کاش! لوگ پتنگ بازی سے باز آجائیں
ایک لڑکے کی موت کی خبر نے مجھے چونکا دیا۔
لاہو ر میں پتنگ بازی فیڈریشن کے سابق سربراہ شیخ سلیم کا کہنا ہے کہ پتنگ کی ڈورسے زیادہ خطرہ سائیکل سواریوں کو ہوتاہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پتنگ بازی کی مکمل ممانعت ہے مگر اس کے باوجود لوگ پتنگ بازی سے باز نہیں آتے۔حال ہی میں جمعہ کے رو ز اشفاق احمد 22سالہ نوجوان فیصل آباد کے علاقے کا تھا۔ عید کے بعد اس کی شادی ہونے والی تھی۔وہ اپنی والدہ کے پاس روزہ افطار کرنے کیلئے گھر کی طرف جا رہا تھا۔ افطار کے چند منٹ قبل اسے یہ حادثہ پیش آیا۔ مگر راستے میں پتنگ کی ڈور گلے میں لپٹ گئی۔ بار بار گلے سے ڈور ہٹانے کی کوشش کرتا رہامگر گلے میں ہاتھ رکھتے ہوئے سڑک پر گر گیا اور خون بہنا شروع ہو گیا۔۔۔۔خون اتنا بہہ گیا کہ ہسپتال جانے سے پہلے ہی دم توڑ گیا۔
میں نے ویڈیو میں دیکھابے شمار راہگیر اکٹھے ہو گئے پاس سے گاڑیاں گزرتی رہیں مگر کوئی نہ رکا لوگوں کی یہ بے حسی دیکھ کر مجھے بہت دکھ ہوا۔۔۔۔پتنگ بازی ہزاروں لوگوں کی جان لے لیتی ہے۔۔۔۔نہ جانے اس ہندوانہ رسم کو لوگ کیوں اپنائے ہوئے ہیں۔۔۔۔لاکھوں کروڑوں روپے گڈیوں۔۔۔پتنگوں اور ڈور پر خرچ کرتے ہیں۔۔۔یہی روپے ملک کی فلاح میں خرچ ہونے چاہئیں ۔ اس قدر اس ملک میں غربت ہے۔ لوگ دو وقت کی روٹی کے محتاج ہیں۔ کئی کئی سفید پوش گھرانوں میں افطار کرنے کیلئے اشیاء مہیا نہیں ہوتیں۔ گدا گر تو بھیک مانگ کر اچھی زندگی گزار لیتے ہیں۔ مگر سفید پوش لوگوں کا برا حال ہے۔اس لڑکے کی موت کا انتہائی دکھ ہوا ہے۔ والدین نے نہ جانے کتنے سہانے خواب دیکھے ہوتے ہیں۔ مگر موت بھی کتنی بے رحم ہے جب آتی ہے تو عمر کے کسی بھی حصے میں آجاتی ہے۔ کاش لوگ اگر پتنگ بازی سے باز آجائیں تو لوگوں کے گھر کے چراغ کبھی نہ بجھیں۔ یہ اتنا خطرناک کھیل ہے اس کی جو ڈور بنائی جاتی ہے اس کو مظبوط بنانے کیلئے ایک خاص قسم کا مانجھا استعمال کرتے ہیں جو کانچ کے پائوڈر سے بنایا جاتا ہے حیرت کی بات ہے کہ ایسے کام کرنے والے لوگوں کو پکڑنے والا کوئی نہیں ہے۔۔۔۔صرف پولیس ایسا کام کرنے والوں کی حق بجانب ہے لیکن یہاں کوئی شنوائی نہیں۔
لوگ چاہے پابندی لگے یا نہ لگے انہوں نے ہر صورت پتنگ بازی کی محفلیں سجاتے ہیں ۔۔۔۔باقاعدہ شادی بیاہ کی طرح جو کبھی کھانا دیا جاتا ہے بالکل اسی طرح کھانوں کا اہتمام کیا جاتا ہے۔۔۔۔دعوت نامے چھپتے ہیں۔۔۔۔اور رات کی تاریکی میں رت جگا منایا جاتا ہے۔۔۔۔ڈور کو تیار کیا جاتا ہے۔۔۔۔پابندی کے باوجود گھر گھر۔۔۔۔ رات کو دن کا سماں لگتا ہے۔۔۔۔ایک روز پہلے لوگ خوشیوں کے گہوارے میں جھولا جھول رہے ہوتے ہیں۔۔۔۔