ذرا ترکی اور فلسطین تک
ترکی کے بلدیاتی الیکشن میں صدر طیب اردگان کے ساتھ بہت بری ہوئی۔ نہ صرف یہ کہ وہ استنبول اور انقرہ کی میئر شپ واپس لینے میں ناکام رہے بلکہ ان دونوں شہروں میں انہیں پہلے سے بھی کم ووٹ پڑے اور ساتھ ہی ملک کے زیادہ تر شہر ان کے ہاتھ سے نکل گئے۔ فتح کا سہرا اپوزیشن جماعت ری پبلکن پیپلز پارٹی کے سر بندھا جس کے میئر استنبول کے امام ادغلو اب اگلے صدارتی امیدوار کے طور پر دیکھے جا رہے ہیں۔ اردگان کی پارٹی دوسرے نمبر پر رہی۔ تیسرے نمبر پر وہ اسلامسٹ پارٹی آئی جو سابق اسلام پسند وزیر اعظم نجم الدین اربکان کی ملّی سلامت پارٹی کی جانشین کے طور پر میدان میں آئی ہے اور اس نے اردگان پر اسرائیل نوازی کا الزام لگاتے ہوئے ان سے علیحدگی اختیار کر لی۔ اردگان اس حد تک دلبرداشتہ ہیں کہ انہوں نے آئندہ الیکشن نہ لڑنے کا اعلان بھی کر دیا ہے۔
اردگان کی شکست کے کئی عوامل ہیں۔ ان میں سخت گیر آمرانہ طرز حکومت کا الزام بھی شامل ہے۔ وزرا سے اختلاف رائے پر ’’ملزم‘‘ گرفتار ہو جاتے ہیں اور پھر ضمانت بھی نہیں ہو پاتی لیکن ایک اور اہم عامل ان پر اسرائیل سے خفیہ اتحاد کے الزام کا ہے اور یہ الزام کسی اور نے نہیں، انہی کے سابق ساتھی اور سابق وزیر اعظم (جن کو صدر اردگان نے 2014 ء میں برطرف کر دیا تھا)کی طرف سے سامنے آیا۔ احمد دائود ادغلو نے گزشتہ ہفتے جو الزامات لگائے ان میں یہ بھی شامل تھا کہ اقوام متحدہ میں ملاقات کے موقع پر اردگان نے نیتن یاہو اسرائیلی وزیر اعظم کو یقین دلایا تھا کہ ترکی عوامی دبائو کے باوجود اسرائیل کی امداد میں کمی نہیں کرے گا اور اسرائیل کو فضائی حملوں کیلئے جس اضافی تیل کی ضرورت ہے، وہ ترکی پورا کرے گا۔ دیگر اشیا ئے ضرورت کی فراہمی بھی کی جاتی رہے گی۔ یوں دبے لفظوں میں ترک عوام کا ایک حلقہ اردگان کو غزہ کا قاتل بھی قرار دینے لگا۔ اس دوران یہ الزام بھی سامنے آیا کہ اردگان نے اسرائیل کو اسلحہ اور گولہ بارود بھی فراہم کیا ہے لیکن اس الزام کی تردید ترک حکومت نے فوراً ہی کر دی البتہ احمد دائود ادغلو کے الزام کی تردید نہیں کی گئی۔
اردگان نجم الدین اربکان مرحوم کی اسلامسٹ پارٹی ملّی سلامت پارٹی کے رہنما تھے اور اسی حیثیت میں وہ استنبول کے میئر بنے۔ پھر رفتہ رفتہ ان کے خیالات میں تبدیلی آئی، اسلامسٹ رہنما کے بجائے وہ ترک قوم پرست رہنما تصور کئے جاتے تھے۔ انہوں نے ملّی سلامت پارٹی سے علیحدگی اختیار کر لی اور آق پارٹی بنا لی۔ ملّی سلامت پارٹی کے بہت سے رہنما بھی ان کے ساتھ نئی جماعت میں آ گئے۔
