• news

  بھٹو لیگیسی اور ’’بلاولی سیاست‘‘

بھٹو مرحوم کی برسی پر گڑھی خدا بخش میں ہر سال کسی پیر کامل کے عرس کی طرح میلے کا سماں بندھتا ہے اور مرحوم ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کی سزا کے خلاف صدر مملکت آصف علی زرداری کے دائر کردہ ریفرنس میں سپریم کورٹ کی جانب سے بھٹو مرحوم کی سزا کو غیر منصفانہ قرار دینے کے حالیہ فیصلے کے بعد تو آج ان کی 46 ویں برسی پر پیپلز پارٹی کے کارکنوں کی جانب سے پہلے سے بھی زیادہ عقیدت و احترام کا اظہار ہو گا۔ میں  بچپن میں اپنے شہر پاکپتن میں برصغیر کے پہلے پنجابی صوفی شاعر اور کشف و کرامات والے بزرگ بابا فرید گنج شکر کے عرس کے موقع پر لگائے جانے والے میلوں ٹھیلوں اور محافل سماع میں پورے ذوق شوق سے شریک ہوتا رہا ہوں۔ شہر فرید درحقیقت بزرگوں کا شہر ہے جہاں صحابیٔ رسولﷺ عزیز مکی اور تحریک پاکستان کے سرگرم لیڈر چن پیر سمیت کئی بزرگانِ دین مدفون ہیں اور سب کے عرس ذوق شوق سے منائے جاتے ہیں۔ اسی طرح لاہور میں حضرت علی ہجویری داتا گنج بخش اور دوسرے مدفون بزرگان دین کے عرس کی تقریبات میں بھی دلی لگن کے ساتھ شریک ہوتا رہا ہوں۔ یہ مواقع ایک طرح سے روحانی تسکین کے مراحل سے گزار کر وجدان کے دروازے کھولنے کا باعث بنتے ہیں۔ اولیائے کرام نے اپنی زندگیاں خود کو قرآن و سْنت کے قالب میں ڈھال کر گزار دیں اور اپنی ذات کو اسوۂ حسنہ کا عملی نمونہ بنایا اس لئے وہ بعداز زندگی بھی خلق خدا سے محبوبیت سمیٹ رہے ہیں اور ان کی درگاہوں پر حاضری دے کر غم روزگار اور دْنیاوی جھمیلوں سے وقتی طور پر بے نیاز ہو جاتے ہیں۔ جبکہ بزرگان دین کی درگاہوں پر ہمہ وقت جاری لنگر خلق خدا کا عرصہ حیات تنگ کرنے والے حکمرانوں کے مقابل خلقِ خدا کی بھوک مٹانے کا نادر وسیلہ بن چکا ہے جو ان بزرگان دین کی خلق خدا میں محبوبیت کی نشانی ہے۔ سندھ کی دھرتی بھی کامل بزرگوں، ولیوں کی دھرتی ہے جہاں سے شاہ لطیف بھٹائی کی سوز و گداز سے مزین شاعری کی پھوٹنے والی کرنیں چار دانگ عالم کو منور رکھتی ہیں اور خلق خدا کو روحانی بالیدگی کی منازل طے کراتی ہیں۔
بھٹو خاندان کا کوئی فرد کشف و کرامات والے مراحل سے تو شائد نہیں گزرا ہو گا مگر اس خاندان کے گڑھی خدا بخش والے آبائی قبرستان میں ذوالفقار علی بھٹو کے دفن ہونے کے بعد یہاں کا منظر اور نقشہ ہی بدل گیا ہے اور اب ہر چار اپریل کو گڑھی خدا بخش میں فی الواقع بزرگانِ دین کے عرس والا منظر ہی بنا نظر آتا ہے کہ ملک بھر سے بھٹو کے جیالے اور جیالیاں سفر کی صعوبتوں اور زندگی کی کٹھنائیوں سے گزر کر 4 اپریل کو گڑھی خدا بخش میں ڈیرے لگاتی ہیں۔ 