مجید نظامی کے ساتھ گذرے زندگی کے پینتیس سنہری سال
عطاء الحق قاسمی
میری یادوں میں تو جیتے جاگتے مجید نظامی ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ میں1966ء میںایم اے کا امتحان دینے کے بعد فارغ تھا، میرے کالم فرسٹ ایئر1959ء سے ہفت روزہ شباب میں گاہے گاہے شائع ہوتے تھے، میرے بچپن سے آج تک کے دوست سود علی خاں نے اپنے بہنوئی خواجہ حبیب اللہ ککرو جو سری نگر سے لاہور آ کر آباد ہوئے تھے، سے بات کی ان کے مجید صاحب سے گہرے مراسم تھے وہ مجھے ان کے پاس لے گئے اور میں نوائے وقت سے وابستہ وگیا۔25 روپے فی کالم مشاہرہ مقرر ہوا، بعد میں سب ایڈیٹر کے طور پر323 روپے ماہوار اس کے علاوہ تھے۔ کچھ عرصے کے بعد ایم اے او کالج کے پرنسپل اور ممتاز ماہر تعلیم سید کرامت حسین جعفری کے انٹرویو کے لئے ان کے دفتر میں گیا اور میرا نام پوچھنے کے بعد انہوں نے پوچھا’’مولانا بہائوالحق قاسمی کے ساتھ تمہارا کوئی رشتہ ہے؟‘‘ میں نے کہا’’جی‘‘ وہ میرے والد ہیں‘‘، اس پر انہوں نے اٹھ کر مجھے گلے لگا لیا اور بولے’’چھوڑو انٹرویو، تم کالج میں بطور لیکچرار آ جائو‘‘پتہ چلا کہ ابا جی ایم اے او کالج امرتسر میں جعفری صاحب کے کولیگ تھے اور دونوں میں بہت محبت اور احترام کا رشتہ تھا، میں ان دنوں اپنے دوستوں کے ساتھ امریکہ جانے کا پروگرام بنا رہا تھا، میں نے جعفری صاحب کو بتایا تو بولے’’کوئی بات نہیں، ایک نہ ایک دن تو تم نے لازمی واپس آنا ہے چنانچہ جب بھی آئو ایم اے او کالج کے دروازے تمہارے لئے کھلے رہیں گے‘‘اور واقعی میں دو سال بعد واپس آگیا، مگر کالج جائن کرنے سے پہلے میں نے مجید صامحب کی منظور لینا ضروری سمجھی۔ میں ان کے پاس گیا اور صورتحال بتائی انہوں نے مجھ سے پوچھا’’آپ کو صحافت اور تعلیم میں سے کون سا شعبہ زیادہ پسند ہے؟‘‘ میں نے جواب دیا’’تعلیم‘‘ بولے’’ٹھیک ہے، آپ کالج جوائن کر لیں لیکن ایک وعدہ کریں‘‘ میں نے مسکراتے ہوئے کہا’’فرمائیں!‘‘ بولے’’آپ لیکچر شپ کے ساتھ ساتھ نوائے وقت کے لئے کالم بھی لکھتے رہیں گے!‘‘ اندھا کو کیا چاہئے دو آنکھیں، یہ تو میرے دل کی آواز تھی جو مجید صاحب نے غالباً سن لی تھی۔ سو میں نے اسی وقتDone کیا اور یوں اپنی جوانی اور ادھیڑ عمری کے35 سال نوائے وقت اور مجید نظامی کے ساتھ گزارے، یہ دن میری زندگی کے بہت سنہری دن تھے۔
میں مجید صاحب کے بارے میں وہ باتیں نہیں دہرائوں گا جو بے شمار لوگ بے شمار مرتبہ دہرا چکے ہیں۔ میں تو ان کی شخصیت کے کچھ ایسے گوشوں کا ذکر کرنا چاہوں گا جس سے عام لوگ ناواقف ہیں، مثلاً نوائے وقت کے قارئین کے ذہن میں ان کی شخصیت کا نقشہ کسی اور طرح کا ہو سکتا ہے، مثلاً ممکن ہے وہ سمجھتے ہوں کہ مجید صاحب داڑھی مونچھ منڈے کوئی مولوی صاحب ہوں گے، ایسا نہیں تھا، وہ پنج وقت نمازی تھے اور شعائر اسلامی کا خیال بھی رکھتے تھے لیکن ان میں’’ملایت‘‘ نہیں تھی، دوست احباب سے گپ شپ کے دوران بہت سے موضوعات پر ان کے خیالات سامنے آتے تھے اور یہ بہت معتدل نوعیت کے ہوتے تھے، اسی طرح عام زندگی میں اگرچہ وہ بہت ریزرو نظر آتے تھے، انہیں مسکراتے بھی کم کم ہی دیکھا جاتا تھا لیکن احباب کے درمیان ایک مختلف مجید نظامی سے ہماری ملاقات ہوئی تھی۔ اس بارے میں تفصیل جاننا ہو تو ان کے دیرینہ اور قریبی دوست جسٹس(ر) فرخ آفتاب سے رجوع کیا جا سکتا ہے، ظاہر ہے میں یہ جسارت تو نہیں کر سکتا کہ خود کو ان کے دوستوں میں شریک کروں لیکن میرے ساتھ ان کا رویہ بہت بے تکلفانہ ہوتا تھا۔ ایک دفعہ راولپنڈی میں جنرل ضیاء الحق کی پریس بریفنگ کے دوران سارے پاکستان کے صحافی فلیش مین ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے تھے، جب ہم لوگوں کو لینے کے لئے گاڑیاں ہوٹل پہنچیں تو مجید نظامی نے ازراہ تفنن کہا’’قاسمی صاحب آپ میری گاڑی میں بیٹھیں‘‘ میں نے کہا’’بہت شکریہ، آپ چلیں میں ایک دوست کے ساتھ پہنچتا ہوں‘‘ اتنے میں ایک خوبصورت لڑکی ہمارے قریب سے گزرتی دکھائی دی تو مجید صاحب نے شرارت بھرے انداز میں مسکراتے ہوئے مجھے مخاطب کیا اور بولے’’قاسمی صاحب، آپ کا دوست آگیا ہے، شکر ہے آپ کو زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑا‘‘ ۔
مجھے ایک اور واقعہ یاد آ رہا ہے دفتر میں ایک صاحب سے میرا جھگڑا ہوگیا، وہ میرے کالم میں بلاوجوہ دخل دیا کرتے تھے، میں ان دنوں ہتھ چھٹ بھی بہت تھا، میں نے ایک بار ان کی اسی نوع کی بے جامداخلت پر سارے دفتر کے سامنے ان کی بہت بری طرح پٹائی کر دی۔مجھے اس کے نتائج کا علم تھا، سو وہی ہوا تھوڑی دیر بعد مجید صاحب نے مجھے اپنے دفتر میں طلب کر لیا، وہ صاحب وہاں پہلے سے موجود تھے۔ ان کی آنکھ نیلی ہو رہی تھی اور ناک سے لہو بہہ رہا تھا۔ مجید صاحب کے چہرے پر مجھے ناراضگی کے کوئی آثار نظر نہیں آئے، انہوں نے مجھ سے نارمل انداز میں پوچھا’’قاسمی صاحب آپ نے انہیں کیوں مارا ہے؟‘‘ میں نے انہیں تفصل بتائی، تفصیل سننے کے بعد مجید صاحب نے ان صاحب کو مخاطب کیا’’آپ آئندہ قاسمی صاحب کے کام میں دخل نہیں دیں گے!‘‘ اور پھر مجھے مخاطب کرکے کہا’’اور آپ انہیں ماریں گے نہیں‘‘ میں نے بمشکل اپنی ہنسی پر قابو پایا اور دفتر سے باہر آگیا۔ مجھے لگا میں نے جو حرکت کی تھی شاید اس میں مجید صاحب کی اپنی خواہش بھی شامل تھی کیونکہ وہ صاحب اپنی حد سے بہت آگے بڑھ چکے تھے اور مجید صاحب بھی شاید اس سے واقف تھے۔