ملی سلامت کی جانشین کا نام نئی رفاہ پارٹی ہے جس نے حالیہ الیکشن میں 6.19 فیصد ووٹ لے کر تیسری پوزیشن حاصل کی ہے۔ دلچسپ بات ہے کہ ترکی میں سیاسی جماعتوں کی تعداد پاکستان کی جماعتوں سے بھی کئی گنا زیادہ ہے، حالیہ بلدیاتی الیکشن میں 36 سے بھی زیادہ سیاسی جماعتوں نے حصہ لیا۔ ان میں سے 20 جماعتوں کو ایک فیصد سے بھی کم ووٹ ملے۔ ری پبلکن پارٹی کو کل ووٹوں کا 37 فیصد ملا۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ ری پبلکن پارٹی اسرائیل نوازی میں سرفہرست ہے۔
_____
غزہ کی جنگ کو 7۔ اپریل کے روز پورے سات ماہ ہو جائیں گے۔ یعنی 210 روز، ان 210 دنوں میں کوئی دن ایسا نہیں گزرا جب فلسطینیوں کی لاشوں کے ڈھیر نہ لگے ہوں۔ اب غزہ کی خونریزی چونکا دینے والا واقعہ نہیں رہا، محض گنتی کا کھیل ہے۔ مرنے والوں کی گنتی 35 ہزار ہو گئی، زخمیوں کی گنتی 80 ہزار ہو گئی، لاپتہ اتنے ہزار، یتیم بچے اتنے ہزار۔
غزہ والے جنگ کے پہلے دس بارہ دن ’’امّۃ ‘‘ کی مدد کے منتظر رہے۔ انہیں اس بات پر یقین کرنے میں کئی ماہ لگ گئے کہ امۃ‘‘ نام کی کوئی شے ’’گلوب‘‘ پر نہیں پائی جاتی۔ انہیں اس بات پر حیرت ہوئی (اور شاید خوشگوار حیرت بھی) کہ مسلمان ممالک میں غزہ والوں کے حق میں جتنے مظاہرے ہوئے اس سے کہیں زیادہ یورپی اور امریکی ممالک میں ہوئے۔ مسلمان ممالک کا جوش چند ہی دنوں میں ٹھنڈا ہو گیا، مغربی ممالک میں اب بھی بڑے بڑے مظاہرے ہو رہے ہیں۔
میں سوشل میڈیا پر تمام فلسطینی پیج دیکھتا ہوں۔ کسی مبالغہ کے بغیر، ہر روز سو کے قریب ایسے کلپ دیکھتا ہوں جو ناقابل برداشت ہیں۔ شروع میں تو رات کو نیند ہی نہیں آتی تھی، ایسے ایسے ناقابل تصور حد تک دردناک واقعات تھے۔ پھر رفتہ رفتہ عادت ہو گئی۔ یہ تمام وڈیوز میں نے محفوظ کر لی ہیں اور ان کی گنتی دسیوں ہزار میں ہے۔ اگر ان کا ذکر کرنا چاہوں تو انتخاب کیسے کروں؟
کچھ وڈیوز ایسی ہیں جو کم دردناک، کم تکلیف دہ اور قدرے قابل برداشت ہیں۔ ان کی تعداد بھی سینکڑوں میں ہے۔ دوچار کا تذکرہ کر دوں؟۔ کیا خیال ہے۔ بے فکر رہیے، یہ کم تکلیف دہ اور قابل برداشت ہیں۔
