پاکستان‘ بھارت‘ بنگلہ دیش۔عدالتیں دبائو میں
عدل و انصاف کے ایوانوں میں بھونچال تو بر صغیر کے تینوں اہم ممالک میں گزشتہ ایک دہائی سے موجود رہا ہے لیکن پاکستان اس سلسلے میں کچھ زیادہ ہی نظرو ں میں ہے۔ عجیب صورت حال ہے کہ ادھر پاکستان میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے چھ فاضل ججوں جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس طارق محمود جہانگیری ، جسٹس بابر ستار، جسٹس سردار اعجاز اسحاق، جسٹس ارباب محمد طاہر اور جسٹس ثمن رفعت امتیاز کی طرف سے سپریم جوڈیشل کونسل کو خط لکھا جاتا ہے اور مختلف کیسوں کے حوالے سے باہر کے دبائو کی شکائت کی جاتی ہے تو اسی ہفتے بھارت میں سینئر وکیل ہریش سالوے اور بارکونسل کے چیئر پرسن منن کمار مشرا سمیت 600 سے زیادہ وکیلوں نے چیف جسٹس چندرچوڑ کو خط لکھ کر الزام لگایا کہ ایک مفاد پرست گروپ عدلیہ پر دباؤ ڈالنے اور عدالتوں کو بدنام کرنے کی کوشش کر رہا ہے ، خاص طور پر سیاست دانوں سے جڑے بدعنوانی کے معاملوں میں۔خط میں وکلاء کے ایک حصے کا نام لیے بغیر الزام عائد کیا گیا تھا گیا کہ وہ دن میں سیاستدانوں کا دفاع کرتے ہیں اور پھر رات کو میڈیا کے ذریعے ججوں پراثر انداز ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔بنگلہ دیش میں بھی صورتحال مختلف نہیں ہے جہاں ایک طرف سپریم کورٹ کے احاطے میں حکومت کی طرف سے انصاف کی دیوی کا مجسمہ لگانے پر دینی سیاسی جماعتوں کی طرف سے ہنگامہ ہوتا ہے اور کبھی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سرندرا کمار سہنا کو یہ فیصلہ دینے پر کہ پارلیمنٹ چیف جسٹس کو نہیں ہٹا سکتی، ایسی دھمکی دی جاتی ہے کہ وہ ملک چھوڑ جاتے ہیں اور اب امریکہ میں مقیم ہیں ان کے جانے کے بعد ایک سپیشل کورٹ کی طرف سے ان پر منی لانڈرنگ کا الزام لگا کر سزا سنا دی جاتی ہے۔
پاکستان میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ مخصوص سیاسی حالات نے عدالتی نظام کو بہت زیادہ بحث کا موضوع بنا دیا ہے۔ حال ہی میں فاضل سپریم کورٹ کی طرف سے ماضی میں ایک ادارے پر مداخلت کا الزام لگانے کے بعد منصب سے ہٹائے جانے والے جج شوکت حسین صدیقی کی برطرفی کالعدم قرار دینے اور سابقہ فیصلے کو ریٹائرمنٹ میں بدلنے سے ایک تاثر مضبوط ہوا کہ ہماری عدلیہ کے معاملات میں مداخلت کے ان کے الزام درست تھے۔ اب چھ ججوں نے مداخلت کے جو سنگین الزام لگائے ہیں تو پاکستان کی عالمی تناظر میں عدل و انصاف کی شہرت بہت متاثر ہوئی ہے۔ سنگین صورتحال کے پش نظر ہی وفاقی حکومت نے عدلیہ میں خفیہ اداروں کی مبینہ مداخلت کے حوالے سے انکوائری کمیشن بنانے کا اعلان کیا ہے جب کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6 ججز کی جانب سے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور سپریم جوڈیشل کونسل کو جو خط لکھا گیا تھا ا س میں عدلیہ کے معاملات میں مبینہ مداخلت پر جوڈیشل کنونشن بلانے کا کہا گیا تھا۔سنگینی کا عالم یہ ہے کہ خط کا معاملہ سامنے آنے کے بعد گزشتہ روز چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ سے وزیراعظم شہباز شریف کی سپریم کورٹ بلڈنگ ججز کمیٹی روم میں ڈیڑھ گھنٹے تک جاری رہنے والی اہم ملاقات میں سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس منصور علی شاہ، رجسٹرار سپریم کورٹ جزیلہ اسلم وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ اور اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان بھی شریک تھے۔ ملاقات کے بعد چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے فل کورٹ اجلاس کی صدارت کی جس میں تمام ججز نے شرکت کی۔ وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے وزیراعظم میاں شہباز شریف کی چیف جسٹس سے ملاقات کے بعد اٹارنی جنرل کے ہمراہ پریس کانفرنس کی۔ جس میں وفاقی وزیر قانون نے کہا کہ تمام آئینی اداروں کو اپنی حدود میں رہ کر کام کرنا چاہیے۔ ادارہ جاتی مداخلت کسی صورت قابل قبول نہیں۔ہے۔ سپریم کورٹ کی جانب سے جاری ہونے والے اعلامیے میں کہا گیا کہ چیف جسٹس آف پاکستان نے خط لکھنے والے ججز سے ملاقات کی اور انکے تحفظات سنے ہیں۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6 ججز کا خط 25 اپریل 2024ء کو چیف جسٹس آف پاکستان ٰ کو موصول ہوا، جس کے بعد انہوں نے تمام خط لکھنے والے ججز کی میٹنگ بلا کر ان سے فرداً فرداً ملاقات کی اور تحفظات کو سنا۔ خط میں لگائے گئے الزامات کی نوعیت کو مدنظر رکھتے ہوئے 26 مارچ کو چیف جسٹس پاکستان کی رہائش گاہ پر افطار کے بعد اجلاس بلایا گیا،۔وزیراعظم اور چیف جسٹس کے درمیان ہونے والی ملاقات میں شہباز شریف نے عدالتی آزادی اور خودمختاری پر کوئی قدغن نہ آنے اور اس کے لیے تمام اقدامات کرنے کی یقین دہانی کرائی۔ وزیراعظم نے ملاقات میں کہا کہ فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے کے پیراگراف 53 کے مطابق قانون سازی کی جائے گی چیف جسٹس پاکستان اور جسٹس منصور علی شاہ نے کہا عدلیہ کی آزادی وہ بنیادی ستون ہے جس کے سبب قانون کی حکمرانی اور مضبوط جمہوریت قائم ہوتی ہے۔ وزیراعظم اور چیف جسٹس کی ملاقات میں یہ تجویز سامنے آئی کہ خط کے معاملے کی انکوائری کیلئے اچھی شہرت رکھنے والے ایک ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں انکوائری کمیشن تشکیل دیا جائے۔اس خط کے بعد اپوزیشن خاص طور پر تحریک انصاف اورحلیف جماعتوں کی طرف سے سوشل میڈیا پر کہا جا رہا ہے کہ وہ ججز پر دبائو کے متاثرہ فریق ہیں۔ادھربھارت میں جو600 سینئر وکیلوں نے چیف جسٹس آف انڈیاڈی وائی چندرچوڑ کو خط لکھا ہے اس میں الزام عائد کیا ہے کہ ایک مفاد پرست گروپ عدلیہ پر دباؤ ڈالنے اور انہیں بدنام کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ بھارت میں بھی یہی صورت حال ہے وہاں وکیلوں کے خط کے سوشل میڈیا اور قومی میڈیا کے ذریعے منظر عام پر آنے کے بعد بھارتی وزیراعظم کانگریس پر برس پڑے ہیں۔وزیر اعظم مودی نے اس خط پراپوزیشن جماعت کانگریس کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ، ’دوسروں پر الزام لگانا کانگریس کا قدیم کلچر ہے۔دہلی کے وزیر اعلی اور آپ پارٹی کے سربراہ اروند کجریوال کی گرفتاری اور سپریم کورٹ کے سینئر وکلا کے خط کے بعد وزیر اعظم مودی کے بیان پر کانگریس قیادت نے فوری ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ، ’وزیر اعظم نے جمہوریت کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنے اور آئین کو نقصان پہنچانے کے فن میں مہارت حاصل کرلی ہے۔
‘کانگریس کے صدر ملکارجن کھرگے نے مودی حکومت کے دور حکومت میں عدلیہ کے بحران کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ عدلیہ کے دفاع کے نام پر عدلیہ پر حملہ کرنے میں وزیر اعظم کی بے شرمی منافقت کی انتہا ہے۔ سپریم کورٹ نے حالیہ ہفتوں میں انہیں چوٹیں پہنچائی ہیں۔ الیکٹورل بانڈ اسکیم صرف ایک مثال ہے کانگریس کے سینئر لیڈر جے رام رمیش نے وزیر اعظم کی پوسٹ کو ری ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ نے انہیں غیر آئینی قرار دیا تھا اور اب یہ بات بلا شبہ ثابت ہوگئی ہے کہ وہ کمپنیوں کو بی جے پی کو چندہ دینے پر مجبور کرنے کے لیے خوف، بلیک میلنگ اور دھمکانے کا ایک کھلا آلہ تھے۔ گزشتہ10 سالوں میں وزیر اعظم نے جو کچھ بھی کیا وہ تقسیم کرنا، توڑ مروڑ کر پیش کرنا، موڑنا اور بدنام کرنا ہے۔ 140 کروڑ ہندوستانی انتخابات میں بہت جلد انہیں منہ توڑ جواب دینے کا انتظار کررہے ہیں۔ پاکستان میں تو عام انتخابات ہو چکے ہیں اور پہلے ہی اسی پس منظر میں اعلی عدلیہ کے بعض فیصلے دبائو کے پس منظر میں زیر بحث ہیں۔ سپریم کورٹ کے سینئر وکیل اشتیاق چوہدری جنہوں نے حال ہی میں اپنی پارٹی کو تحریک انصاف مں ضم کیا ہے، کہتے ہیں کہ وقت کے ساتھ ساتھ سیاست اور اقتدارکی آنکھ مچولی میں اب عدلیہ کا رول بر صغیر کے تینوں ممالک میں بہت بڑھ گیا ہے اور ہرجگہ عدلیہ دبائو میں ہے۔جمہوری نظام کے بہتر مستقبل معاشی ترقی عوامی خوشحالی اور سب سے بڑھ کر ملکی تحفظ کیلئے عوام اور عسکری اداروں کے مضبوط اتحاد کیلئے عدلیہ کی آزاد ی وقت کی ضرورت ہے۔
گر یہ نہیں توبابا باقی کہانیاں ہیں