• news

یوم شہداءکی قوس قزح

وہ جو اللہ کی راہ میں مارے گئے، انہیں مردہ نہ کہو، وہ زندہ ہیں مگر تمہیں اس کا شعور نہیں،یہ اللہ کا فرمان ہے۔
افق تا افق خوں رنگ کہکشائیں چمک رہی ہیں۔ گلابی نور کے ہالے نے وطن کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔
پاک فوج شہیدوں کی یاد جب بھی مناتی ہے ،تو میری یادوں کی قوس قزح روشن ہو جاتی ہے۔
چھ ستمبر پینسٹھ کی جنگ کے دوروز بعد میں قصور گیا۔ لاری اڈے کے سامنے سڑک کنارے چھوٹا سا ہجوم تھا۔زمین پر چٹائیاں بچھی تھیں، ان پر گبھرو جوانوں کی لاشیں رکھی تھیں، یوں لگتا تھا کہ وہ کسی کھیت میں کام کرتے کرتے، مٹی سے اٹے ہوئے، دم بھرکےلئے سو گئے ہیں ، یہ لاشیں چندروز پرانی تھیں ،مگر پوری طرح ترو تازہ۔کوئی سڑاند نہیں، فضا ایک خوشبو سے لبریز ، میں نے شہیدوں کو زندہ شکل میں دیکھ لیا تھا، یہ کھیم کرن کے محاذ پر ڈٹ گئے تھے، بھارت کے اخباروں میں لیڈیں چھپ رہی تھیں کہ پاک فوج قصور کو چھوڑ کر بھاگ گئی، لاہور پر قبضے کی خبریں بھی اچھالی جا رہی تھیں، میرے پاس ان اخبارات کے فوٹو آج بھی ذاتی لائیبریری میں موجود ہیں۔کسی کو یقین نہ آتا ہو تو غریب خانے پر تشریف لے آئے اور آنکھوں سے بھارتی گوئبلز کا جھوٹ دیکھ لے۔میں نے بعد میں کھیم کرن بھی دیکھا۔ یہ تاریخی قصبہ، پاک فوج کے شہیدوں کے خون کا ورثہ، ایک عرصہ تک پاکستان کے قبضے میں رہا۔
یہ شہید میری سوچ کا انمٹ حصہ بن گئے، کالج کے دنوں میں،میں نے ایک نظم لکھی: اے میرے زندہ مجاہد ، اے میرے زندہ شہید، کئی بین الکلیاتی مشاعروں میں اس نظم پر مجھے انعامات ملے۔اکہتر کی جنگ کو میں نے ایک ایمبیڈیڈ اخبار نویس کے طور پر کور کیا، قصر ہند کے معرکے میں پہلے شہید میجر حنیف ملک کے گلے میں گولے کا ایک ٹکڑا لگا، خون کا ایک فوارہ بہہ نکلا لیکن میجر حنیف ملک اپنے جوانوں کا حوصلہ بڑھانے کے لئے نعرہ تکبیر بلند کرتے رہے، ایک لمحہ وہ بھی آیا جب ان کی آواز کٹے ہوئے نرخرے سے نکلتی محسوس ہوئی، میں نے کوشش کی کہ شہید کے جسم سے پھوٹنے والے خون کے پہلے قطرے کی حرارت اپنی تحریر میں سمو دوں، مگر یہاں تو ہر طرف شہیدوں کی لاشیں بکھری پڑی تھیں، تھری پنجاب رجمنٹ نے پہلی شہادت اپنے بٹالین کمانڈر کرنل غلام حسین کی پیش کی، دشمن کے مورچے سے مشین گن کا پورا برسٹ ان کے ہیلمٹ کو چھیدتا ہوا آر پار نکل گیا،تھری پنجاب آج جہاں کہیں بھی ہو گی، اس کے ہیڈ کوارٹرمیں کرنل غلام حسین شہید کا یہ ہیلمٹ شجاعت کے ایک تمغے کے طور پر موجود ہوگا، میں نے اس ہیلمٹ کا دیدارڈبل پھاٹک کی تکون میں واقع ایڈوانس ہیڈ کوارٹر میں کیا اور میری نظروں نے اس کو بے ساختہ چوم لیا تھا۔