مجید صاحب سے میری قربت کی ایک وجہ قائداعظمؒ اور اقبال سے والہانہ عشق تھا۔ ہم دونوں میں یہ قدر مشترک تھی۔ البتہ اس کی جزئیات میں اختلاف تھا۔ مجید صاحب صرف نماز کے وقت شلوار کرتا پہنتے تھے اس کے علاوہ ہمیشہ سوٹ اور ٹائی میں ملبوس نظر آتے۔ وزیراعظم نواز شریف کے پہلے دور حکومت میں جکارتہ میں منعقد ہونے والی غیر جانبدار ممالک کی کانفرنس میں کچھ صحافی بھی بطور مبصر ان کے ہمراہ تھے۔ جب جہاز جکارتہ ایئر پورٹ پر لینڈنگ کرنے والا تھا۔ ایک اہلکار نے وزیراعظم کی یہ ہدایت پاکستانی وفد کے ارکان تک پہنچائی، کہ جہاز سے اترتے وقت وہ شیروانیوں میں ملبوس ہوں، ہم سب نے شروانیاں پہن لیں مگر مجید صاحب نے انکار کر دیا، پی آئی ڈی کے ایک رکن نے بہت مؤدب انداز میں ایک آدھ دفعہ مزید انہیں وزیراعظم کی خواہش سے آگاہ کیا لیکن مجید صاحب نے انکار کر دیا۔ اب بظاہر یہ امر بھی روایتی ’’پاکستانیت‘‘کے منافی تھا، مگر جیسا کہ میں نے شروع میں کہا کہ وہ ایسے معاملات میں متشدد نہیں تھے۔ میں مجید صاحب کو یاد کرنے بیٹھا ہوں تو سینکڑوں مختلف النوع کی باتیں یاد آ رہی ہیں، جن کا احاطہ یہاں ممکن نہیں۔ ایک بات جو بہت اہم ہے وہ یہ کہ نوائے وقت میں شائع ہونے والی تمام اہم تحریریں ان کی نظروں سے گزرتی تھیں اور ان کی منظوری اور بعض اوقات ایڈیٹنگ کے بعد شائع ہوتی تھیں اور پھر ان کی اشاعت کی ہر ذمہ داری مجید صاحب اپنے کاندھوں پر اٹھا لیتے تھے اور لکھنے والے پر آنچ نہیں آنے دیتے تھے۔ جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کے ابتدائی مہینوں میں انفارمیشن والے پورا اخبار سنسر کرنے کے بعد اس کی اشاعت کی اجازت دیتے تھے۔ اس دور میں میرے بہت سے کالم سنسر کی نذر ہوئے، بعد میں جب یہ پابندی ہٹی تو میں نے’’حسب توفیق‘‘وہ سب کچھ لکھا جو سنسر ہو جاتا تھا، جیسا کہ میں بتا چکا ہوں میں ان دنوں کالج میں لیکچرار بھی تھا جو اب گورنمنٹ کی تحویل میں آ چکا تھا اور نوائے وقت میں کالم کا سلسلہ بھی جاری تھا۔ ایک دن مجھے سیکرٹری تعلیم کی طرف سے نوٹ مل گیا وہ نوٹس میں مجید صاحب کے پاس لے گیا، اس حوالے سے جو کچھ ہوا، اس کی تفصیل پھر کبھی سہی، مگر اتنا یاد ہے کہ میری کالم نگاری اور اس کے تند و تیز جملوں کا سلسلہ جاری و ساری رہا۔ جب جنرل صاحب نے اپنے وزیراعظم محمد خاں جونیجو کی چھٹی بھی کرا دی تو میرے کالموں میں مزید تلخی در آئی۔ ایک دن میں مجید صاحب کے دفتر میں بیٹھا تھا انہوں نے ہنستے ہوئے کہا’’قاسمی صاحب لگتا ہے، جونیجو کی نہیں جنرل صاحب نے آپ کی حکومت ختم کی ہے۔‘‘کالم طویل ہو رہا ہے، آخر میں ایک بات اور مجید صاحب سے بڑا کالم شناس میں نے آج تک نہیں دیکھا، صرف یہی نہیں بلکہ وہ سینئر کالم نگاروں کے کالم میں بھی بعض اوقات ایک آدھ ایسے جملے کا اضافہ کر دیتے تھے جو سارے کالم کی جان ثابت ہوتا تھا۔ یہ مہربانی مجھ پر بھی ایک سے زیادہ مرتبہ ہوئی۔ اس روز جو ملتا وہ مجھے’’میرے‘‘ اس جملے کی داد دیتا جو مجید صاحب کی دین ہوتا تھا اور میں پورے خشوع و خضوع سے وہ داد وصول کرتا، میں کوئی پاگل تھا جو کہتا کہ یہ جملہ میرا نہیں ہے۔