیؓ مولا!
جیِہدا نبی مولا، اوہدا علیؓ مولا!“
....O....
جدوں چاہوندا، اللہ نال گَل کردا!
سارے جگّ دِیاں ، مُشکلاں حلّ کردا !
شہر شہر مولاؑ، گلی گلی مولاؓ!
ججیِہدا نبی مولا، اوہدا علیؓ مولا!
....O....
واہ! نہج اُلبلاغہ، دِیاں لوآں!
سارے باغاں وِچّ ، اوس دِیاں خوشبواں!
پُھلّ پُھلّ مولاؓ، کلی کلی مولاؓ!
جیِہدا نبی مولا، اوہدا علیؓ مولا!
....O ....
”علی ؓ علیؓ ! “
تُم کو ملی ہے، بزمِ طریقت میں صندلی!
تمہارا خَوشہ چِین ہے ، ہر پِیر ، ہر ولی!
علیؓ علیؓ
.... O....
ہر گُل میں تازگی ہے ، محمد کے نام سے!
تُم سے مہک کر رہی ہے ، گُلستاں کی ہر کلی!
علیؓ علیؓ
.... O ....
مولائے کائنات ہو ، مُشکل کُشا بھی ہو!
دیکھا نہ آسمان نے تُم سا مہا بلی!
علیؓ علیؓ
....O....