خونِ ناحق
میر مرتضیٰ بھٹو نے کتاب ’’میرا پاکستان‘‘ کے پیش لفظ میں لکھا ہے:
’’یہ اس سر بلند شہید کے الفاظ ہیں جس نے دلیری کے ساتھ موت کو قبول کر لیا لیکن ناانصافی ختم کرنے، اپنی سر زمین کے غریبوں کو وقار، عزت اور آزادی فراہم کرنے کی اپنی زندگی بھر کی جدوجہد سے دست بردار نہیں ہوا۔ ظالم اور فوجی حکومت نے جس بے رحمی اور بربریت کے ساتھ ان کو قتل کیا اس سے پوری دنیا میں نفرت کی ایک لہر دوڑ گئی۔ جس جرأت و بہادری اور وقار کے ساتھ انہوں نے سارے مظالم اور ذلت کو برداشت کیا وہ ایک بہتر، زیادہ باعزت اور پر وقار زندگی کی جدوجہد کرنے والے دنیا کے غریب عوام کے لیے باعث افتخار ہے اور مثالی حیثیت رکھتا ہے۔ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی زندگی غریبوں اور مظلوموں کے دکھوں کا مداوا کرنے اور اپنے غریب ملک کے فرزندوں کے آنسو خشک کرنے کے لیے وقف کر دی، لہٰذا یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ ان کے قتل سے ایک قوم یتیم ہوگئی۔ یہ کوئی حیرت کی بات نہیں ہے کہ ان کی شہادت سے تمام فرزندانِ پاکستان کی آنکھیں اشکوں سے تر ہوگئیں۔‘‘
قائدعوام کی تحریر کردہ کتاب ’’میرا پاکستان‘‘ کو مسلم دنیا کے سیاسی، حکومتی اور صحافتی حلقوں میں بڑی پذیرائی حاصل ہوئی۔ بھٹو شہید کی یہ تحریر پاکستان کے بدترین فوجی آمر جنرل ضیا کے وحشیانہ ،جابرانہ مظالم کا پردہ چاک کرتی ہے۔وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو شہید کے خلا ف جھوٹے مقدمہ قتل پر دنیا بھر میں نفرت انگیز شدید ردعمل ہوا۔ اور اس ناانصافی کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی گئی۔ لندن میں قائم کمیٹی نے Pakistan of Agonyکے نام سے ایک کتاب شائع کی جس میں بددیانتی پر مبنی اس مقدمے کے پس منظر کے علاوہ ممتاز اخبارات و جرائد کے اداریے، رپورٹس اور تبصرے شائع ہوئے جس سے اس بے بنیاد مقدمے کے ظالمانہ محرکات جاننے میں مدد ملی۔
عالمی رائے عامہ کے شدید ردعمل پر مبنی اس اہم دستاویز کو بھی کتاب میں شامل کیا گیاہے تاکہ لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس مولوی مشتاق حسین کی عدالت میں چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف بدیانتی اور ناانصافی کا جو شرمناک کھیل کھیلا جارہا تھا اس کے بارے میں پاکستان کے عوام اور نئی نسل آگاہ ہو سکے۔
پاکستان کے منتخب عوامی وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل کے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو اپنے عظیم والد اور پاکستان کے محبوب قائد ذوالفقار علی بھٹو شہید کے مشن پر کاربند رہیں اور مارشل لا کے خلاف بے مثال جدوجہد میں قیدوبند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں۔انہوں نے ہمت، عزم اور ناقابل تسخیر حوصلہ سے ایک شاندار جدوجہد جاری رکھی اور بالآخر 28 دسمبر 2007ء کو انہیں راولپنڈی کے لیاقت باغ میں بڑی سفاکی اور بربریت کے ساتھ شہید کر دیا گیا۔
بھٹو خاندان نے پاکستان کے عوام کے جمہوری حقوق، عوام کی حاکمت یا انسانی حقوق اور آمریت کے مظام کے خلاف جانیں قربان کرکے برصغیر میں خونی داستان کی قابلِ فخر تاریخ رقم کی ہے۔ خصوصاً محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کی طویل جدوجہد کو ایک بین الاقوامی موضوع کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ ان کی جرات و بہادری کا یہ ورثہ پاکستان کے عوام کی امانت ہے۔
قائدعوام ذوالفقار علی بھٹو نے سزائے موت کے خلاف 12مارچ 1979ء کو یہ لکھا تھا:
’’میرا خدا جانتا ہے کہ میں نے اس آدمی کا خون نہیں کیا۔ اگر میں نے اس کا ارتکاب کیا ہوتا تو مجھ میں اتنا حوصلہ ہے کہ میں اس کا اقبال کر لیتا۔ یہ اقبال جرم کرنا وحشیانہ مقدمے کی کارروائی سے کہیں کم اذیت دہ اور بے عزتی کا باعث ہوتا۔ میں مسلمان ہوں اور ایک مسلمان کی تقدیر کا فیصلہ قادر مطلق کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ میں صاف ضمیر کے ساتھ اس کے حضور پیش ہو سکتا ہوں اور اس لیے کہہ سکتا ہوں کہ میں نے اس مملکت اسلامیہ پاکستان کو راکھ کے ڈھیر سے دوبارہ ایک باعزت قوم کی شکل میں تعمیر کر دیا ہے۔‘‘
بھٹو زرداری اپنے نانا کے سیاسی مشن کو آگے بڑھانے کے لیے کوشاں ہیں۔
شہید کی 46 ویں برسی کے موقع پر اپنے پیغامات میں صدر مملکت آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ شہید بھٹو امید کا منارہ نور تھے اور آنے والے وقتوں میں بھی وہ امید کا منارہ نور رہیں گے۔ انہوں نے کہا کہ جمہوریت، شہری آزادیوں اور صوبائی خود مختاری کیلئے پارٹی پرعزم رہے گی۔ انہوں نے اپنے پیغام میں کہا شہید بھٹو نے ملک کو متفقہ آئین دیا جس کی بنیاد انسانی حقوق اور صوبائی خودمختاری کے اصولوں پر ہے، تبدیلی ووٹ کے ذریعے آنی چاہیے نہ کہ گولی کے ذریعے اور یہی پارٹی کے بانی چیئرمین کا دیا ہوا سیاسی سبق ہے۔پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا پاکستانی قوم شہید ذوالفقار علی بھٹو کو کھونے کا درد صدیوں تک محسوس کرتی رہے گی، لیکن جنہوں نے اس عظیم لیڈر کی جان لی، وہ آج تاریخ کے کوڑے دان میں پڑے ہیں۔ انہوں نے حقیقی جمہوریت کی بنیاد حق رائے دہی پر قائم پارلیمانی نظام پر رکھی۔آج پاکستان پیپلز پارٹی ملک کی ایک بڑی جماعت ہے ایک صوبے میں اس کی مکمل اور دو صوبوں میں اتحادی حکومت ہے جبکہ ملک کے صدر آصف علی زرداری ہیں، یہ قدرت کا انعام نہیں تو اور کیا ہے کہ جس جماعت کو ختم کرنے کے لئے پوری ریاستی مشینری نے زور لگا دیا وہ آج بھی اپنے عروج پر ہے۔پاکستان کی جمہوری جد و جہد کی تاریخ بھٹو سے شروع ہوتی ہے اور بھٹوز پر ہی ختم ہوتی ہے، اس بات کا ادراک بہر حال قوم کو کرنا چاہیے کہ جن آزاد فضاؤں میں وہ سانس لے رہے ہیں وہ بھٹوز کی ہی دی ہوئی ہیں۔