یہ معلوم نہیں کہ کل کا دن نہ جانے کس پر بھاری گزرے گا۔۔۔۔اکثر سنا جاتا ہے کہ فلاں بچہ کوٹھے سے گر کر مر گیا۔۔۔۔اور فلاں نوجوان رائفل کا ہوائی فائر کرتے ہوئے جاں بحق ہو گیا۔۔۔ایک جان کا نہیں بلکہ ہزاروں جانوں کا خطرہ ہوتا ہے۔۔۔۔نہ جانے اس تہوار کو دھوم دھام سے کیوں منایا جاتا ہے بے شک بسنت نہ بھی منائیں مگر پتنگ بازی سے باز نہیں آتے۔۔۔۔جبکہ ہم مسلمان ہیں ہماری رسمیں بھی اسلامی ہونی چاہئیں۔۔۔۔خوشی کا اظہار کسی اور رنگ سے بھی کیا جا سکتا ہے۔ مگر اتنی جانوں کے نقصان کے بعد کئی سالوں سے بسنت منانے پر پابندی ہے ایسا کرنے سے قانون کی خلاف ورزی بھی ہو گی مگر ان کے کانوں میں جوں تک نہیں رینگتی۔ عمر رسیدہ لوگ بھی نوجوانوں میں شامل ہو کر پتنگ بازی کرتے ہیں۔
بعض لڑکیاں پتنگ اڑاتی ہوئی نظروں سے گزرتی ہیں۔ ان کے والدین ان لڑکیوں کو کچھ نہیں کہتے۔۔ ۔۔ضیافتیں اڑائی جاتی ہیں۔ اچھے اچھے کھانوں سے خوشبوئیں سارے محلے میں اٹھ رہی ہوتی ہیں۔ کئی لوگ تو محفل پتنگ بازی کا تہوار منانے کیلئے سارا سال روپیہ جمع کرتے ہیںتاکہ وہ اپنے دوستوں کو بلا کر اچھے کھانوں سے ان کی تواضع کر سکیں۔۔۔۔نہ صرف کھانوں پر روپیہ خرچ ہوتا ہے بلکہ پتنگ بازی پر بھی خوب خرچہ آتا ہے۔۔۔ویسے کافی سالوں سے اس محفل پتنگ بازی پر پابندی ہے مگر پھر بھی جہاں چوریاں ڈکیتیاں ہو جاتی ہیں وہاں پتنگ بازی بھی ہو رہی ہے اگر کہا جائے کہ خدارہ اپنے بچوں کو پتنگ بازی سے روکیں۔۔۔۔اس سے کئی جانیں چلی جاتی ہیں۔۔۔۔تو یہ جواب ملے گا یہ تو بچوں کا شوق ہے۔۔۔۔بیچارے سال میں ایک مرتبہ تو خوش ہوتے ہیں۔۔۔پھر موت کا دن تو معین ہے اس نے تو آنا ہی ہے اگر پتنگ بازی نہ بھی کریں تو جس نے مرنا ہے وہ مر جائے گا۔۔۔۔موت پر کسی کا زور نہیں ہے۔۔۔یہ تو وہ بات ہوئی کہ اگر سانپ سامنے ہو اور یہ کہو کہ اگر اس کے منہ پر انگلی ڈال دو اگر مرنا ہے تو اس کے ڈسنے سے مر جائیں گے۔ اگر موت نہیں آنی تو اس کے منہ پر انگلی ڈال کر بھی نہیں آنی۔۔۔۔۔ اب ایسی قوم کو کیا سمجھائیں۔۔۔۔والدین نے نہ جانے کتنے سہانے خواب اپنے بچوں کے بارے میں سجا رکھے ہوتے ہیں۔۔۔۔مگرموت بھی کتنی بے رحم ہے۔۔۔۔ جب وقت مقرر ہو تو آجاتی ہے۔ کاش اگر لوگ پتنگ بازی سے بازآجائیں تو لوگوں کے گھر کے چراغ کبھی نہ بجھیں۔
حکومت کو چاہیے کہ پتنگ بازی پر پوری طرح پابندی لگائے۔ حکومت تو وہ لوگ چلاتے ہیں جو عوام کے دکھ سکھ کو محسوس کریں۔۔۔۔اور ان کے دکھ کا مداوہ بنیں۔ اب کہ حکومت بدلی ہے۔۔۔۔تو توقع کی جا سکتی ہے۔۔۔۔کہ شاید انہونی ہو جائے اور لوگوں کے حالات بدل جائیں اور پتنگ بازی پر مکمل پابندی لگ جائے اور حکومت کو بھی ہوش آجائے۔
٭…٭…٭