• news

 ججوں کو مشکوک خطوط ،جمہوریت کیخلاف سازش 

اسلام آباد ہائی کورٹ کے 8 فاضل ججوں کو پائوڈر بھرے مشکوک خطوط موصول ہوئے ہیں جس میں ڈرانے دھمکانے کیلئے کیمیکل رکھا گیا تھا۔ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس عامر فاروق نے سائفر کیس کی سماعت کے دوران تصدیق کی  کہ ہمیں خط موصول ہوئے ہیں۔ایک جج کے سٹاف نے خط کو کھولا تو اس کے اندر زہریلا پائوڈر موجود تھا۔اس کے بعد باقی خط نہیں کھولے گئے۔ خط ریشم اہلیہ وقار حسین نامی خاتون کی طرف سے لکھے گئے۔ کھولتے ہی سٹاف کی آنکھوں کے اندر جلن شروع ہوگئی۔ خط کے متن پر لفظ ’انتھراکس‘ لکھا تھا۔
انتھراکس ایک مہلک کیمیکل ہے۔ماضی میں بھی اس کی خطوط میں ڈال کر خوف و ہراس پھیلانے کی مثالیں موجود ہیں۔بادی النظر میں یہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کوہراساں اور خوفزدہ کر کے اپنے مقاصد کے لیے بلیک میل کرنے کی سازش ہے۔اس کے پیچھے کون ہو سکتا ہے؟ سیاسی منظر نامے پر غور کریں تو  پردے کے پیچھے چہرے تھوڑے بے پردہ  ہوجاتے ہیں۔آٹھ فروری کے انتخابات کا اعلان ہو چکا تھا اس کے بعد انتخابات کو مؤخر کرانے کی ہر ممکن کوشش کی گئی۔ حکومت  اور اداروں کو دھمکیاں دی گئیں۔سپریم کورٹ کی طرف سے آٹھ فروری کے انتخابات کا واضح اعلان کیا گیا تھا یہ تک کہا گیا کہ اٹھ فروری کے انتخابات پتھر پر لکیر ہیں اس پر کسی قسم کی میڈیا پر بات نہیں ہوگی اس کے باوجود کچھ لوگوں کی طرف سے انتخابات کو مؤخر کرانے کی کوشش کی گئی۔ جلسے کیے گئے جلوس نکالے گئے حتیٰ کہ کچھ لوگ تو سینٹ میں قرارداد لانے اور اسے منظور کرانے میں بھی کامیاب ہو گئے۔ ایک نگران گورنر بھی انتخابات کو مؤخر کرانے کی کوشش کرنے والوں کا ساتھ دیتے نظر آئے۔جیسا سپریم کورٹ کی طرف سے واضح کیا گیا تھا کہ آٹھ فروری کو ہر صورت انتخابات ہوں گے اور آٹھ فروری کو الیکشن کمیشن اور صدر کی جانب سے دیئے گئے شیڈول کے مطابق انتخابات ہو گئے۔
ان انتخابات کے نتائج کو متنازعہ بنانے کی ہر ممکن کوششیں بھی سامنے آئیں۔فارم 45 اور 47 کی بحث شروع ہو گئی۔ایک پارٹی کی طرف سے دو تہائی اکثریت سے بھی زیادہ نشستیں حاصل کرنے کے دعوے کیے گئے۔ یہ فارم 47 اور 45 زیادہ جوش و جذبے سے لہراتی نظر آئی۔زیر حراست اس پارٹی کے بانی کی طرف سے نتائج کے خلاف ایک بار پھر اپنی پارٹی کے کارکنوں کو متحرک کیا گیا۔کئی لیڈر اورکارکن اپنے لیڈر کی بات پر ایمان کی حد تک اعتماد کرتے ہیں۔اسی لیڈر کی طرف سے جب 35 پنکچرز کی بات کی گئی تھی تو اس پر بھی پارٹی لیڈروں اور کارکنوں کی طرف سے یقین کرتے ہوئے ایک عرصے تک واویلا کیا جاتا رہا۔پھر ایک روز بانی تحریک انصاف کی طرف سے کہا گیا کہ 35 پنکچرز والا بیان سیاسی تھا۔اب ایک بار پھر بانی پی ٹی آئی کی طرف سے فارم 45 اور 47 کے تنازع پر اسے سیاسی بیان قرار دیا جا سکتا ہے۔
