جمعرات، 24رمضان المبارک ، 1445ھ،4 اپریل 2024ء
دنیا میں 20 فیصد خوراک ضائع ہو جاتی ہے
دنیا بھر میں اس وقت 80 کروڑ افراد پیٹ بھر کر کھانے کو ترستے ہیں تو دوسری طرف دنیا بھر میں دستیاب خوراک کا 20 فیصد حصہ ضائع ہوتا ہے۔ لوگ جتنا کھاتے ہیں اس کا ایک تہائی ضائع کرتے ہیں اور اس پر فخر محسوس کرتے ہیں۔ یہ جو 20 فیصد خوراک ضائع ہوتی ہے ایک ارب انسانوں کا پیٹ بھرنے کے لیے کافی ہے جبکہ اس کو بچانے کے لیے کوئی بندوبست نہیں ہوتا اور یہ کچرہ دانوں میں ضائع ہوجاتی ہے۔ سب سے زیادہ خوراک عرب ممالک میں ضائع ہوتی ہے۔ حیرت ہے یہ وہ علاقے ہیں جو صحرائی خطہ ہونے کی وجہ سے سوائے کھجور کے اور بہت کم زرعی و غذائی اجناس پیدا کرتے ہیں۔ خیر سے ہم بھی اس میدان میں نہایت بری کارکردگی دکھاتے ہیں۔ عام گھروں میں ہوٹلوں میں شادی بیاہ اور غمی کی تقریبات میں بے دردی سے خوراک کا بڑا حصہ ضائع کرتے ہیں اور پھر ایک دوسرے کو سارا سال درس دیتے پھرتے ہیں کہ خوراک ضائع کرنا گناہ ہے۔ مگر خود یہ گناہ بڑھ چڑھ کر کرتے ہیں۔ یہ ضائع شدہ کھانا بعدازاں سڑکوں کچرہ دانوں میں پڑا ملتا ہے۔ اگر ہم اپنی پلیٹ میں اپنے معدے سے زیادہ کھانا ڈالیں گے تو پھر اسے کھانے سے تو رہے۔ وہ ضائع ہی ہو گا مگر کیا کریں کیا بڑا کیا چھوٹا کیا ادنیٰ کیا اعلیٰ سب کھانے کی لوٹ مار میں حصہ بقدر جثہ لیتے ہیں اور بعد میں آدھی پلیٹ چھوڑ کر اٹھتے ہیں۔ شادی بیاہ قل اور چہلم میں تو چلو یہ مال مفت دلِ بے رحم والا معاملہ ہوتا ہے مگر ہوٹلوں میں خاص کر بڑے بوفے سسٹم والے ہوٹلوں میں بھی یہی کچھ ہوتا نظر آتا ہے حالانکہ وہاں تو پیسہ جیب سے ادا کیا جاتا ہے۔ مگر کیا کریں بھوکی نظریں اور نیت کبھی سیر نہیں ہوتی۔ کاش کہ اضافی کھانا ضائع ہونے سے بچا کر ان طبقوں تک پہنچایا جائے جو مستحق ہیں تو لاکھوں افراد کا پیٹ بھرا جا سکتا ہے۔
پی ٹی آئی کے کپتان کی رہائی کی ریلی میں مائیک کے حصول کیلئے چھینا جھپٹی
جب ریلی جوش و خروش والی ہو کارکنوں کے فلک شگاف نعرے دل میں دبے جذبات کو ابھار رہے ہوں تو پھر پارٹی رہنمائوں کے جذبات بھی مچل جاتے ہیں ان کا فن خطابت بھی جاگ اٹھتا ہے۔ تقریر کرنے کا شوق کس کو نہیں ہوتا جلسوں میں تو یہ شوق عروج پر ہوتا ہے۔ سو ایسا ہی گزشتہ روز پی ٹی آئی کی اسلام آباد میں نکالی جانے والی ریلی میں بھی ہوا۔ ریلی کے اختتام پر جب خطاب کا وقت آیا تو بیرسٹر گوہر خطاب کرنے لگے۔ وہ چیئرمین ہیں مگر کیا مجال ہے جو انہیں آرام سے تقریر کرنے کا موقع دیا گیا ہو۔ عمر ایوب اور شیر افضل مروت ان کے ہاتھ سے مائیک لینے کے لیے بار بار ان کی تقریر میں مداخلت کرتے رہے۔ یوں لگتا تھا گویا ان کے ہاتھ میں مائیک نہیں گوشت ہو اور چیلیں اس پر جھپٹ رہی ہوں۔ اسی سبب بیرسٹر گوہر خطاب چھوڑ کر چلے گئے۔ عمر ایوب بولنے لگے تو انہیں بھی بولنے نہیں دیا گیا مائیک لینے کیلئے دھینگا مشتی ہوتی رہی۔ وہ بھی تقریر کے دوران ہی ہتھیار ڈال گئے اور یوں مائیک شیر افضل مروت کے پاس آیا۔ ویسے بھی ان کا خیال ہے کہ یہ ریلی انہی کی وجہ سے کامیاب ہوئی اتنے لوگ آئے اس لیے خطاب کا حق ان کا ہی ہے۔ باقی رہنمائوں کے دل کے ارماں دل میں ہی رہ گئے اور وہ تقریر نہ کر سکے۔ یوں مقابلہ فن تقریر مکمل نہ ہو سکا۔ ایک انار سو بیمار والی حالت کے باعث ہزاروں کارکن اپنے باقی رہنما?ں کے حسن خطابات سے محروم رہے۔ ویسے بھی کارکنوں کی نعرہ بازی عروج پر رہی وہ لمحے بھر کو نہیں تھمی تو لذت تقریر کون دیکھتا۔ ریلی میں ہی شیر افضل مروت نے روایتی اکڑ فوں دکھاتے ہوئے ایک کارکن بے چارے کو جو ان کے قریب تھا ایک عدد تھپڑ بھی رسید کیا جو بے چارہ منہ دیکھتا رہ گیا۔ شاید یہ بھی مروت کی شان لیڈری کا ایک حصہ ہے۔ جس کا انہوں نے بروقت سب کے سامنے مظاہرہ بھی کیا۔
مکہ مکرمہ میں زائرین کو بھیک دینے سے روک دیا گیا۔ 4 ہزار بھکاری گرفتار۔
سعودی حکومت نے رمضان المبارک کے آخری عشرے میں کمائی کرنے کے لیے دنیا بھر سے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ آنے والے بھکاریوں کے خلاف کریک ڈائون کا آغاز کر دیا ہے اور حرمین میں عمرہ زائرین سے بھی کہا گیا ہے کہ وہ بھیک مانگنے والے ان پیشہ ور بھکاریوں کی حوصلہ شکنی کرتے ہوئے انہیں بھیک بالکل نہ دیں۔ اطلاعات کے مطابق اب تک 4 ہزار کے لگ بھگ بھکاری پکڑے جا چکے ہیں ان میں پاکستانیوں کی بڑی تعداد بھی شامل ہے جو ہر سال لاکھوں کی دیہاڑی لگانے یعنی رمضان میں بھیک مانگنے سعودی عرب جاتے ہیں۔ اسلام میں بھیک مانگنے کی سختی سے ممانعت ہے۔ گداگری کو ایک لعنت کہا گیا ہے۔ مگر کیا کریں بھکاری مافیا اب ایک مضبوط گروہ کی شکل اختیار کر گیا ہے۔ ملک کے اندر اور بیرون ملک ان کے کارندے لاکھوں روپے وصول کر کے بھکاریوں کو ان کے ٹھکانوں پر پہنچاتے ہیں اور ان کی حفاظت کرتے ہیں۔ اندرون ملک تو خیر ہے ہم ان گداگروں کی فوج ظفر موج کے عادی ہو چکے ہیں۔ رمضان المبارک میں یہ مافیا ہر سڑک پر قبضہ جمائے نظر آتا ہے۔ کوئی چوک، کاروباری مرکز، تجارتی علاقہ ان کی دستبرد سے محفوظ نہیں ہوتا۔ ہر سال کوحکومت کئی بار ان کیخلاف ایکشن لیتی ہے، مہم چلاتی ہے مگر ہمیشہ حکومتیں ہار جاتی ہیں اور یہ بھکاری جیت جاتے ہیں۔ مگر بیرون ملک ایسا نہیں ہوتا۔ اب سعودی عرب میں ایکشن لیا گیا ہے جو بھرپور نتائج لائے گا اور وہاں کوئی شہری یا زائر بھی اب ان فقیروں کو ایک دھیلا بھی نہیں دے گا۔ دکھ ہوتا ہے جب ہم دیارِ مقدس میں ہٹے کٹے پاکستانیوں کو میلے کچیلے پرانے لباس میں جا بجا سڑکوں پر ہاتھ پھیلائے دیکھتے ہیں جس کی شاندار اداکاری اور آنسو بھری آنکھوں کے علاوہ ازلی پھٹکار برستی صورت دیکھ کر بہت سے لوگ جن میں پاکستانی بھی شامل ہیں انہیں بھیک دیتے ہیں اور یہ نہیں سوچتے کہ یہ لوگ اگر فقیر اور محتاج ہیں تو سعودی عرب کس طرح آ گئے جہاں لاکھوں روپے ٹکٹ دے کر ہی آیا جا سکتا ہے…
کچے کے ڈاکوئوں کے خلاف عید کے بعد بھرپور کارروائی ہو گی
اب مزید ہزاروں پولیس اہلکار روانہ ہوں گے مگر یہ عید تک کی مہلت کیا انہیں عید منانے کی اجازت ہے کہ وہ اس ہفتے خوب مزے سے عیدی کمائیں جسے چاہیں اٹھائیں اور تاوان طلب کریں۔ ان بدبختوں کے خلاف تو عید کے دن بھی طیاروں سے بمباری ہونی چاہیے۔ تین صوبوں کی ناک میں انہوں نے دم کر رکھا ہے۔ لوگوں کو اغوا کرنے کے نت نئے طریقے اختیار کر کے انعام کے نام پر شادی کے دھوکے میں ٹریکٹر آسان قسطوں میں دینے یا سستی گاڑی کے لالچ کے علاوہ انہیں ملازمت کے جھوٹے لارے دے کر کبھی عورت بن کر کبھی افسر بن کر بلاتے ہیں اور اغوا کر کے ان کے لواحقین سے لاکھوں روپے تاوان طلب کرتے ہیں۔ ان کو ختم کرنے ان کے ٹھکانے تباہ کرنے کے دعوے آئے روز ہوتے ہیں۔ کئی سال گزر گئے نہ یہ ڈاکو ختم ہوئے نہ ان کے ٹھکانے ختم ہوئے۔ اب ایک بار پھر سخت ایکشن لینے کا پروگرام بنا ہے۔ خدا کرے یہ کامیاب ہو۔ کسی ناکام شو کی طرح ٹھس نہ ہو کہ شائقین کرسیاں توڑ کر سنیما ہال کے فرنیچر کو آگ لگا کر چلے جائیں۔ اس لیے اب مزید کئی ہزار پولیس والوں کو کچے کے علاقے میں روانہ کیا گیا ہے تاکہ وہ یہاں پہلے سے تعینات پولیس اور رینجرز کے ساتھ مل کر ڈاکوئوں کے ٹھکانوں پر آخری وار کر سکیں۔ ابھی تک تمام کارروائیوں کے باجود دیکھ لیں ڈاکو کئی مزید افراد کو بھی اٹھا کر لے گئے ہیں جو ان کے قبضہ میں مغوی ہیں ان بے چاروں کی جان سولی پر لٹکی ہے۔ ڈاکو ان کو مارتے ہوئے ویڈیو بھیج کر ان کے گھر والوں سے تاوان طلب کر رہے اور قہقہے لگاتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ امریکہ بھی آ جائے تو وہ ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ان کے سرپرست ہی حکومت میں شامل ہیں پولیس میں موجود ہیں تو جب ’’سیاں بہئے کوتوال تو ڈر کا ہے کا‘‘ اس لیے لگتا نہیں کہ عید کے بعد بھی کچھ ہو گا۔