حسینی والہ بارڈر کو اسی شہید کرنل کے نام سے ہمیشہ کے لئے موسوم کر دیا گیا۔47 برس گزر گئے، کرنل غلام حسین چیک پوسٹ پر ہر شام فوجی پریڈ ہوتی ہے اور فضا نعرہ تکبیر سے گونج اٹھتی ہے۔شہید اور کس طرح زندہ ہوتے ہیں۔اے میرے زندہ مجاہد، اے میرے زندہ شہید!!تمہیں وطن کی ہوائیں سلام کہتی ہیں۔اڑ کے پہنچو گے تم جس فلک تک، ساتھ جائے گی آواز میری، اور ایہہ پتر ہٹاں تے نئیں وکدے، توں لبھ دی پھریں بازار کڑے۔یہ ہیں راہ حق کے شہید، یہ ہیں وفا کی تصویریں!!پاک فوج شہیدوں کی امانت دار ہے، اس نے شہیدوں کی میراث کو ہمیشہ سینے سے لگائے رکھا ، اسے حرز جاں بنائے رکھا۔ ہمیشہ شہیدوں کے راستے پر گامزن رہنے کی کوشش کی۔وطن کوجب بھی کسی بیرونی یا اندرونی جارحیت کا سامنا ہوتا ہے تو پاک فوج کے جوان اور افسر شہادتوں کا گل و گلزار مہکا دیتے ہیں۔رن آف کچھ کا معرکہ درپیش ہو، سلیمانکی ،برکی یا ہڈیارہ کی آزمائشیں ہوں،جسڑ ، ظفر وال اور شکر گڑھ کے محاذ ہوں یا چھمب، جوڑیاں ،کارگل اور سیاچین میں دشمن سے سامنا ہو، ہمارے جوانوں اور افسروں نے دلیری اور شجاعت کے شاہنامے اپنے خون سے تحریر کئے جو تاریخ کے ماتھے کا جھومر بن کر چمکتے رہیں گے۔میجر طفیل، میجر عزیز بھٹی، میجر سرور اور ان جیسے دیگر جانبازوں نے نشان حیدر کی شاہراہیں روشن کیں، فضاﺅں میں اور سمندروں میں دلیر ، شیر اور گھبرو ،قوم کی آنکھوں کی چمک بن کر زندہ و پائندہ بن گئے۔سرفراز رفیقی، علاﺅالدین اور سیسل چودھری کے کارنامے ابد تک زند ہ و تابندہ رہیں گے، ان کے ذکر پر دلوں کی دھڑکن تیز ہو جاتی ہے، آنکھیں عجز ونیاز سے جھک جاتی ہیں،اور ولولے اور جذبے ہمالہ کی رفعتوں سے ہمکنار ہو جاتے ہیں۔
پاکستان میں ایک المیہ یہ ہوا کہ فوج مارشل لا میں الجھ گئی اور عوام کے ایک طبقے نے اسے نفرت کا نشانہ بنا لیا۔فوج اورعوام کے درمیان فاصلے بڑھتے چلے گئے، جنرل اشفاق پرویز کیانی نے کمان سنبھالی تو انہیں اس المیے کا پورا پورا احساس تھا، انہوں نے فوج کو سیاست سے دور کرنے کا اعلان کیا،فوج کے شہدا کی یا دمنانے کےلئے ہر سال تیس اپریل کا دن مخصوص کردیا۔ پورے ملک میں شہیدوں کو سلامی پیش کی جا تی ہے، ایک مرکزی تقریب جی ایچ کیو میں ہوتی ہے جہاں جنرل کیانی نے مہمان خصوصی کے طور پر خطاب کیا اور ہر کور ہیڈ کوارٹر میں بھی شہیدوں کی لا زوال عظمت کے سامنے جھکے ہوئے سروں کی قطار نمایاں ہے۔