یہ ایک پانچ چھ ماہ کے بچے کی وڈیو ہے۔ یہ ہسپتال میں بستر پر بیٹھا ہے۔ اسے سر میں کھجلی یا چبھن کا احساس ہوتا ہے۔ وہ بار بار سر کھجاتا ہے اور پھر حیران ہو کر اپنے ہاتھوں کو دیکھتا ہے کہ کیوں وہ اپنے سر کو پہلے کی طرح کھجا نہیں پا رہا؟۔ وہ نہیں جانتا کہ بم پھٹنے سے اس کے دونوں ہاتھ کٹ گئے ہیں۔ ایک کلائی تک، دوسرا ہتھیلی کے پہنچے تک۔ دونوں پر پٹیاں بندھی ہیں، اسے انستھیزیا کے بعد ہوش میں لایا گیا ہے۔ ابھی اسے کچھ سمجھ نہیں آ رہا، آہستہ آہستہ سمجھ جائے گا۔
یہ ایک دس بارہ سال کی بچی ہے۔ پہلی بمباری میں اس کے بابا چلے گئے، دوسری میں بھائی اور بہنیں اور پھر تیسری بمباری میں ماں بھی مر گئی۔ یہ ماں کی قبر سے لپٹی ہوئی ہے، چمٹ گئی ہے، ہاتھ مٹی میں گاڑ دئیے ہیں، رو رو کر کہہ رہی ہے ماں اٹھو، گھر چلو ، یہاں کیوں لیٹ گئی ہو، ہمیں گھر چلنا ہے۔
اس کا گھر نہیں رہا۔ بمباری سے ختم ہو گیا، صرف اینٹوں کا ڈھیر رہ گیا۔ یہ بہت اچھا ہوا۔ گھر بچ جاتاتو یہ بارہ سال کی بجی گھر چلی ہی جاتی۔ وہاں کیا کرتی ؟۔ خالی ڈھنڈار کمروں میں ان چہروں کو ڈھونڈتی پھرتی جو کبھی اس گھر میں رہتے تھے۔ کبھی بابا کو بلاتی کبھی ماما کو، کبھی بھیا کو پکارتی کبھی آپی کو۔ یہ تو بہت ہی اچھا ہو گیا کہ گھر ہی نہ رہا۔
اور یہ بلّی کے دو بچوں کی وڈیو ہے۔ بہت ہی چھوٹے، کوئی دو ہفتوں کی عمر کے۔ گلابی رنگ کے خوبصورت لیکن بری طرح سہمے ہوئے، حیران بچے۔ سڑک ویران پڑی ہے۔ سارا محلہ کھنڈرات میں بدل گیا ہے۔ سڑک کنارے ، فٹ پاتھ کے ساتھ، دیوار کا ایک حصہ سلامت رہ گیا ہے۔ دیوار کے ساتھ ایک بڑا گملا پڑا ہے۔ بری طرح ڈرے، بری طرح سہمے یہ بچے گملے اور دیوار کے درمیان کی جگہ چھپنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن ناکام رہتے ہیں۔ اس فل میں اتنی جگہ نہیں ہے۔ اردگرد دھماکوں کی آوازیں زمین کو کپکپائے جا رہی ہیں۔ ہر دھماکے کی آواز پر یہ بچے ایک دوسرے سے لپٹ جاتے ہیں۔ ان کی ماما دھماکے میں مر گئی ہے۔ آبادی سے خالی اس ویرانے میں یہ دونوں اکیلے رہ گئے ہیں، ایک دوسرے سے لپٹ لپٹ جاتے ہیں۔ یہ سمجھ نہیں پا رہے کہ اس محلے کے سبھی لوگ کہاں گئے چلے گئے اور موت کا نقارہ بجاتی یہ آوازیں کہاں سے آ رہی ہیں۔ ہر دم آوازوں سے گونجنے والے مکانوں میں قبرستان کی خاموشی کیوں ہے۔
کئی ماہ پرانی وڈیو ہے۔ بعد کی کسی بمباری میں یہ دونوں بھی مر گئے ہوں گے۔ بم سے نہیں مرے ہوں گے تو فاقوں سے، انہیں کھانا کھلانے والے نہیں رہے، یہ بھی کہاں رہے ہوں گے۔