4 اپریل 1979ء کو بھٹو کی پھانسی کی سزا پر عملدرآمد کے بعد 9 سال تک تو بھٹو کی برسی جنرل ضیاء￿  کے مارشل لاء￿  کی سختیوں میں سنگینوں کے سائے میں منائی جاتی رہی مگر ان سختیوں اورجیالوں اور جیالیوں پر ڈھائے جانے والے مارشل لائی ستم و جبر نے بھٹو ازم کے ساتھ ان کے جذبات کو پیوستہ کر دیا۔ چنانچہ جبر کا کوئی بھی ہتھکنڈہ ان کے پاؤں کی زنجیر نہ بن سکا اور بھٹو کی برسی پر کسی پیرکامل کے عرس کا گمان بڑھتا ہی گیا۔ اب تو اس قبرستان میں بھٹو خاندان کی تین اور قبریں بھی الگ الگ حوالے سے ا پنی شناخت پیدا کر چکی ہیں جن میں بھٹو کے بڑے بیٹے میر مرتضیٰ بھٹو اور اس کے بعد محترمہ بینظیر بھٹو اور ان کی والدہ بیگم نصرت بھٹو کی قبریں ہیں جو لوگوں کی توجہ کا مرکز بن رہی ہیں۔
مجھے گڑھی خدا بخش میں ستمبر 1997ء کو میر مرتضیٰ بھٹو کی پہلی برسی کے موقع پر جانے کا موقع ملا جس کا اہتمام میر مرتضیٰ کی بیوہ غنویٰ بھٹو نے پیپلز پارٹی کے مقابل اپنی سیاست کی رونمائی کے لئے بھی بطور خاص کیا تھا۔ لاہور سے ڈاکٹر مبشر حسن اور فرخ سہیل گوئندی مجھے اور حامد میر کو گڑھی خدا بخش لے کر گئے جہاں لاڑکانہ کے ایک ہوٹل میں ہمارا قیام تھا چنانچہ برسی کی تقریب سے پہلے غنویٰ بھٹو اور فاطمہ بھٹو کی مہربانی سے بھٹو مرحوم کی قیام گاہ المرتضیٰ کے ایک ایک حصے اور وہاں موجود نوادرات سمیت تمام اشیاء اور بھٹو مرحوم کے علاوہ ان کے بچوں کی خواب گاہوں تک ہماری ر سائی ہو گئی۔ مرتضیٰ بھٹو اپنی ہی بہن کی حکومت میں جس بے دردی کے ساتھ قتل ہوئے اس کے باعث پیپلز پارٹی کے جیالوں کے دلوں میں پیدا ہونے والے غصے نے مرتضیٰ کی پہلی برسی کو بھٹو مرحوم کی برسی جیسے اجتماع میں بدل دیا اور مجھے یوں محسوس ہوا جیسے المرتضیٰ والے بھٹو کے قلعہ میں نقب لگ گئی ہے۔ بیشک غنویٰ بھٹو بعد میں متحرک نہ رہ سکیں اور ان کی شہید بھٹو پارٹی کے لوگ بھی تتر بتر ہو گئے مگر میں سمجھتا ہوں کہ بھٹو ازم کومیر مرتضیٰ بھٹو کے قتل سے بھٹو کی پارٹی کے اندر سے جو تیر لگے تھے وہ اس پارٹی کی سیاست کے لیئے انتہائی خطرناک ثابت ہوئے۔
بھٹو کے خلاف نواب محمد احمد خاں کے مقدمہ قتل پر بات شروع ہو تو بہت طویل ہو جاتی ہے کیونکہ میں نے اس قتل کیس کی بطور ہائیکرٹ رپورٹر کوریج کی ہوئی ہے اور اس کیس کی تیاری کے کئی مراحل کا عینی شاہد بھی ہوں۔ اس بنیاد پر ہی میں اس کیس کو انصاف کا نہیں، بھٹو سے بوجوہ دشمنی پالنے والوں کی ذاتی اناؤں کی تسکین اور ان کے ذاتی مفادات کی تکمیل کا کیس سمجھتا ہوں۔ جنرل ضیاء نے یہ سوچ کر کہ بھٹو زندہ رہے تو وہ پھر اقتدار میں آئیں گے اور انہیں قبر میں اْتروا دیں گے، نواب محمد احمد خاں قتل کیس کے ذریعے بھٹو کو قبر میں اْتروانے کا اہتمام کیا تھا اس لئے انصاف نام کی عملداری کا اس کیس میں کوئی وجود نہیں تھا۔ اس کیس میں بے انصافی کی بنیاد تو اس کی سماعت کے لئے ہائیکورٹ کو ٹرائل کورٹ بنا کر رکھی گئی تھی کیونکہ اس سے بھٹو کے لئے ہائیکورٹ میں اپیل کا ایک قانونی حق ختم کر دیا گیا تھا جبکہ ٹرائل کورٹ کے سربراہ بھٹو سے ذاتی مخاصمت رکھنے والے قائم مقام چیف جسٹس مولوی مشتاق بنائے گئے اور استغاثہ کی ٹیم کی سربراہی ایم انور بار ایٹ لاء کو سونپی گئی جو اس وقت پی این اے کی تحریک میں بھٹو کو کوہالہ پل پر لٹکانے کا اعلان کرنے والے ائر مارشل اصغر خان کے قریبی ساتھی اور ان کی پارٹی تحریک استقلال میں شامل تھے۔ چنانچہ انہوں نے کیس کے فائل ورک کے بعد بلند بانگ دعویٰ کیا کہ اب اس کیس میں بھٹو کو اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی پھانسی سے نہیں بچا سکتا۔  یہ الگ بات کہ اپنے اس دعوے کے ایک ماہ بعد وہ خود اس جہانِ فانی سے گزر گئے مگر ان کی جانب سے بے انصافی کی بنیاد پر تیار کئے گئے کیس کا وہی نتیجہ نکلنا تھا جس کا انہوں نے دعویٰ کیا اور جو ذوالفقار علی بھٹو نے بالآخر پھانسی کے پھندے پر لٹک کر بھگت لیا۔ مگر ضیاء الحق سے رحم کی اپیل کی تجویز حقارت سے ٹھکراتے ہوئے انہوں نے جو فقرہ ادا کیا وہ ان کی کامل شخصیت کا حصہ بن چکا ہے۔ رحم کی اپیل کا یہ مسودہ ان تک بیگم نصرت بھٹو کے ذریعے پہنچایا گیا جسے دیکھ کر انہوں نے کہا کہ میں ایک آمر سے زندگی کی بھیک مانگنے کے بجائے اس کی پھانسی قبول کر کے تاریخ میں امر ہونا پسند کروں گا۔ اب ہر چار اپریل بھٹو کی برسی کے موقع پر گڑھی خدا بخش میں جمع ہونے والا انسانی ہجوم ان کے اس قول کو حقیقت کے قالب میں ڈھالتا نظر آتا ہے۔ وہ یقیناً پیر کامل نہیں ہوں گے۔ شائد کشف و کرامات والے مراحل سے بھی نہیں گزرے ہوں گے مگر انہوں نے خلق خدا میں موجود محروم طبقات کے دلوں میں روحانی بالیدگی کی جوت ضرور جگائی ہے جو ان کی ہر برسی کو کسی پیر کامل کے عرس کے قالب میں ڈھال دیتی ہے۔ اگرچہ پیپلزپارٹی کی زرداری قیادت کے ہاتھوں بھٹو ازم کو لگنے والا تیر کارگر ثابت ہو چکا ہے اور اس پارٹی میں روائتی جیالا پن فرزندِ بے نظیر بلاول بھٹو کی جانب سے پارٹی کو متحرک کرنے کی کاوشوں کے باوجود کہیں ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتا مگر بھٹو کی قبر کسی پیر کامل کے مزار کی طرح لوگوں کی عقیدت کے پھولوں سے ضرور معطر رہتی ہے۔  ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات بلاول نہ جانے کس ایجنڈے کے تحت آج اپنی اتحادی حکومت میں بھی بغاوت کی باتیں کرتے نظر آتے ہیں مگر اپنے عقیدت مندوں کی روحانی تسکین کا جو اہتمام بھٹو نے تاریخ میں امر ہو کر کیا ہے وہ بھٹو لیگیسی کو شائد کبھی مرنے نہیں دے گا۔
’’بلھے شاہ اساں مرنا ناہیں، گور پیاکوئی ہور‘‘

ای پیپر-دی نیشن