چند روز پہلے اسلام اباد ہائی کورٹ کے چھ ججز کی طرف سے سپریم جوڈیشل کونسل کو خط کے ذریعے آگاہ کیا گیا کہ ان کے لیے آزادی سے کام کرنے کے راستے میں کئی ماہ سے رکاوٹیں کھڑی کی جا رہی ہیں۔سپریم کورٹ کی طرف سے اس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے سات رکنی بینچ تشکیل دے دیا گیا جس کی طرف سے اس کے اس کی پہلی سماعت کل بدھ کے روز ہوئی۔ قاضی فائز عیسیٰ کی طرف سے پہلے روز کی سماعت کے خاتمے پر کہا گیا کہ ہو سکتا ہے کہ آئندہ فل کوٹ بنا دیا جائے اور یہ سماعت 29 اپریل تک ملتوی کر دی گئی۔اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججز کی طرف سے لکھے جانے والے خط کے مندرجات کو دیکھیں تو پاکستان کی عدلیہ کی آزادی ایک سوالیہ نشان نظر آتی ہے۔ اس خط سے عالمی سطح پر کیا پیغام گیا ہوگا؟
تحریک انصاف کے بانی عمران خان تین کیسز میں سزا کے بعدجیل میں قید ہیں۔ان کی سزاؤں پر اپیلیں سنی جا رہی ہیں۔ان کی اہلیہ بشری بی بی بھی دو کیسز میں سزا یافتہ اور زیر حراست ہیں۔ان کی طرف سے الزام لگایا گیا ہے کہ ان کو کھانے میں زہر دیا گیا جس کے بعد ان کی طبیعت خراب ہوتی ہے، آنکھوں میں سوجن سینے معدے میں تکلیف، کھانا پینا کڑوا لگتا ہے۔عمران خان کی طرف سے بھی اس الزام کی تائید کرتے ہوئے کہا گیا کہ ان کی اہلیہ کو زہر دیا گیا ہے۔بشری بی بی  کو کچھ ہونے کی صورت میں عمران خان کی طرف سے کچھ لوگوں کو اس کا ذمہ دار بھی قرار دے دیا گیا۔حکومتی حلقوں کی طرف سے ان الزامات کو مسترد کیا گیا ہے۔تا ہم جو الزامات لگ گئے ہیں اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ عالمی سطح پر ایسے الزامات کا پاکستان کے حوالے سے کیا تاثر جاتا ہے۔
آٹھ فروری کو انتخابات ہوئے اس کے بعد حکومت سازی کا عمل ابھی ابھی مکمل ہوا ہے۔ سینٹ کے انتخابات ابھی مکمل نہیں ہوئے کیونکہ خیبر پختونخواہ میں تحریک انصاف کے حامی آزاد ارکان  حکومت ہے جو خصوصی نشستوں پر کامیاب ہونے والے ارکان سے حلف لینے سے انکاری ہے۔ خصوصی نشستوں پر کامیاب ہونے والوں کی حلف برداری تک الیکشن کمیشن نے خیبر پختونخواہ میں سینٹ الیکشن ملتوی کر دیئے ہیں۔سپیکر اسمبلی خصوصی نشستوں پر کامیاب ہونے والوں سے حلف نہ لے کر دنیا کو کیا بتانا چاہتے ہیں؟
انتخابات کے بعد ادھر مرکزی اور صوبائی حکومتیں اپنی پوزیشنیں سنبھال رہی ہیں اْدھر پی ٹی آئی سمیت پانچ پارٹیوں کا ایک گرینڈ الائنس بن گیا ہے جس کی سربراہی محمود اچکزئی کے سپرد کی گئی ہے۔ عید کے بعد یہ پارٹیاں مزاحمتی تحریک چلائیں گی۔پی ٹی آئی اس اتحاد میں سب سے بڑی موثر اور متحرک پارٹی بلکہ مدارالمہام ہے۔حکومتوں کے قیام کے پہلے ماہ ہی ان کے خلاف تحریک کا کیا جواز بنتا ہے؟
بعض عناصر جو بے چہرہ بھی نہیں ہیں۔دراصل اسی شاخ کو کاٹ رہے ہیں جس پر خود بھی بیٹھے ہیں۔انہوں نیجمہوری نظام کو چلنے نہ دینے کی ٹھان لی ہے جبکہ ملک کی معیشت پر بھی اس کے منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ سیاسی اور ادارہ جاتی قیادتوں کو اپنی اناؤں اور ذاتی مفادات سے باہر نکل کر کسی مشترکہ حکمت عملی کے تحت ملک کو گرداب سے باہر نکالنا چاہیئے ورنہ کسی کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔

ای پیپر-دی نیشن