رمضان کا سیاسی رنگ
وقت وقت کی بات ہے، یوں لگتا ہے دنیا ہی بدل گئی ہے۔ چند سال پہلے کا ماحول خواب لگتا ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے صدیاں بیت چکی ہیں۔ وہ دنیا کوئی اور دنیا تھی اور آج کی دنیا کوئی اور دنیا ہے۔ چند سال قبل تک رمضان المبارک میں تمام سیاسی سرگرمیاں افطار پارٹیوں میں منتقل ہو جاتی تھیں۔ سیاسی، حکومتی شخصیات، سیاسی جماعتیں خصوصی طور پر دعوت افطار کا اہتمام کرتی تھیں۔ رابطہ کاری کا سارا نظام بھی افطاریوں میں منتقل ہو جایا کرتا تھا۔ اب نہ جانے کیوں سیاستدان اور سیاسی جماعتیں نہ صرف اپنے ورکرز کا سامنا کرنے سے گھبراتی ہیں بلکہ صحافیوں سے بھی انکی جان جاتی ہے۔ اب ہر کوئی ٹوئیٹ کے ذریعے یا ویڈیو کلپ کے ذریعے اپنی بات لوگوں تک پہنچانے کی کوشش کرتا ہے۔ کبھی اپوزیشن بھی جواب طلبی کرلیتی تھی اور صحافی نہ صرف اہل سیاست بلکہ حکمرانوں کو بھی اپنے سوالوں کے ذریعے عوام کے سامنے جوابدہ بناتے تھے۔ اب ہر کوئی اپنی من مانی پہ لگا ہوا ہے۔ عوام کیا کہیں گے، دانشور، صحافی اور سوچ رکھنے والے کیا سوچتے ہیں، کسی کو اس کی کوئی فکر نہیں۔ سیاسی ورکرز کے ذریعے صحافت کے ذریعے جو گراس روٹ لیول سے آوٹ پٹ اوپر پہنچتی تھی اس کے راستے میں سپیڈ بریکر لگا دیے گئے ہیں بلکہ اونچی اونچی دیواریں چن دی گئی ہیں۔ ایسے لگتا ہے کہ فیصلہ ساز اور عملدرآمد کروانے والے کسی اور سیارے کی مخلوق ہیں اور عوام الناس کسی دوسرے سیارے سے تعلق رکھتے ہیں۔ نہ انھیں عوام کی تکلیفوں کا احساس ہے نہ وہ عوام کو منہ ہی لگانا چاہتے ہیں۔ یہ حکومت مہنگائی کو کم کرنے، لوگوں کے دکھوں کا مداوا کرنے کا نعرہ لے کر آئی تھی لیکن پٹرول آج تین سو کو چھو رہا ہے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ بجلی آسمانی بجلی بن کر گر رہی ہے۔ ایک ڈیڑھ ماہ میں تین دفعہ بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کا اعلان ہو چکا۔ گیس کی قیمتوں میں تو اضافہ سووں سے ہزاروں میں چلا گیا ہے۔ عوام کا خون نچوڑنے کے لیے نت نئے راستے تلاش کیے جا رہے ہیں۔ حکمرانوں نے عید سے چند روز قبل توانائی کی قیمتوں میں اضافہ کرکے عوام کو جھٹکا دیا ہے کہ خبردار اگر کسی نے عید کی خوشیاں منانے کی کوشش کی۔ خیر خوشیاں تو عوام سے پہلے ہی روٹھ چکی ہیں۔ بات کسی اور طرف نکل گئی ہے۔ ہم رمضان المبارک کے ماحول کے بارے میں بات کر رہے تھے۔ وہ کہتے ہیں ناں کہ کسی نے کسی بھوکے سے پوچھا کہ دو اور دو کتنے ہوتے ہیں تو اس نے کہا چار روٹیاں۔ دراصل مہنگائی نے عام لوگوں کی زندگی اتنی اجیرن کر دی ہے کہ جو بھی بات کریں اس میں خیال ادھر ہی چلا جاتا ہے۔ بات ہو رہی تھی افطار پارٹیوں کی تو ان افطاریوں کا اپنا ایک کلچر تھا۔ وہ سیاسی افطاریاں تو ختم ہو گئیں لیکن آج کل سماجی فلاحی اداروں کی افطاریاں عروج پر ہیں اور ان پارٹیوں کا مقصد ایک تو ڈونرز کو مدعو کرکے اپنی کارکردگی دکھانے کا ہوتا ہے اور دوسرا ڈونیشن اکٹھا کرنا مقصود ہوتا ہے۔ بہرحال فلاحی اداروں نے میلہ سجا رکھا ہے ورنہ کوئی ویرانی سی ویرانی ہے۔ البتہ ایک اور اچھی بات یہ ہے کہ مخیر حضرات اور سماجی تنظیموں نے جگہ جگہ افطاری دستر خوان سجا کر رونقیں لگائی ہوئی ہیں جس سے غریبوں کو کافی آسرا ہو جاتا ہے۔ بلکہ اب تو کئی تنظیموں نے مختلف علاقوں میں سحری دستر خوان بھی قائم کر دیے ہیں۔ اس طرح روزہ رکھنے اور کھولنے کے لیے سہولتیں فراہم کی جا رہی ہیں۔ راشن کی تقسیم کا بھی ٹرینڈ عام ہو گیا ہے۔ ایک طرف جہاں ناطقہ بند کیا جا رہا ہے تو دوسری جانب معاشرے میں بانٹنے کا رواج بھی فروغ پا رہا ہے۔ چند سال قبل تک عید کارڈ بھجوانے کی بھی رسم لوگوں کو جوڑے ہوئے تھی۔ گلی محلوں میں بازاروں میں عید کارڈ کے سٹال سج جایا کرتے تھے۔ صدر مملکت سے لےکر ایم این اے، ایم پی اے، کونسلر اور اداروں کے سربراہان سے لے اہم شخصیات تک عید کارڈ پرنٹ کروا کر اہتمام کے ساتھ تعلق داروں، چاہنے والوں کو بھجوا کر تعلقات کی تجدید کی جاتی تھی لیکن اب یہ سارا کچھ خواب لگتا ہے۔ اب لوگ موبائل پر میسج کے ذریعے رسم نبھا رہے ہیں لیکن عید کارڈ والا مزہ کہاں۔ بڑے لوگ عید پر عام لوگوں سے عید بھی ملتے تھے اور عیدی بھی دیتے تھے۔ سارا سال جو کسی کو نہیں مل سکتا تھا وہ عید ملنے کے بہانے مل لیتا تھا۔ اب تو نہ جانے کیسا خوف ہے کہ حکومتی عہدیداروں نے عید پر بھی اپنے دروازے عام لوگوں کے لیے بند کر لیے ہیں۔ کسی زمانے میں یہ اصطلاح مشہور تھی کہ فلاں سیاستدان یا سیاسی جماعت توڈرائینگ روم کی پالیٹکس کرتی ہے یعنی اس کا عوام سے کوئی رابطہ نہیں یا اس کے پلے کھکھ نہیں وہ صرف بند کمرے کی سیاست تک محدود ہے۔ اب تو لگتا ہے سارے سیاستدان ہی بند کمروں کی سیاست پر ایمان رکھتے ہیں۔ کتنا کچھ بدل گیا ہے اس کا اندازہ یہاں سے بھی لگایا جا سکتا ہے۔ کبھی انتخابات کو لاٹری سمجھا جاتا تھا کہ بوریوں کے منہ کھلیں گے اور عام آدمی بھی اس سے فیض یاب ہو گا۔ کبھی کسی نے تصور کیا تھا کہ کوئی دھیلہ خرچ کیے بغیر ہی الیکشن لڑ کر جیت جائے گا۔ یہ سارا کچھ ممکن ہو گیا ناں، نہ امیدواروں نے انتخابی دفتر بنائے، نہ کھابے چلے، نہ گاڑیوں کے جھولے ملے، نہ پوسٹر لگے، نہ بینر لگا، نہ روپے کی سرکولیشن ہوئی اور چپ چپیتے الیکشن ہو گیا۔ یہاں تک کہ لوگوں کی سرمایہ کاری بھی ڈوب گئی لوگوں نے فلیکس پرنٹ کرنے والی مشینیں منگوا کر رکھی ہوئی تھیں۔ انھیں آرڈر ہی نہیں ملا۔ پرنٹنگ پریس والوں کی آنکھیں راہ تکتی رہیں کوئی آیا ہی نہیں۔ غضب خدا کا میڈیا ہاو¿سز نے عارضی سٹاف کی بھرتیاں کر لیں کہ میلہ لوٹیں گے لیکن ماحول ہی نہ بن پایا۔ لہذا ان لوگوں کو گلہ شکوہ نہیں کرنا چاہیے جن کو کہیں سے افطاری کی دعوت نہیں ملی۔ اب انہیں تسلیم کر لینا چاہیے کہ دنیا بدل گئی ہے۔ جہاں بہت کچھ بدل گیا ہے وہیں آج کے دور کے گناہ اور ثواب بھی بدل گئے ہیں۔ اس لیے احتیاط کریں۔
٭....٭....٭