پاک فوج نے اپنے سربراہ کے قول کو نبھا کر دکھا دیا مگر قوم کا ایک حصہ ابھی تک بد گمانیاں پھیلانے میں مصروف ہے۔اسی لئے کاکول میں پاسنگ آﺅٹ پریڈ سے خطاب کرتے ہوئے جنرل کیانی نے اس نکتے کو نمایاں کیا تھا کہ قوم اور مسلح افواج متحد ہو کر ملک کی سیکورٹی کو یقینی بنا سکتی ہیں۔فوج نے اس اتحاد میں رخنہ ڈالنے کی کوئی کوشش نہیں کی، نازک اور سنگین لمحات میں بھی صبر وتحمل کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا، کئی لوگوں نے اسے بار بار پکارا اور کئی لوگوں نے اسے بار بار للکارا مگر فوج نے اپنے کام سے کام رکھا، اس نے شہیدوں کے لہو کی لاج رکھنے کی کامیاب کوشش کی اور اس کا سہرا بجا طور پر جنرل کیانی کے سر سجتا ہے۔
پچھلے ایک عشرے میں فوج کے مجموعی کردار کی تحسین نہ کی جائے تو یہ ایک ناقابل معافی بخل ہوگا۔ملک کو اندر اور باہر سے ایک پیچیدہ صورت حال کا سامنا ہے، دشمن نظر نہیں آتا ، یہ بے چہرہ ہے، ہماری صفوں کے اندر گھسا ہوا ہے، ہمارے بھیس میں ملبوس ہے، ہماری شکلوں سے ملتا جلتا ہے مگر اس کا ایجنڈہ اس ملک کا نہیں، کسی اور کا ہے۔وہ ہمیں تبا ہ کرنے پر تلا ہوا ہے ، اس نے ہمارے پچاس ہزار شہریوں کا خون بہا دیا، ان میں آٹھ ہزار فوجی جوان اور افسر بھی شامل ہیں۔کسی قوم نے اور کسی فوج نے اتنے قلیل عرصے میں اس قدر بیش بہا اور ان گنت قربانیاں پیش نہیں کیں۔دنیا کی بہترین اور جدید تریں اسلحے سے لیس امریکی اور اتحادی افواج میدان سے پسپائی اختیار کر کے جا رہی ہیں مگر پاک فوج پکے پاﺅں ڈٹی ہوئی ہے، سرفروشی کی نئی داستانیں رقم کر رہی ہے،اس کے ساتھ قوم بھی ہر روز قربانیاں پیش کر رہی ہے، ملک نئے انتخابات کے مرحلے میں ہے مگر دشمن ان کو سبو تاڑ کرنے پر تلا ہوا ہے، ہمیں اس خطرے کا متحد ہو کر سد باب کرنا ہے، ایک ان دیکھے، بے چہرہ، بے نام دشمن کے عزائم کو خاک میں ملانا ہے، ہمارے قومی شہید ہمارے لئے مینارہ نور ہیں،ان کی روشن کردہ کہکشاﺅں پر چلتے ہوئے ہم منزل کو یقینی طور پر پا سکتے ہیں، ان شہیدوں کو سلام، ان کی عظمت اور جرات کو سلام۔اور انکے سپاہ سالار کو سلام جس نے شہیدوں کی یادسے وطن کی فضائیں معطر کر دی ہیں۔اے وطن ہم ہیں تری شمع کے پروانوں میں۔ان پروانوں پر ہمارے جان و دل نثار!!!
٭٭٭

اسد اللہ غالب....انداز جہاں

اسد اللہ غالب....انداز جہاں

ای پیپر-دی نیشن